امِت چودھری کے مطابق ان کے لیے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ سے بری ہونا آسان نہیں تھا۔ وہ دو سال سے زیادہ جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے تھے۔
یہ 23 ستمبر سنہ 2023 کی بات ہے۔ انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں مظفر نگر کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ کا ماحول دوسرے دنوں کے مقابلے کچھ مختلف تھا۔
ایک مقدمے میں عدالت کے فیصلے کا انتظار تھا۔ وہاں موجود ایک ملزم کی باقی زندگی اسی فیصلے پر منحصر تھی۔
اور وہ شخص امِت چودھری تھے جن کی عمر تقریباً 30 سال ہے۔ وہ قتل کے ایک مقدمے میں نامزد ملزم تھے اور اپنے کیس کا خود دفاع کر رہے تھے۔
جب فیصلہ سنایا گیا تو امِت چودھری نے سکون کی سانس لی۔ عدالت نے انھیں تمام الزامات سے بری کر دیا تھا۔
لیکن بات ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ اب اس معاملے پر ہائی کورٹ میں سماعت ہوگی۔ استغاثہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ اب کیس ہائی کورٹ میں دائر کیا جائے گا۔
امِت چودھری کے مطابق ان کے لیے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ سے بری ہونا آسان نہیں تھا۔ وہ دو سال سے زیادہ جیل میں رہنے کے بعد ضمانت پر رہا ہوئے تھے۔
جیل سے ضمانت پر باہر آنے کے بعد انھوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ پھر قانون کی ڈگری حاصل کی اور وکیل بن کر اپنے ہی مقدمے کی پیروی کرنے لگے۔
امِت کہتے ہیں ’12 اکتوبر 2011 کو مظفر نگر کے تھانے کی عمارت میں ایک پولس اہلکار کے قتل کے الزام میں 17 لوگوں کو ملزم ٹھہرایا گیا تھا۔ مجھے اس معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بے قصور ہونے کے باوجود میں تقریباً دو سال، چار ماہ اور 16 دنوں تک سلاخوں کے پیچھے رہا۔‘
بہر حال اب 12 سال بعد 23 ستمبر سنہ 2023 کو عدالت نے اس معاملے میں امِت چودھری سمیت 12 ملزمان کو بری کر دیا۔ ایک ملزم نیتو کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ اس دوران چار ملزمان کی موت ہو گئی جن میں سے دو قتل کی سازش کرنے والوں میں شامل تھے۔
امِت نے بتایا: ’اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے، میں نے قانون کی تعلیم حاصل کی، جرح کی اور خدا نے میرا ساتھ دیا۔ میرے ایک سینیئر وکیل، جُلکرن سنگھ اس کیس میں اہم وکیل تھے۔ ضرورت پڑنے پر میں ان کے ساتھ عدالت میں جرح کرتا اور اپنی بات رکھتا تھا۔‘
عدالتی حکم کے بارے میں امِت کا کہنا ہے کہ ’وکیل استغاثہ پولیس اہلکار کے قتل اور ہتھیار لوٹنے کی مجرمانہ سازش کا جرم ثابت کرنے میں ناکام رہے۔‘
وکیل جُلکرن سنگھ نے بی بی سی کو بتایا: ’23 ستمبر کو عدالتی فیصلے میں اس معاملے میں امِت چودھری سمیت 12 افراد کو بری کر دیا گیا ہے۔‘
جبکہ اس معاملے میں استغاثہ کے سرکاری وکیل کلدیپ کمار نے بی بی سی کو بتایا کہ اس معاملے میں ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ معاملہ تھوڑا پرانا ہو گیا ہے اس لیے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن حکومت نے معاملے میں اپیل منظور کر لی ہے، اب معاملہ ہائی کورٹ میں چلے گا۔‘
کیا معاملہ تھا؟
12 اکتوبر سنہ 2011 کو شاملی ضلع کے تھانے کی عمارت میں ایک پولیس اہلکار کشن پال سنگھ کا قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کا اسلحہ بھی لوٹ لیا گیا تھا۔
مسٹر امِت نے بی بی سی کو بتایا: ’میری بہن اسی گاؤں میں رہتی ہے۔ اہم سازش کرنے والوں میں سے ایک میری بہن کا دیور نیٹو تھا۔ میں اس دن گاؤں میں ان لوگوں کے ساتھ تھا، شاید اسی لیے اس میں میرا نام بھی شامل کر لیا گیا تھا۔‘
انھوں نے کہا:’جب مجھے اس بات کا علم ہوا تو میں حیران رہ گیا۔ مجھے ایک ایسے کیس میں ملزم بنایا گیا جس کے بارے میں مجھے کوئی علم نہیں تھا۔ میرا نیٹو سے کبھی کوئی تعلق نہیں تھا۔‘
واقعے کے وقت امِت کی عمر تقریباً 18 سال تھی۔ شاملی اس واقعے سے چند روز قبل نیا ضلع بنایا گیا تھا۔
امِت کہتے ہیں: ’نئے شاملی ضلع کے اعلان سے پہلے، جائے واقعہ مظفر نگر ضلع میں آتا تھا۔‘
یہ بھی پڑھیے
سریکانت بولا: ایک غریب انڈین نابینا طالبعلم کی پانچ کروڑ پاؤنڈ کی کمپنی
انڈیا: ’ایک ساتھ 25 سرکاری سکولوں سے تنخواہ لینے والی‘ استانی گرفتار
12 سال کی جدوجہد
امِت چودھری در اصل باغپت ضلع کے کرتھل گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ ان کے والد ایک چھوٹے کسان ہیں اور ان کی والدہ گھریلو خاتون ہیں۔
امِت کہتے ہیں: ’2009 میں میں نے مظفر نگر کالج سے 12 ویں پاس کیا، اس کے بعد میں بڑوت سے بی اے کر رہا تھا۔ اسی دوران یہ واقعہ پیش آیا اور مجھے جیل بھیج دیا گیا۔‘
14 مارچ سنہ 2014 کو امِت کو ضمانت ملی اور وہ جیل سے باہر آئے۔
امِت کہتے ہیں: ’باہر آنے کے بعد، میں نے سب سے پہلے اپنی پڑھائی مکمل کی۔ اس کے بعد سنہ 2020 تک میں نے چوہدری چرن سنگھ یونیورسٹی میرٹھ سے ایل ایل بی اور ایل ایل ایم مکمل کیا۔‘
انھوں نے مزید بتایا: ’میں 2019 میں میرٹھ ڈسٹرکٹ کورٹ میں ایک وکیل کے طور پر رجسٹرڈ ہوا۔ عدالت سے اجازت کے بعد، میں نے اپنے کیس کی نمائندگی کے لیے مظفر نگر کورٹ میں حاضر ہونا شروع کیا۔‘
امِت کا کہنا ہے کہ ان پر قتل کا الزام لگانے کے بعد ان کے رشتہ داروں نے ان سے تعلقات توڑ لیے۔
امِت نے بتایا: ’ضمانت ملنے کے بعد جب میں گاؤں گیا تو لوگوں نے مجھ سے طرح طرح کے سوالات پوچھنا شروع کر دیے اور طعنے دینے شروع کر دیے۔ یہاں تک کہ میرے اپنے لوگوں نے بھی مجھ سے دوری اختیار کر لی۔ ایسی حالت میں میں نے گاؤں چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔‘
’میں گڑگاؤں چلا گیا اور کرائے کے ایک چھوٹے سے کمرے میں رہنے لگا۔ میں اپنی بے گناہی ثابت کرنا چاہتا تھا۔‘
فاقہ کشی کے دن
گڑگاؤں میں امِت نے ایک خاتون وکیل وندنا اوبرائے کے لیے بطور منشی کام کیا۔
امِت کے مطابق انھیں وہاں سے جو پیسے ملتے تھے ان سے وہ کھانے پینے کا بندوبست بھی نہیں کر پاتے تھے۔
انھوں نے بتایا: ’کچہری میری رہائش سے تقریباً چار کلومیٹر دور تھی۔ میں وہاں پیدل ہی جاتا تھا کیونکہ میرے پاس کرائے کے پیسے نہیں تھے۔‘
بی بی سی نے گڑگاؤں کی ڈسٹرکٹ کورٹ میں خاتون وکیل وندنا اوبرائے سے بھی بات کی۔ انھوں نے بتایا: ’امِت نے میرے ساتھ 2015 میں کام کیا، اس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ مالی بحران کا شکار ہے، ورنہ میں ان کی ضرور مدد کرتی۔‘
سماعت کی تاریخ پر دوستوں کی مدد
چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے امِت اسی کیمپس میں رہتے تھے۔
امِت کا ایک رشتہ دار بھی وہاں ایم ایس سی کی تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ ان کی درخواست پر ان کے ایک جونیئر پرشانت کمار نے امِت کی مدد کی۔
امِت کہتے ہیں: ’پرشانت اور کچھ دوسرے دوست ہر تاریخ پر عدالت جانے سے پہلے میری جیب میں 500 روپے کا نوٹ رکھتے تھے۔‘
پرشانت نے بی بی سی کو بتایا: ’امِت کی لمبی جدوجہد کی ہے، میں اس کا گواہ ہوں۔‘
ان کے دوست وویک کہتے ہیں: ’خود ایک طالب علم ہونے کی وجہ سے میں امِت کی زیادہ مدد نہیں کر سکا۔ آج میں اس کے بری ہونے پر خوش ہوں۔‘
امِت چودھری کی جونیئر پرینکا تومر نے بی بی سی کو بتایا: ’میں نے کہا تھا کہ اگر امِت چودھری کو عدالت سے بری کر دیا جاتا ہے تو میں دعوت کروں گی، اب وہ وقت آ گیا ہے۔‘
امِت اپنے ماضی کو بھول کر مستقبل پر توجہ مرکوز کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’میں وکالت کا پیشہ اپنا کر اپنے جیسے لوگوں کی آواز بننا چاہتا ہوں، جس طرح میں بے گناہ ہونے کے باوجود قانون کے شکنجے میں پھنس گیا، اس طرح کوئی اور بے گناہ بھی نہ پھنسے۔‘
امِت چودھری اب کریمنل جسٹس میں پی ایچ ڈی کرنا چاہتے ہیں۔