افغانستان میں بھوک کا شکار بچے: ’طالبان نے کہا انھیں زہر دے دو لیکن کمانے کے لیے گھر سے باہر مت نکلنا‘

افغانستان میں خواتین کے زیر انتظام 20 لاکھ گھرانوں کو نا قابل بیان مشکلات کا سامنا ہے۔سہیلہ کا کہنا ہے کہ طالبان کے دور حکومت میں وہ کام کرنے اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے باہر نہیں جا سکتیں۔ وہ کہتی ہیں’ایسی کئی راتیں گزری ہیں جب ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ ‘

’آخری بار دو ماہ پہلے میں اپنے بچے کے لیے دودھ خرید سکی تھی اور اب میں اس کو دودھ کی بوتل کو صرف قہوے سے بھر پاتی ہوں یا پھر اس کو چائے میں روٹی بھگو کر کھلا پاتی ہوں۔‘

مشرقی کابل کی پہاڑی پر مٹی کے کچے گھر میں رہنے والی سہیلہ نیازی فرش پر بیٹھی اپنے بچے کی بھوک کا ذکر کر رہی تھیں۔

ان کے گھر تک جانے کے لیے کوئی سڑک موجود نہیں اور وہاں پہنچنے کے جا بجا بہتے گندے پانی کے درمیان سے کچے راستے سے گزرنا پڑتا ہے۔

سہیلہ نیازی بیوہ ہیں جن کے چھ بچے ہیں جن میں ان کی سب سے چھوٹی بیٹی 15 ماہ کی ہے جس کا نام حسنہ فقیری ہے۔

سہیلہ اپنے بچوں کی بھوک مٹانے کے لیے جس قہوے کا حوالہ دے رہی ہیں وہ سبز پتوں اور گرم پانی سے بنی افغانستان کی روایتی چائے ہے جس میں دودھ یا چینی نہیں شامل ہوتی۔ اس میں ایسی کوئی چیز نہیں ہوتی جو بچے کے لیے درکار غذائیت کے معیار پر اترتی ہو۔

سہیلہ کا شمار بھی ان ایک کروڑ افراد میں ہے جنھیں گذشتہ ایک سال کے دوران اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کے تحت خوراک کی ہنگامی امداد ملنا بند ہو گئی ہے اور اس کی وجہ بڑے پیمانے پر فنڈنگ کی کمی اور کٹوتیاں ہیں جس کے باعث خاص طور پر افغانستان میں خواتین کے زیر انتظام 20 لاکھ گھرانوں کو نا قابل بیان مشکلات کا سامنا ہے۔

سہیلہ کا کہنا ہے کہ طالبان کے دور حکومت میں وہ کام کرنے اور اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے باہر نہیں جا سکتیں۔

’ایسی کئی راتیں گزری ہیں جب ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ میں اپنے بچوں سے کہتی ہوں کہ میں رات کے اس وقت کہاں بھیک مانگ سکتی ہوں؟ وہ بھوک کی حالت میں سو جاتے ہیں اور جب جاگتے ہیں تو میں سوچتی ہوں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔‘

’کبھی کبھار پڑوس سے ہمارے لیے کچھ کھانا آتا ہے تو بچے بلکتے ہوئے کہتے ہیں ’مجھے دو، مجھے دو۔ میں انھیں پرسکون کرنے کے لیے اس کھانے کو ان کے درمیان تقسیم کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔‘

بھوکی بچی کو پرسکون کرنے کے لیے ’نیند کی دوا‘ کا استعمال

اپنی بھوکی بچی کو پرسکون کرنے کے لیے سہیلہ اسے ’نیند کی دوا‘ دیتی ہیں۔

سہیلہ کہتی ہیں ’میں اسے نیند کی دوا اس لیے دیتی ہوں کہ وہ جاگ کر دودھ نہ مانگے کیونکہ میرے پاس اسے دینے کے لیے دودھ نہیں ہے۔ اس دوائی کے بعد وہ ایک پورا دن سوجاتی ہے۔‘

سہیلہ کہتی ہیں۔ ’کبھی کبھی میں یہ دیکھنے کے لیے چیک کرتی ہوں کہ آیا وہ زندہ ہے یا کہیں مر تو نہیں گئی؟‘

ہم نے اس دوا کے بارے میں پوچھا تو ہمیں پتہ چلا کہ یہ ایک عام اینٹی ہسٹامائن یا اینٹی الرجی دوا ہے جس کے ضمنی اثرات میں نیند آتی ہے۔

ڈاکٹروں نے ہمیں بتایا ہے کہ اگرچہ یہ ٹرنکولائزرز اور اینٹی ڈپریشن سے کم نقصان دہ ہیں۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ کچھ افغان والدین اپنے بھوکے بچوں کو یہ دوائیں دیتے ہیں، لیکن زیادہ مقدار میں یہ دوا سانس کی تکلیف کا باعث بن سکتی ہے۔

سہیلہ کہتی ہیں کہ ان کے شوہر ایک عام شہری تھے جو 2022 میں صوبہ پنجشیر میں طالبان فورسز اور حکومت کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کے درمیان لڑائی میں کراس فائر میں مارے گئے تھے۔

ان کی موت کے بعد وہ عالمی ادارہ خوراک کی طرف سے آٹا، تیل، راشن سمیت دیگر امدادسے گزر بسر کر رہی تھیں۔

اب ڈبلیو ایف پی کا کہنا ہے کہ وہ شدید بھوک کا سامنا کرنے والے صرف 30 لاکھ مستحق افراد کو امدادای سامان فراہم کرنے کے قابل ہیں جو اصل تعداد کا ایک چوتھائی سے بھی کم ہے

سہیلہ کے گزر بسر کا مکمل انحصار اب رشتہ داروں یا پڑوسیوں کے عطیات پر ہے۔

جب تک ہم وہاں رہے اس میں سے زیادہ تر وقت ان کی بیٹی حسنہ خاموش اور بے سدھ دکھائی دیں۔

14 ماہ کی عمر میں وزن ایک نوزائیدہ بچے کے برابر

یونیسیف کے مطابق حسنہ غذائیت کی کمی کے شکار ان تین ملین سے زیادہ بچوں میں سے ایک ہیں۔ حسنہ ابھی ابتدائی سٹیج پر ہیں تاہم ایک چوتھائی سے زیادہ بچے بدترین غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں یہ اب تک کی بدترین صورتحال ہے۔

عالمی ادارہ خوراک نے عرصے سے ان بچوں کی صحت کی ضروریات کو تباہ ہونے سے روکا تھا تاہم اب فنڈز میں کمی کے باعث اس امداد کو حاصل کرنے والے افراد میں کٹوتی کے باعث غذائی قلت ملک کے سب سے کم عمر افراد کو تباہ کر رہی ہے۔

انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس (آئی سی آر سی) طبی کارکنوں کی تنخواہیں ادا کر رہی تھی، اور 30 سے زیادہ ہسپتالوں میں ادویات اور خوراک مہیا کر رہی تھی تاہم 2021 میں افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد اس میں تعطل آ گیا۔

اور اب ادارے کے پاس اس کو جاری رکھنے کے لیے وسائل نہیں ہیں، اور بیشتر صحت کی سہولیات سے امداد واپس لے لی گئی ہے جس میں افغانستان کے بچوں کے واحد ہسپتال اندرا گاندھی چلڈرن ہسپتال بھی شامل ہے۔

طالبان کی طرف سے ہسپتال کے مقرر کردہ میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد اقبال صادق نے ہمیں بتایا کہ ’ڈاکٹرز اور نرسوں کی تنخواہ اب حکومت کی طرف سے آتی ہے اور ان سب کی تنخواہوں کو نصف کر دیا گیا ہے۔ ‘

ہسپتال نے اپنا آؤٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹ بھی بند کر دیا ہے اور وہ صرف ان لوگوں کے لیے خدمات فراہم کر رہا ہے جنھیں ہسپتال میں داخل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

غذائیت کی کمی کا سامنا کرنے والے مریضوں کے لیے مختص وارڈ مکمل بھرا ہوا ہے اور کئی دن انھیں ایک بستر پر ایک سے زیادہ بچوں کو داخل کرنا پڑتا ہے۔

ایک کونے میں سمایا سیدھی بیٹھی ہے۔ 14 ماہ کی عمر میں اس کا وزن ایک نوزائیدہ بچے کے برابر ہے، اس کا چھوٹا سا چہرہ کسی بڑی عمر کے شخص کی طرح جھریوں سے بھر گیا ہے۔

ان کے بعد محمد شفیع ہیں۔ ان کا وزن 18 ماہ میں عمومی وزن کا نصف ہے۔ ان کے والد طالبان جنگجو تھے جو ایک سڑک حادثے میں مارے گئے جبکہ ننھے شفیع کی والدہ کی وفات بھی غذائیت کی کمی کی بیماری کے باعث ہوئی۔

18 ماہ کا پوتا غذائی قلت کا شکار

جب ہم ان کے پلنگ کے پاس سے گزرے ان کی بوڑھی دادی حیات بی بی ہمیں پریشان نظر آئیں ۔ وہ ہمیں اپنی کہانی سنانا چاہتی تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ طالبان نے ان کے پوتے کو ہسپتال تک تو لانے میں مدد کی لیکن وہ نہیں جانتیں کہ وہ کیسے گزارا کریں گی۔

حیات بی بی کہتی ہیں، ’میں خدا کی رحمت پر بھروسہ کر رہی ہوں۔ میرے پاس تو گزر بسر کا کوئی بھی ذریعہ نہیں۔ میں بالکل بے آسرا ہو چکی ہوں۔‘

حیات بی بی کی آنکھیں ہمیں یہ سب بتاتے ہوئے اشکبار ہو گئیں۔ ’میں خود کو کھڑا رکھنے کی بہت کوشش کر رہی ہوں مگر میرے سر میں اتنا درد ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ پھٹ سکتا ہے۔‘

ہم نے طالبان حکومت کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے پوچھا کہ وہ عالمی برادری کو مزید امداد دینے پر راضی کرنے کے لیے کیا کر رہے ہیں۔

’امداد میں کٹوتی کی گئی ہے کیونکہ عطیہ دینے والے ممالک کو اپنے معیشت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ کووڈ اور یوکرین میں جنگ جیسی دو بڑی تباہیوں کے باعث ہم ان سے مدد کی توقع نہیں کر سکتے۔ ان سے بات کر کے بھی ہمیں امداد نہیں ملے گی۔‘

’ہمیں خود انحصار بننا ہو گا۔ ہماری معیشت مستحکم ہو چکی ہے اور ہم کان کنی کے ٹھیکے دے رہے ہیں جس سے ہزاروں ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ لیکن میں ہر گز یہ نہیں کہہ رہا کہ امداد میں کمی کی جائے کیونکہ ہمیں ابھی بھی کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔‘

تو کیا طالبان کی پالیسیاں بھی اس مسئلے کا ایک حصہ بنیں کیونکہ ڈونر ممالک ایسے ملک کو پیسہ نہیں دینا چاہتے تھے جہاں حکومت نے خواتین پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہوں؟

اس کے جواب میں ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا کہ ’اگر امداد کو دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے تو پھر امارت اسلامیہ کی اپنی اقدار ہیں جن کی وہ ہر قیمت پر حفاظت کرے گی۔ افغانوں نے ماضی میں ہماری اقدار کے تحفظ کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں اور وہ امداد کی کٹوتی کو بھی برداشت کریں گے۔‘

تاہم ان کے ایسے جملوں سے بہت سے افغانوں کو تسلی نہیں ہوگی۔ ملک کے دو تہائی لوگ نہیں جانتے کہ ان کا اگلا کھانا کہاں سے آئے گا۔

ہم بچوں کے لیے کھانا کمانے جاتے ہیں اور وہ ہمیں ہراساں کرتے ہیں‘

کابل کی ایک سڑک پر ٹھنڈے سیلن زدہ ایک کمرے کے گھر میں ہم ایک خاتون سے ملے جو کہتی ہیں کہ انھیں طالبان نے سڑک پر پھل، سبزیاں، موزے اور دیگر چھوٹی موٹی اشیا فروخت کرنے سے روک دیا ہے۔ اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انھوں نے ہم سے بات کی۔

وہ کہتی ہیں کہ انھیں ایک بار حراست میں بھی لیا گیا ہے۔ ان کے شوہر جنگ کے دوران مارے گئے تھے۔ اب اپنے چار بچوں کو پالنے کی زمہ داری ان کے کاندھوں پر ہے۔

اپنی صورت حال کے بارے میں بتاتے ہوئے وہ جذباتی ہو گئیں۔

’انھیں کم از کم ہمیں کام کرنے اور ایمانداری سے روزی کمانے کی اجازت دینی چاہیے۔ میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ ہم برا کام کرنے نہیں جا رہے۔ ہم صرف اپنے بچوں کے لیے کھانا کمانے جاتے ہیں اور وہ ہمیں اس طرح ہراساں کرتے ہیں۔‘

اب وہ اپنے 12 سالہ بیٹے کو کام کرنے کے لیے باہر بھیجنے پر مجبور ہیں۔

’میں نے ایک طالبان بھائی سے پوچھا، اگر میں کماؤں نہیں تو اپنے بچوں کو کیا کھلاؤں؟ اس نے کہا کہ انھیں زہر دو لیکن اپنے گھر سے باہر مت نکلنا۔‘

وہ کہتی ہیں۔ ’دو بار طالبان کی حکومت نے مجھے کچھ رقم دی، لیکن وہ گزر بسر کے لیے انتہائی کم تھی۔‘

طالبان کے قبضے سے پہلے عوامی اخراجات کا تین چوتھائی حصہ پچھلی حکومت کو براہ راست دیے جانے والی غیر ملکی فنڈنگ سے آتا تھا تاہم اگست 2021 میں اسے بند کر دیا گیا اور اس سے معیشت کو شدید دھچکا لگا۔

ایسے میں امدادی اداروں نے ایک عارضی فنڈنگ کا سلسلہ شروع کیا تاہم اس میں سے زیادہ تر فنڈنگ اب ختم ہوچکی ہے۔

صورتحال کی سنگینی کو پیش کرنا انتہائی مشکل ہےاور یہ صورت حال ہم پچھلے سال سے بار بار دیکھ رہے ہیں ۔ اس وقت بھی افغانستان میں لاکھوں افراد محض سوکھی روٹی اور پانی پر زندہ ہیں لیکن ان میں بہت سے لوگ سانس کی ڈوری بحال نہیں رکھ سکیں گے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US