انڈین رکن پارلیمان اور بچوں اور خواتین کی بہبود کی وزیر سمرتی ایرانی’حیض آنا کوئی معذوری نہیں ہے بلکہ یہ ایک عورت کی زندگی کے سفر کا ایک قدرتی حصہ ہے آج جب خواتین کو زیادہ سے زیادہ مواقع مل رہے ہیں تو میرے خیال میں ہمیں ایسے مسائل نہیں اٹھانے چاہپیں جن میں خواتین کے لیے برابری کے مواقع کی نفی ہو۔‘
یہ خیالات انڈین رکن پارلیمان اور بچوں اور خواتین کی بہبود کی وزیر سمرتی ایرانی کے ہیں جن کا اظہار انھوں نے اس وقت کیا جب ایک مرد رکن اسمبلی کی جانب سے خواتین کے لیے ماہواری کے دنوں میں تنخواہ کے ساتھ چھٹیوں کا بل پیش کیا گیا۔
سمرتی ایرانی کے اسمبلی میں دیے گئے اس بیان پر نہ صرف انڈین بلکہ پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی خواتین اظہار خیال کرتی نظر آئیں۔ کچھ خواتین تو خاصی نالاں تھیں۔
اگرچہ اب بھی کئی شعبوں میں ماہواری کے دوران خواتین کو چھٹی تو مل جاتی ہے لیکن اسے بیماری کی چھٹی میں شمار کیا جاتا ہے۔ حقوق نسواں کے کارکن چاہتے ہیں کہ اس چھٹی کو ماہواری یا ’پیریڈ لیو‘ کا نام دیا جائے اور یہ ہر ماہ دی جائے اور اس کی تنخواہ بھی نہ کاٹی جائے۔
اس حوالے سے ایک قرارداد انڈین پارلیمان میں بھی پیش کی گئی تھی جس کی مخالفت وہاں کی وزیر نے کر دی۔
’پیریڈ کچھ خواتین کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوسکتے ہیں‘
ارچنا پوارنے سمرتی ایرانی کے بیان کو مکروہ، غیر ذمہ دارانہ اور بچگانہ قرار دیا۔
’خواتین اور بچوں کی ترقی کی وزیر۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم اور علم بہت ضروری ہے۔ آپ کے الفاظ نے مجھے چونکا دیا میڈم، آپ ایک عورت کی حیثیت سے اتنے سنگین مسئلے کا مذاق کیسے اڑا سکتی ہیں؟
’کیا آپ نے دنیا کے اعلیٰ ترین اداروں کی جانب سے کی جانے والی اس تحقیق کو پڑھنے کی زحمت بھی اٹھائی ہے کہ پیریڈ کی چھٹیاں اتنی اہم کیوں ہیں؟‘
انھوں نے مزید لکھا ’کیا آپ نے کبھی پی ایم ایس، پی سی او ایس/ پی سی او ڈی، موڈ سوئنگز، جسمانی تھکاوٹ، ذہنی تناؤ، درد ناک پیریڈ، کمر کے نچلے حصے میں درد، پیٹ میں درد، تھکاوٹ اور سر درد کے بارے میں سنا ہے؟ خواتین سے اب بھی توقع کی جاتی ہے کہ وہ پریشانی کی کوئی علامت دکھائے بغیر گھر کا سارا کام اور دفتری کام کریں۔۔۔ جو بات میری سمجھ میں نہیں آتی وہ یہ ہے کہ ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ کام کی جگہ پر مساوی مواقع اور امتیازی سلوک کے خلاف ہے؟‘
الزبتھ نامی خاتون نے بھی سمرتی ایرانی کو مخاطب کر کے لکھا: ’خود ایک عورت کے طور پر آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے اپنے پیریڈ خود نہیں مانگے، یہ ہم پر مسلط کیے گئے ہیں۔ اس طرح قدرت نے ہمیں مردوں کے برعکس بنایا ہے۔ پیریڈ کچھ خواتین کے لیے انتہائی تکلیف دہ ہوسکتے ہیں خاص طور پر وہ جو پی سی او ایس اور اینڈومیٹریوسس جیسی حالت میں مبتلا ہیں۔‘
کچھ لوگ سمرتی ایرانی کے حامی بھی نظر آئےانھی میں سے ایک پرکاش ٹھاکر نے لکھا: ’سمرتی ایرانی کی پیریڈ کی چھٹیوں کے تصور کی مخالفت اس بات پر مبنی ہے کہ خواتین کو ان کی صنف سے متعلق حیاتیاتی افعال کی بنیاد پر کام کی جگہ پر تنہا نہیں کیا جانا چاہیے یا ان کے ساتھ مختلف سلوک نہیں کیا جانا چاہیے۔
’اس کے بجائے، وہ کام کی جگہ پر مساوات کے وسیع تر مسئلے کو حل کرنے کے لیے زیادہ جامع نقطہ نظر کی ضرورت پر زور دیتی ہیں۔‘
نریشمان نامی صارف نے لکھا: ’جب آپ صنفی مساوات چاہتے ہیں تو پھر اس طرح کی تنخواہ والی چھٹیوں کے لیے کیوں روتے ہیں۔ میری والدہ ملازمت پیشہ خاتون تھیں۔ تقریباً 40 سال تک کام کیا، کبھی بھی ایسا کچھ نہیں ہوا،کیونکہ خواتین اسے اپنی زندگی کا حصہ سمجھتی ہیں۔‘
اکثر خواتین کو ماہواری کے دوران درد محسوس ہوتا ہےاپنی کمپنی میں پیریڈ لیو دینے والی پاکستانی خاتون
رمشا مریم پاکستان میں ایک ٹیکسٹائل ڈیزائنر ہیں۔ وہ اپنی کمپنی ’ہُک‘ چلاتی ہیں جہاں زیادہ تر خواتین کام کرتی ہیں اور وہ ہر ماہ اپنی خواتین ملازمین کے لیے تین دن کی ماہواری کی چھٹی یعنی پیریڈ لیو دیتی ہیں۔ اور اس چھٹی کی تنخواہ بھی نہیں کٹتی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے اپنی کمپنی بنائی تو انھوں نے سنا تھا کہ کچھ کمپنی پیریڈ لیو دیتی تھیں اور کچھ نہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے خواتین پر مبنی کمپنی بنائی تو ہم نے سوچا کہ ہمیں پیڑیڈ لیو دینی ہے۔ ہم نے پہلے ورک فرام ہوم دیا۔ پھر چھٹی دینے کا فیصلہ کیا۔ اب ملازمین خود فیصلہ کرتی ہیں کہ انھیں کب چھٹی چاہیے۔ شروع کے تین دنوں میں یا بعد کے تین دن وہ اپنی مرضی سے چھٹی لیتی ہیں۔ ‘
رمشا مریم کہتی ہیں کہ انھیں نہیں لگتا کہ خواتین کو چھٹی دینے سے ملازمین کے آپس میں مسائل ہوں گے۔
انھوں نے بتایا کہ ان کی کمپنی کی خواتین چھٹی پر جانے سے پہلے خود اپنا کاممکمل کرلیتی ہیں۔ ’انھیں پتا ہوتا ہے کہ چھٹی پر جائیں گی۔ مجھے نہیں لگتا یہ چھٹی دینا اتنا مسئلہ ہے۔ یہ چھٹی میٹرنیٹی کی طرح دی جانی چاہیے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم ایک چھوٹا کاروبار ہیں۔ ہم نے ابھی سے اسے شروع کر دیا ہے، آگے ہم ایڈجسٹ کر جائیں گے۔‘
رمشا مریم کا کہنا تھا اب بھی پیریڈ پر بات کرنا ایک ٹیبو (ممنوعہ موضوع) ہے۔ ’مجھے نہیں لگتا کہ کسی مرد کولیگ کو خیال بھی آتا ہو گا کہ خاتون کو یہ مسئلہ ہو گا۔ کچھ کمپنیز اسے بیماری کی چھٹی میں شامل کرلیتی ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ کسی کو خیال بھی آتا ہو گا کہ اس خاتون کو سپورٹ کر دیں۔‘
رمشا کہتی ہیں ’پیریڈ کے دوران کام کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔ میری بھی ہوتی ہے۔ میں سوچتی ہوں کہ جب کام میں نہیں کر پا رہی تو وہ دوسری خاتون ملازم بھی نہیں کر سکتی۔‘