فلسطین کی نیشنل سکیورٹی فورس کے افسر جمیل بشیر وافی غزہ میں اسرائیلی فضائی حملے میں جان کی بازی ہار گئے۔
وہ پاکستان کے ملٹری اکیڈمی کاکول کے فارغ التحصیل اور 118 ویں لانگ کورس کا حصہ تھے اور پاکستان سے گہری وابستگی رکھتے تھے۔اہلخانہ کے مطابق اسرائیلی طیاروں نے جمیل وافی کو اس وقت ایک میزائل حملے میں نشانہ بنایا جب وہ بچوں کے لیے خوراک لینے جا رہا تھا۔جمیل کے بھائی محمد وافی نے اردو نیوز کو بتایا کہ 35 برس کے جمیل تین بچوں کا باپ تھا اور ان کے ہاں صرف تین ہفتے پہلے ہی بیٹے کی ولادت ہوئی تھی۔انہوں نے بتایا کہ جمیل اپنے خاندان کے ہمراہ خان یونس شہر میں رہتے تھے۔ سات اکتوبر کے اسرائیلی جارحیت کے بعد سے وہ اپنے خاندان کی حفاظت کے بارے میں بہت فکر مند رہنے لگے تھے کیونکہ وہ گھر کے سربراہ بھی تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اسرائیل کی مسلسل بے رحمانہ کاررائیوں کے بعد بالآخر جمیل کو اپنی اہلیہ، بچوں اور والدین کے ہمراہ گھر چھوڑ کر مجبوراً خان یونس کے مشرق کی جانب نقل مکانی کرنا پڑی۔محمد وافی کے بقول ’انہوں نے اس علاقے کو محفوظ سمجھ کر پناہ لے رکھی تھی۔ وہ اہلخانہ کے لیے پانی، خوراک اور ضرورت کی اشیا لاتے تھے۔ ایسے ہی بدھ کو وہ بچوں کے لیے خوراک اور کپڑے لینے نکلے تو الامل ہسپتال کے قریب انہیں ایک جاننے والے ڈاکٹر سمیت کچھ ہمسایے ملے۔ وہ ان کے ساتھ کھڑا تھا کہ اسرائیلی طیاروں نے بمباری کر دی۔‘انہوں نے بتایا کہ اس اسرائیلی حملے میں 25 سے زائد لوگوں کی موت ہوئی جو سب نہتے اور بے گناہ تھے۔فلسطینی خبر رساں ادارے وفا کے مطابق غزہ کے علاقے خان یونس میں ہلال احمر کے زیر انتطام الامل ہسپتال کے قریب بدھ کو ہونے والے اس حملے میں 31 افراد لقمہ اجل بنے جبکہ 25 زخمی ہوئے۔نشانہ بننے والوں کی اکثریت ان بے گھر افراد کی تھی جو سات اکتوبر کے اسرائیلی جارحیت کے بعد گھر بار چھوڑ کر فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی ( پی آر سی ایس ) کے ہیڈ کوارٹر اور ہسپتال کے قریب پناہ لیے ہوئے تھے۔جمیل بشیر وافی فلسطین کی نیشنل سکیورٹی فورس میں تعینات تھے۔ (فوٹو: جمیل وافی)ہلال احمر ہیڈ کوارٹر اور ہسپتال کے قریب 14 ہزار بے گھر افراد نے پناہ لی ہوئی ہے۔فلسطینی میڈیا کے مطابق الامل ہسپتال اور اس کے اطراف میں ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں یہ پانچواں اسرائیلی فضائی حملہ ہے جس میں 40 سے زائد لوگ جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی نے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے عملے کی حفاظت سے متعلق تشویش کا اظہار کیا ہے اور بین الاقوامی برادری سے مداخلت کر کے ہسپتال کے عملے، زخمیوں، بیماروں اور پناہ گزین بے گھر افراد کی جنیوا کنونشن سمیت انسانی حقوق کے عالمی قوانین کے تحت حفاظت کی اپیل کی ہے۔غزہ کے محکمہ صحت کے مطابق اکتوبر سے اب تک اسرائیلی جارحیت میں 21 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں کی ہے جبکہ 50 ہزار سے زائد زخمی بھی ہوئے ہیں۔جمیل وافی کے بہنوئی عبدالرحمان عمر الاخراس نے اردو نیوز کو بتایا کہ جمیل فلسطینی نیشنل سکیورٹی فورس جسے مقامی طور پر الامن الوطنی کہتے ہیں، میں میجر کے عہدے پر تعینات تھے تاہم وہ حملے کے وقت ڈیوٹی پر نہیں تھے۔ان کا کہنا تھا کہ جمیل خان یونس میں پیدا ہوا اور یہی پلا بڑا۔ وہ حکومتی فورس میں شامل ہونے کے بعد تربیت کے لیے پاکستان گیا تھا۔ پاکستان سے بہت محبت کرتا تھا اور ان کے بہت سارے پاکستانی دوست بھی تھے۔ وہ ہمیشہ پاکستان کا ذکر محبت بھرے الفاظ سے کرتا تھا۔کوہلو کے رہائشی عالم زیب مری نے اردو نیوز کو بتایا کہ جمیل وافی پاکستان ملٹری اکیڈمی کے 118ویں لانگ کورس میں 2006 سے 2008 تک ان کے شہید بھائی لیفٹیننٹ جہانگیر مری کے کورس میٹ رہے۔ بھائی کی شہادت کے بعد بھی جمیل وافی سے فیس بک پر رابطہ رہتا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’بھائی کی طرح ان کے کورس میٹ اور ایک فلسطینی بھائی کی شہادت پر ہمیں گہرا دکھ ہوا ہے۔ 118ویں لانگ کورس کے شہدا میں ایک فلسطینی بھی شامل ہو گیا ہے۔‘جمیل وافی کے بھائی محمد وافی خود بھی پاکستان کے شہر نواب شاہ میں زیر تعلیم رہے اب وہ ایک یورپی ملک میں پناہ گزین ہیں۔جمیل بشیر وافی نے خان یونس کے مشرق کی جانب پناہ لی تھی۔ (فوٹو: جمیل وافی)محمد وافی نے بتایا کہ ’ہمارا پورا خاندان پاکستان سے بہت محبت رکھتا ہے لیکن جمیل کے دل میں پاکستان کے لیے بہت خلوص اور پیار تھا وہ اسے اپنا دوسرا گھر سمجھتا تھا۔ وہ 14 اگست سمیت ہر خاص موقع پر پاکستان کے بارے میں اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر لکھتا تھا۔‘ان کا کہنا تھا کہ بھائی کی موت پر پاکستان سے بہت سارے دوستوں نے تعزیتی پیغامات بھیجے ہیں۔محمد وافی کے مطابق ’پانچ دسمبر کو گھر چھوڑتے ہوئے بھائی نے ایک تصویر فیس بک پر شیئر کی تھی۔ وہ جلد امن اور گھر واپس لوٹنے کے خواہشمند تھے لیکن ان کا یہ خواب پورا نہیں ہو سکا۔‘غزہ میں رہائش پذیر عبدالرحمان عمر الاخراس کا کہنا ہے کہ ’سات اکتوبر کے بعد غزہ کے لوگوں کی زندگی جنہم میں بدل گئی ہے۔ کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ لوگ پناہ گزین کیمپوں، ہسپتالوں اور سکولوں یا پھر ایک ایک گھر میں کئی کئی خاندان رہنے پر مجبور ہیں۔ خوراک، پانی اور ادویات کی کمی ہے۔‘جمیل وافی غزہ کی صورتحال پر سوشل میڈیا پر اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے تھے۔ 12 اکتوبر کو فیس بک پر اپنی ایک پوسٹ میں جمیل وافی نے لکھا کہ غزہ کے 23 لاکھ شہری خوراک، پانی، بجلی اور ادویات سے محروم ہیں۔ ہسپتال لاشوں اور زخمیوں سے بھر گئے ہیں۔انہوں نے دنیا سے اس نسل کشی کو روکنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔ غزہ اب ایک بڑی جیل نہیں بلکہ ایک بڑا قبرستان بنتا جا رہا ہے۔‘محمد وافی کا کہنا ہے کہ ’ہماری نسل کشی ہو رہی ہے۔ ہم سے ہمارا گھر بار، کاروبار، ہسپتال، سکول سب کچھ چھین لیا گیا ہے۔ اس نسل کشی کو روکنے کے لیے فلسطینیوں کو پاکستان سمیت پورے عالم اسلام اور عالمی برادری کی مدد کی ضرورت ہے۔‘