سپریم کورٹ میں سیاستدانوں کی تاحیات نااہلی کے حوالے سے کیس کی براہ راست سماعت جاری ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7 رکنی لاجر بنچ سماعت کر رہا ہے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آپ کا مؤقف کیا ہے؟ الیکشن ایکٹ چلنا چاہیے یا سپریم کورٹ کے فیصلے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت تاحیات نااہلی کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے ، الیکشن ایکٹ کی تائید کروں گا کیونکہ یہ وفاق کا بنایا گیا قانون ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کی تشریح کے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لیا جائے۔
سپریم کورٹ کا تاحیات نااہلی سے متعلق درخواستیں ایک ساتھ سننے کا فیصلہ
میر بادشاہ قیصرانی کے خلاف درخواست گزار کے وکیل ثاقب جیلانی نے بھی تاحیات نااہلی کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ میں نے 2018 میں درخواست دائر کی جب 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا فیصلہ آیا، الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 آنے پرتاحیات نااہلی کی حد تک استدعا کی پیروی نہیں کر رہا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا الیکشن ایکٹ کی ترمیم کو کسی نے چیلنج کیا؟ تمام ایڈووکیٹ جنرلز اٹارنی جنرل کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں یا مخالفت؟ چیف جسٹس کے پوچھنے پر تمام ایڈووکیٹ جنرلز نے الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی اٹارنی جنرل کے مؤقف کی تائید کر دی۔
پاکستان کو اندرونی طور پر مضبوط کرنا ہے ، لاپتہ افراد کے مسئلے کو سیاسی نہ بنائیں ، چیف جسٹس
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آرٹیکل 62 اور63 میں فرق کیا ہے؟ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 62 ممبران کی اہلیت جبکہ 63 نااہلی سے متعلق ہے، آرٹیکل 62 میں نااہلی کی مدت درج نہیں بلکہ یہ عدالت نے دی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جب تک عدالتی فیصلے موجود ہیں ،تاحیات نااہلی کی ڈکلیئریشن اپنی جگہ قائم ہے، اس پر جسٹس قاضی فائز نے کہا کہ الیکشن ایکٹ بھی تو لاگو ہوچکا اور اس کو چیلنج بھی نہیں کیا گیا۔
تحریک انصاف کا کاغذات مسترد ہونے کیخلاف سپریم کورٹ جانے کا اعلان
اس دوران جسٹس منصور نے سوال کیا کہ کیا ذیلی آئینی قانون سازی سے آئین میں رد وبدل ممکن ہے؟ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کو ختم کرنے کیلئے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی؟ کیا آئین میں جو لکھا ہے اسے قانونی سازی سے بدلا جاسکتا ہے؟ قتل اور غداری جیسے سنگین جرم میں کچھ عرصے بعد الیکشن لڑ سکتے ہیں لیکن معمولی وجوہات کی بنیاد پر تاحیات نااہلی غیر مناسب نہیں لگتی؟
جسٹس منصور نے کہا کہ ایک شخص کو ایک بار سزا مل گئی تو بات ختم کیوں نہیں ہوجاتی؟ ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ سزا کاٹ لینے کے بعد بھی کبھی انتخابات نہ لڑ سکے؟