انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے سرکاری فیصلے کو سپریم کورٹ نے صحیح قرار دیا تو کشمیری خاموش رہے، لیکن کیا سب کچھ ٹھیک ہوچکا ہے؟

ایک کشمیری سیاستدان کی بیٹی سارہ حیات شاہ 2013 میں لندن کی ایک یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور تعینات تھیں۔ اُن دنوں نریندر مودی پہلی بار وزیراعظم کے اُمیدوار کے طور پر انتخابی مہم چلا رہے تھے۔
’میں نے دیکھا کہ وہ کشمیر میں بھی ریلی نکال رہے ہیں۔ میں خود بھی سمجھ نہیں پائی کہ مجھے اچانک کیا ہو گیا۔ میں نے فیصلہ کیا کہ کشمیر واپس لوٹ کر سیاسی طور پر کچھ حصہ ڈالوں گی۔‘
سارہ 10 سال سے کشمیر کی سب سے بڑی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے ساتھ جُڑی ہیں۔
پانچ اگست 2019 کو انڈین پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ نے انڈیا کے زیرِانتظام کشمیر کی محدود خودمختاری کے خاتمہ کا اعلان کیا تو نیشنل کانفرنس کے لیڈر فاروق عبداللہ اور عمر عبداللہ کے علاوہ درجنوں سیاستدانوں کو نظربندی مراکز یا گھروں میں ہی قید کر لیا گیا۔ اُن میں سارہ حیات بھی شامل تھیں۔
آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کیا بدل گیا؟
اس فیصلے کا مطلب یہ تھا کہ اب کشمیر انڈیا کی دوسری ریاستوں کی طرح ہو گا یعنی کشمیر کا اپنا پرچم، اپنا آئین اور یہاں کی نوکریوں اور زمینوں پر مکمل اور خاص حقوق اب ماضی کی بات ہو چکے۔
اس کا یہ بھی مطلب تھا کہ اب کوئی بھی انڈین شہری یہاں کی شہریت حاصل کرکے یہاں زمین اور جائیداد کا مالک بن سکتا ہے۔

اس سے پہلے انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کی وجہ سے یہ سب ممکن نہیں تھا۔ انڈین آئین میں یہ شرط 1947 میں اُس وقت لگائی گئی تھی جب یہاں کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے انڈیا سے پاکستانی قبائلی دراندازوں کے خلاف فوجی مدد مانگتے ہوئے الحاق کا فیصلہ کیا تھا۔ تاہم عدالت نے گزشتہ ہفتے آئین کی اس شق کو 'عارضی' قرار دے کر مودی حکومت کا فیصلہ جائز ٹھہرایا۔
2019 کے اس پارلیمانی فیصلے کے چند ماہ بعد ہی یہاں کے تقریباً سبھی سیاسی لیڈروں اور بعض انڈین رضاکاروں نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ طویل سماعت کے بعد 11 دسمبر کو عدالت نے مودی حکومت کا فیصلہ صحیح قرار دیا اور اعتراض کرنے والی سبھی درخواستیں مسترد کر دیں۔
’کشمیر میں بِزنِس ایز یوژول‘
جس دن سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا، اُس روز کشمیر میں معمول کی زندگی جاری رہی۔ سکول تو سردیوں کی وجہ سے بند ہیں تاہم کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کام کاج جاری رہا، سیاح اور عام لوگ خوبصورت مقامات پر سیلفی لیتے دکھائی دیے جب کہ بازاروں میں معمول کی سرگرمیاں جاری رہیں۔

کشمیر سے معروف ترین انگریزی اخبار گریٹر کشمیر کے پہلے صفحہ پر تصویر سمیت ایک خبر کی سُرخی تھی ’بِزنِس ایز یوژول اکراس کشمیر۔‘
اس سب سے بظاہر معلوم ہوتا تھا کہ کشمیریوں نے اس فیصلے پر ردعمل کو غیرضروری سمجھا۔ لیکن جہاں ایک طرف سیاسی حلقوں نے اس فیصلے پر مایوسی اور بے اطمینانی کا اظہار کیا، وہیں عام لوگ اس پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھے، اور معمول کی سرگرمیوں میں مصروف رہے۔
اسے مودی حکومت نے اس فیصلے کی تائید اور سپورٹ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ ’نئی تبدیلی‘ سے لوگ خوش ہیں۔
’کشمیر میں جھوٹا خواب تھا اور انڈیا میں بڑا خوف‘
اس بارے میں عام لوگوں کی رائے جاننا نہایت مشکل ثابت ہوا۔ سوال سُنتے ہی لوگ مُنہ پھیر کر چلے جاتے ہیں۔تاہم بعض لوگوں نے محتاط لہجے میں اس پر بی بی سی کے ساتھ بات کی۔
ایڈووکیٹ شیخ ہلال نے بتایا کہ ’اچھا ہی ہوا۔ آرٹیکل 370 کشمیر میں ایک جھوٹا خواب تھا۔ وہ کون سا کام ہے جو انڈین گورنمنٹ یہاں کر پا رہی تھی۔ دوسری طرف انڈین عوام کو لگتا تھا کہ یہ کوئی بہت بڑی بات تھی، شاید انھیں لگتا تھا کہ اس کا کوئی کنیکشن پاکستان کے ساتھ ہے۔ اچھا ہے اب حقیقت سامنے آ گئی۔‘
ایک ریٹائرڈ ملازم عبدالرحمٰن ٹھاکر نے براہ راست جواب دینے سے گریز کیا۔ تاہم ان کا کہنا تھا: ’ہم نے صدیوں سے خوف دیکھا ہے، مستقبل بہت تاریک نظر آتا ہے۔‘
انجینیئرنگ کی ڈگری تین سال قبل مکمل کرنے والے ایک نوجوان نے بتایا: ’اگر حکومت کہتی ہے کہ یہ سب کرنے سے یہاں ترقی ہو گی اور بے روزگاری ختم ہو جائے گی، تو کہاں ہیں نوکریاں؟ میں تین سال سے انتظار کرتا رہا اور پھر ایک پرائیویٹ فرم میں معمولی نوکری پر گزارا کرنا پڑا۔‘

’ہم ہار گئے، لیکن ہم پھر لڑیں گے‘
سارہ حیات شاہ کہتی ہیں کہ یہ فیصلہ ان کی تنظیم نیشنل کانفرنس اور دوسری مقامی جماعتوں کے مؤقف کی صرف عدالتی ہار ہے۔ ’کیس تو ہم ہار گئے، لیکن ہم پھر لڑیں گے، قانون، آئین اور جمہوریت کے دائرے میں ہم یہ لڑائی جاری رکھیں گے۔‘
اس فیصلے کی عوامی مقبولیت کے بارے میں مودی حکومت کے دعوے سے متعلق اُن کا کہنا تھا کہ ’اگر سوال یہ ہے کہ لوگ اس فیصلے سے خوش ہیں یا نہیں، تو اس کا جواب لوگوں کو پوچھنا ہے، آپ وہ ہم سے پوچھیے تو صحیح۔ کوئی یکطرفہ طور پر یہ اعلان کردے کہ لوگ خوش ہیں، ایسے نہیں ہوتا۔‘
سارہ حیات شاہ2019 کے واقعات دہراتے ہوئے سارہ حیات کہتی ہیں کہ ’اگر واقعی آرٹیکل 370 کو ہٹانے سے یہاں کے لوگوں کو حیران کن فائدہ ہونا تھا، تو اُس وقت کئی ہفتوں تک لاک ڈاون کیوں تھا؟ لیڈر قید میں کیوں تھے، اور اگر سب ٹھیک ہو گیا تھا تو الیکشن کیوں نہیں ہو رہے ہیں، بڑی تعداد میں نوجوان آج بھی جیلوں میں کیوں ہیں؟‘
شیزازہ ملک نامی ایک سرکاری ملازمہ اس بات سے اتفاق نہیں رکھتیں۔ وہ کہتی ہیں: ’مجھے اس بارے میں کچھ نہیں کہنا کہ لوگ خاموش کیوں رہے۔ لیکن چار سال سے ہم ایک نیا کشمیر دیکھ رہے ہیں، بچوں کو کھیل کود اور تعلیم کے میدانوں میں نئے نئے مواقع مل رہے ہیں۔ ہم ترقی کا سفر شروع کر چکے ہیں۔‘
پیرزادہ عاشق’امن خوف سے نہیں انگیجمنٹ سے قائم ہوتا ہے‘
سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار پیرزادہ عاشق کہتے ہیں لوگوں کی خاموشی قدغنوں اور پولیس تھانوں میں طلبیوں کے خوف کا نتیجہ ہے۔
’یہاں تو صحافیوں کے لیے ایک چیلنج رہتا ہے کہ وہ حکومت کے موقف اور زمینی حقائق کو ایک ساتھ کیسے پیش کرے۔ یہاں کہانیاں باہر نہیں آتیں اور جو آتی ہیں ان پر سرکاری لائن کا غلبہ ہوتا ہے۔ ایسے میں صحافیوں کے لیے بھی کام کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘
عام زندگی میں دکھائی دینے والی امن کی علامات اور ترقیاتی منصوبوں سے متعلق پیرزادہ کہتے ہیں: ’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ڈیویلپمنٹ بھی ہوا ہے، اور تشدد کا لیول بھی بہت کم ہوا ہے، لیکن اس سب کے ساتھ لوگوں کو ڈر ہے کہ اگر اپنی سیاسی رائے ظاہر کریں گے تو جیل جائیں گے۔ اظہار رائے کی آزادی بہت اہم ہے۔ امن خوف سے نہیں انگیجمنٹ سے قائم ہوتا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر لوگوں کے ذہن میں کوئی آرزو ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے سبھی آئینی، جمہوری اور قانونی راستے بند ہو جائیں تو انتہاپسندی فیشن بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خاموشی کوئی اچھی چیز نہیں ہے، اور اسے سیلیبریٹ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کی وجوہات کو تلاش کرنا چاہیے۔‘