’19 دسمبر 1984 کو حسب اعلان کہنے کو تو ریفرنڈم ہوا لیکن اس میں حصہ اتنے کم لوگوں نے لیا کہ ہمیں شرم آنے لگی۔ ریفرنڈم والے دن میں نے اس وقت کے ڈآئریکٹر انٹیلیجنٹس بیورو کے ساتھ اسلام آباد اور راولپنڈی میں واقع چند پولنگ سٹیشنوں کا دورہ کیا۔ وہ سب سنسنان اور ویران پڑے ہوئے تھے۔‘
آج سے 39 برس قبل پاکستان میں ہونے والے ریفرنڈم کا آنکھوں دیکھا حال اس دور کے وفاقی سیکریٹری داخلہ روئیداد خان کی کتاب ’پاکستان انقلاب کے دہانے پر‘ میں بیان کیا گیا ہے۔چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور صدر پاکستان ضیاء الحق کی جانب سے عوام سے پوچھے گئے سوال پر ہونے والے ریفرنڈم کے سرکاری نتائج میں 80 فیصد عوامی شرکت اور 90 فیصد کی طرف سے مثبت جواب کا اعلان کیا گیا۔سرکاری اعداد و شمار جو بھی رہے ہوں ضیاء الحق کے چیف آف سٹاف جنرل کے ایم عارف، سندھ کے گورنر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل جہانداد خان اور وفاقی سکریٹری داخلہ روئیداد خان کے ریفرنڈم کے حوالے سے تحریری خیالات اسے عوامی تائید سے محروم فضول ڈرامہ ثابت کرتے ہیں۔ پاکستان کے ائین کے آرٹیکل 48 کی ذیلی شق چھ میں ریفرنڈم کا ذکر کیا گیا ہے۔ کسی قومی نوعیت کے معاملے پر عوامی رائے معلوم کرنے کے لیے صدر مملکت لوگوں سے ایک سوال کی صورت میں ان کی تائید طلب کر سکتے ہیں۔تاریخی طور پر آئین کی یہ دفعہ 1977 کے الیکشن کے بعد اپوزیشن کی احتجاجی تحریک کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے شامل کی تھی۔وہ انتخابی دھاندلی کے حوالے سے ریفرنڈم کے ذریعے لوگوں کی رائے جاننا چاہتے تھے مگر بعد میں وہ اپنے ارادے سے پیچھے ہٹ گئے۔ضیاء الحق ریفرنڈم کی طرف کیوں گئے؟ضیاء الحق نے پانچ جولائی 1977 کو مارشل لاء نافذ کرتے ہوئے اکتوبر میں انتخابات کا اعلان بھی کیا تھا۔15 جولائی کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مشتاق حسین کو چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا۔ ان کی سربراہی میں قائم کمیٹی نے انتخابی نظام وضع کر کے 2 اگست کو الیکشن کے شیڈیول کا اعلان کر دیا۔18 اکتوبر 1977 کو ایک ہی روز قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہونے تھے۔دوسری بار الیکشن کے التواء نے ضیاء کی شہرت اور ساکھ کو دھچکا دیا۔ فوٹو: اے ایف پیمگر یکم اکتوبر کو ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر خطاب میں ضیا ءالحق کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ان حالات میں الیکشن کروانا ایک بدترین بحران کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ضیاء الحق کے ساتھ آٹھ برس تک چیف آف سٹاف رہنے والے جنرل ریٹائرڈ کے ایم عارف اپنی کتاب ’ورکنگ ود ضیاء‘ میں انتخابات کے التوا کی وجوہات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔’ضیاء الحق اس بات کو روکنا چاہتے تھے کہ بھٹو کا مقدمہ کہیں انتخابی مسئلہ نہ بن جائے۔‘ضیاء جو اب تک ایک متذبذب حکمران تھے اقتدار کا مزہ چکھنے کے بعد طاقت اور اختیار کے سحر میں گرفتار ہو گئے تھے۔جب ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو سے عدالت کے ذریعے چھٹکارا حاصل کرنے کا بندوبست کر لیا تو انہوں نے 23 مارچ 1979 کو ایک مرتبہ پھر عام انتخابات کا اعلان کر دیا۔مگر ایک بار پھر انہوں نے ’مثبت نتائج‘ نہ ملنے کا جواز بنا کر الیکشن منسوخ کر دیے۔ اس بار پیپلز پارٹی کے مخالف سیاسی رہنماؤں نے بھی انہیں بھٹو کے بغیر پیپلز پارٹی کی واپسی کا ڈراوا بھی دیا۔’دوسری بار الیکشن کے التواء نے ضیاء کی شہرت اور ساکھ کو دھچکا دیا۔ ان کے اعتماد اور اعتبار کا جو گراف پہلے ہی مشکوک تھا اور نیچے چلا گیا۔‘ضیا الحق کے چیف آف سٹاف جنرل کے ایم عارف نے ان الفاظ میں انتخابی وعدہ خلافی کے نتائج کا تجزیہ کیا ہے۔سی ایم ایل اے کا طنزیہ نام کیا رکھا گیا؟عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے ضیا الحق نے سندھ سے ایک سویلین وزیراعظم کی تلاش شروع کی۔ فروری 1980 کو پیپلز پارٹی کے رہنما غلام مصطفی جتوئی کی ان سے ملاقات کے بعد لگنے لگا کہ شاید وہ وزارت عظمی کے لیے چن لیے گئے ہیں۔مگر جتوئی کی دبئی میں غلام مصطفیٰ کھر سے ملاقات نے ضیا الحق کو بد مزہ کر دیا۔ انہوں نے سویلین وزیراعظم کا خیال ترک کر لیا۔اگلے برس جب تحریک بحالی جمہوریت کا آغاز ہوا تو جتوئی اس کے مرکزی رہنما بن گئے۔ضیا الحق کے دور میں غلام اسحاق خان چیئرمین سینیٹ تھے۔ فوٹو: اے ایف پیایم آر ڈی کی تحریک کی اندرون سندھ پزیرائی سے خائف ہو کر ضیاء الحق نے اگست 1983 میں ملک میں تین مرحلوں میں انتخابات کا اعلان کیا۔ مقامی صوبائی اور قومی سطح پر یہ مرحلہ ڈیڑھ سال میں مکمل ہونا تھا۔جنرل جہاندار خان اس دور میں سندھ کے گورنر اور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے۔ ان کی کتاب ’پاکستان قیادت کا بحران‘، ضیاء الحق کی پالیسیوں اور فیصلوں کے تجزیوں کا احاطہ کرتی ہے۔وہ لکھتے ہیں کہ 1984 تک ضیا کا جوش ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔ انتخابات سے بار بار انکار سے وہ عوام کا اعتبار کھو چکے تھے۔ لوگوں کو یقین تھا کہ وہ ہر قیمت پر اقتدار سے چمٹے رہیں گے۔جہانداد خان کہتے ہیں کہ ضیاء الحق کے لیے استعمال ہونے والے ’چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر‘ یعنی سی ایم ایل اے کے الفاظ کو لوگ بار بار کی وعدہ خلافیوں پر طنزیہ طور پر ’کینسل مائی لاسٹ اناؤنسمنٹ‘ کہنا شروع ہو گئے تھے۔پیچیدہ اور طویل سوال ضیاء الحق کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ نہ تھا کہ وہ سیاسی عمل کا آغاز کریں۔انہیں ہر لمحہ یہ احساس ستاتا تھا کہ ان کا اقتدار عوامی تائید نہیں بلکہ توپ کے دہانے کی مرہون منت ہے۔اس احساس سے چھٹکارا پانے کے لیے انہوں نے یکم دسمبر کو اعلان کیا کہ 19 دسمبر کو ریفرنڈم کے ذریعے لوگوں سے رائے لی جائے گی۔اگر ووٹرز کی اکثریت کا جواب ہاں میں ہوا تو اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ پاکستان کے عوام نے موجودہ حکومت پر اعتماد کیا ہے اور ضیاء الحق اگلے پانچ سال کے لیے صدر ہوں گے۔اس ریفرنڈم کے لیے پوچھا جانے والا سوال طویل اور پیچیدہ تھا۔بقول جنرل کے ایم عارف ناقدین نے دعویٰ کیا کہ یہ سوال بڑی مکاری سے ترتیب دیا گیا تھا جس کا واحد مقصد مذہبی احساسات سے کھیلتے ہوئے ’مثبت نتائج‘ حاصل کرنا تھا۔بہت سے ان پڑھ لوگوں کو پتہ ہی نہیں چلا ہوگا کہ وہ کس کے لیے ووٹ ڈال رہے ہیں۔ضیا الحق نے عوامی رائے جاننے کے لیے 19 دسمبر کو ریفرنڈم کروایا۔ فوٹو: اے ایف پیبیلٹ پیپر پر ضیاء الحق کو پانچ سال کے لیے صدر بنانے کی تجویز سے متفق ہونے کی سادہ عبارت کے بجائے یہ طویل عبارت پرنٹ کی گئی تھی۔’صدر پاکستان ضیاء الحق نے پاکستانی قانون قران و سنت کے مطابق ڈھالنے اور پاکستانی نظریے کو بقا اور تحفظ بخشنے کے لیے جو عمل شروع کیا ہے کیا اپ اس کی تائید کرتے ہیں؟ کیا اپ اس عمل کے جاری رہنے اور مزید مستحکم بنانے کی حمایت کرتے ہیں؟‘جن تھا یا ریفرنڈم تھااس دور کے انتخابی قوانین کے مطابق ووٹ ڈالتے وقت شناختی کارڈ دکھانا ضروری نہیں تھا۔ ضیاء الحق کی کابینہ اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کونسل نے انہیں مشورہ دیا کہ ریفرنڈم میں اس قانون کی پابندی کی جائے۔مگر ضیاء نے ریفرنڈم کی ساکھ بنانے اور اسے قانون کے مطابق ثابت کرنے کے لیے یکم دسمبر کو اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ ووٹ دینے کے لیے شناختی کارڈ دکھانا لازمی ہوگا۔عوام کو قائل اور مائل کرنے کے لیے انہوں نے ملک گیر دورے کیے۔ دور دراز علاقوں میں لوگوں کے پاس شناختی کارڈ نہ ہونے کی اطلاعات نے انہیں تشویش میں مبتلا کر دیا۔شناختی کارڈ لازمی والی شرط کا از سر نو جائزہ لینے کا حکم دیا گیا۔ متعلقہ حکام نے اس پر غور کیا اور انہیں مشورہ دیا گیا کہ اس مرحلے پر قانون میں تبدیلی لوگوں کے ذہنوں میں ریفرنڈم کے نتائج کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر سکتی ہے۔ضیاء الحق نے اس سفارش کو ماننے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے قانون بدل دیا اور ووٹ ڈالنے کے لیے شناختی کارڈ دکھانے کی پابندی واپس لے لی۔اس رعایت سے بھی لوگوں کے دل اور قدم پولنگ سٹیشن کی طرف مائل نہ ہوئے۔وفاقی سیکرٹری داخلہ روئیداد خان نے راولپنڈی کے لالہ زار میں قائم خواتین کے پولنگ سٹیشن کا دورہ کیا جہاں تمام انتخابی عملہ موجود تھا مگر ووٹر ندارد۔یہ صورتحال دیکھ کر انہوں نے انتخابی عملے کو مبارکباد دی کہ انہوں نے نہایت مستعدی سے اتنا بڑا کام نمٹا دیا ہے۔اس پر وہاں کی پولنگ آفیسر سمیت سارا عملہ ایک ساتھ با آواز بلند بولا ’ہمیں تو صبح سے ووٹرز کی شکل تک نظر نہیں آئی۔ ہم تو بے کار بیٹھے مکھیاں مار رہے ہیں۔‘اس دور میں راولپنڈی کے اسسٹنٹ کمشنر جاوید اقبال اعوان کی ذمہ داری میں ریفرنڈم کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جمع کرنا شامل تھا۔ انہوں نے خود ضیاء الحق کی تجویز کی مخالفت میں ووٹ دیا۔لوگوں کی عدم دلچسپی کو دیکھتے ہوئے صبح 11 بجے یہ حکم دیا گیا کہ کوئی بھی شخص اپنے مقررہ پولنگ سٹیشن سے ہٹ کر کہیں بھی ووٹ ڈال سکتا ہے جس پر جاوید اقبال اعوان نے یہ تبصرہ کیا، ’صبح 11 بجے تک ریفرنڈم کا عمل منصفانہ اور پھر مکمل طور پر آزاد ہو گیا۔‘ایسی ہی صورتحال کا سامنا گورنر سندھ جنرل جہانداد خان کو بھی ہوا۔ وہ کراچی ویسٹ کے ضلع میں پولنگ کا جائزہ لینے پہنچے تو دیکھا کہ پولنگ سٹیشن پر ہو کا عالم تھا۔ایم عارف کے مطابق ضیاء الحق اس بات کو روکنا چاہتے تھے کہ بھٹو کا مقدمہ کہیں انتخابی مسئلہ نہ بن جائے۔ فوٹو: اے ایف پیجب انہوں نے چند لوگوں سے اس عدم دلچسپی کی وجوہات جاننا چاہیں تو ایک باریش شخص نے جواب دیا، ’ضیا الحق کو بھلا کون ووٹ دینے آئے گا۔ ان کا ٹیلی ویژن اس وقت مقبول گانے والوں کے پروگرام پیش کر رہا ہے۔‘جہانداد خان کہتے ہیں کہ انہوں نے واپس آ کر ضیا ءالحق کو ٹیلی فون پر بتایا کہ الیکشن کے بوتھ خالی پڑے ہیں کیونکہ ٹیلی ویژن پر مقبول موسیقاروں کے نغمات نشر ہو رہے ہیں۔ضیاء الحق کے پوچھنے پر کہ اس کا کیا حل ہے جہانداد خان نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ موسیقاروں کے بجائے اپنے پسندیدہ مولویوں کو ٹی وی پر بٹھائیں۔پاکستان ٹیلی ویژن نے صبح چھ بجے سے ہی خصوصی نشریات کا اہتمام کر رکھا تھا۔ ملک بھر کے الیکشن مراکز سے خبریں لانے کے لیے کیمرا مینوں کی 20 ٹیمیں تشکیل دی گئی تھیں۔پاکستان ٹیلی ویژن کے سابق ایم ڈی اختر وقار عظیم اپنی کتاب ’ہم بھی وہی موجود تھے‘ میں ریفرنڈم کی کوریج کا حال بیان کرتے ہیں۔ہر جگہ مقامی انتظامیہ نے یہ اہتمام کر رکھا تھا کہ پولنگ اسٹیشنوں پر لوگوں کی قطاریں لگی ہوئی ہوں۔ لیکن جوں ہی پی ٹی وی کا کیمرہ مین اپنی فلم بنا کر فارغ ہوتے قطاروں میں کھڑے لوگ ادھر ادھر کھسک جاتے۔سرکاری اور قانونی مو شگافیوں کے قطع نظر اخلاقی اعتبار سے اس ریفرنڈم نے ضیاء الحق اور ان کی حکومت کے جواز پر کوئی مہر تصدیق ثبت نہ کی۔اس محدود سیاسی عمل پر لوگوں کی تنقید سے ضیاء الحق برہم ہوئے۔ لیکن اس سرگرمی نے یہ حقیقت عیاں کر دی کہ جبر کے باوجود لوگ مارشل لاء حکومت سے سخت بیزار ہیں۔ضیا کی پالیسیوں کے کھوکھلے پن نے انہیں مجبور کیا کہ جنوری 1985 میں انہوں نے غیر جماعتی الیکشن کے انعقاد کا اعلان کیا۔ جس سے محدود ہی سہی مگر ملک میں سیاسی نظام کی بحالی کے سفر کا آغاز ہوا۔39 برس قبل ریفرنڈم پر ضیاء الحق کے قریبی رفقا کی تنقید اس سارے عمل کے بودے پن کو ثابت کرتی ہے۔ مگر عوامی شاعر حبیب جالب کی یہ نظم ان تمام فلسفیانہ بحثوں پر بھاری ثابت ہوئی:شہر میں ہو کا عالم تھا جن تھا یا ریفرنڈم تھا مرحومین شریک ہوئے سچائی کا چہلم تھا دن 19 دسمبر کا بے معنی بے ہنگم تھا