نواز شریف: کیا تین مرتبہ کے وزیر اعظم پاکستان کی سیاست میں غیر متعلق ہو رہے ہیں؟

سال 2025 کے اختتام پر پاکستانی سیاست پر نظر ڈالیں تو اس برس جب نواز شریف کی اپنی جماعت اور ان کے بھائی شہباز شریف کی حکومت پاکستان میں سیاسی اور معاشی مسائل سے نکالنے کے لیے اہم فیصلے کر رہی تھی تو جماعت کے قائد کے طور پر نواز شریف ان میں نظر کیوں نہیں آئے؟ مئی میں انڈیا پاکستان کے درمیان کشیدگی اور پھر مختصر جنگ کے موقع پر بھی ان کی طرف سے براہ راست کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
نواز شریف
EPA

پاکستان میں رواں برس کے اختتام پر موجودہ حکومت اپنے دور کے دو سال مکمل کرنے کے قریب ہے۔ ان دو برسوں میں حکومت نے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لانے کی طرف قدم بڑھائے ہیں۔ اس حکومت کی قیادت پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جماعت کر رہی ہے۔

تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف قومی اسمبلی کے ممبر ہیں جبکہ ان کے بھائی شہباز شریف موجودہ حکومت کے وزیراعظم ہیں۔ گذشتہ عام انتخابات کے بعد نواز شریف منتخب ہونے کے باوجود چوتھی مرتبہ ملک کے وزیراعظم نہیں بنے تھے۔

ان کی جماعت ن لیگ کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ’چونکہ ان کی جماعت دو تہائی اکثریت حاصل نہیں کر پائی تھی، اگر کر لیتی تو نواز شریف وزیراعظم بنتے۔‘ وہ جماعت کے ’قائد‘ رہے اور اب صدر ہیں اور ساتھ ہی پارلیمان کا حصہ ہیں تاہم سیاسی منظرنامے پر زیادہ متحرک نظر نہیں آتے۔

سال 2025 کے اختتام پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ رواں برس جب نواز شریف کی اپنی جماعت اور ان کے بھائی شہباز شریف کی حکومت پاکستان میں سیاسی اور معاشی مسائل سے نکالنے کے لیے اہم فیصلے کر رہی تھی تو جماعت کے قائد کے طور پر نواز شریف ان میں نظر کیوں نہیں آئے۔

ن لیگ کے رہنماؤں کا موقف ہے کہ وفاق کی سطح پر اور صوبہ پنجاب میں جہاں ان کی جماعت کی حکومتیں ہیں وہاں ’ہر بڑے حکومتی فیصلے کے پیچھے نواز شریف کی رائے اور رہنمائی شامل ہوتی ہے۔‘

تاہم خاص طور پر ریاستی معاملات میں نواز شریف کی اپنی زبانی یہ رائے بہت کم مواقع پر ظاہر ہوتی نظر آئی ہے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف کے بعض سابق سیاسی رفقا دوسری جانب یہ سمجھتے ہیں کہ ’نواز شریف کے رواں برس سمیت گذشتہ چند ماہ کے دوران قومی سطح پر سیاست میں کردار سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ سیاسی طور پر غیر متعلق ہوتے جا رہے ہیں۔‘

یہ تاثر حقیقت کے کتنا قریب یا دور ہے اس حوالے سے بی بی سی نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے سابق اور حالیہ سیاسی رفقا اور تجزیہ کاروں سے بات کی۔ اس پر جانے سے پہلے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ نواز شریف سال 2025 میں قومی سطح پر سیاسی طور پر کتنے متحرک رہے۔

تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف قومی اسمبلی کے ممبر ہیں جبکہ ان کے بھائی شہباز شریف موجودہ حکومت کے وزیراعظم
EPA
تین مرتبہ ملک کے وزیراعظم رہنے والے نواز شریف قومی اسمبلی کے ممبر ہیں جبکہ ان کے بھائی شہباز شریف موجودہ حکومت کے وزیراعظم

سنہ 2025 نے نواز شریف کو سیاسی معاملات میں کتنا سرگرم دیکھا؟

ان کی جماعت کی حکومت بننے سے لے اب تک گزشتہ چند ماہ کے دوران سابق وزیراعظم نواز شریف کی زیادہ تر سیاسی مصروفیات صوبہ پنجاب تک محدود نظر آئیں جہاں ان کی صاحبزادی مریم نواز وزیراعلی ہیں۔

پنجاب کے اندر صوبائی معاملات میں نواز شریف کئی مرتبہ کابینہ سمیت کچھ میٹنگز کا حصہ بنے، کہیں انھیں کرسی صدارت پر براجمان دیکھا گیا اور کہیں وہ اپنی صاحبزادی کے ہمراہ شریک صدارت کرتے ہوئے دکھائی دیے۔

سنہ 2025 میں نواز شریف صوبہ پنجاب کے بجٹ سے پہلے اس کی مشاورتی میٹنگ میں شریک ہوئے جہاں انھیں صوبے کے میگا ڈویلپمنٹ پراجیکٹس بارے بریفنگ بھی دی گئی۔ اس کے علاوہ مئی میں لاہور میں اپنی رہائش گاہ جاتی امرا میں ان کی وزیراعلی پنجاب مریم نواز، ڈپٹی پرائم منسٹر اسحاق ڈار اور وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات ہوئی۔

اس میں انھیں انڈیا اور پاکستان کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے بارے بریفنگ دی گئی۔ اسی طرح اسی نوعیت کی ایک اور میٹنگ میں انھیں پاکستان کی طرف سے انڈیا کے خلاف آپریشن کے بارے بریفنگ دی گئی۔

اسی طرح حال ہی میں لاہور میں نواز شریف نے پارٹی قیادت اور رہنماؤں سے ملاقاتیں اور خطاب بھی کیا۔ ان اجلاسوں میں ’ملکی سیاسی صورتحال‘ پر بات چیت ہوئی۔

تاہم قومی سطح پر حال ہی میں حکومت نے 27 ویں ترمیم منظور کی جس کا حزب اختلاف نے بائیکاٹ کیا تو اس سے قبل یا اس کے بعد نواز شریف کی طرف سے اس کے حوالے سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ وہ ایک ممبر کی حیثیت سے قومی اسمبلی میں ووٹ دینے کے لیے ضرور آئے۔

اس سے قبل بھی مئی میں انڈیا پاکستان کے درمیان کشیدگی اور پھر مختصر جنگ کے موقع پر بھی ان کی طرف سے براہ راست کوئی بیان سامنے نہیں آیا تاہم ان کی جماعت کے رہنماوں کی جانب سے یہ بتایا گیا کہ ’انڈیا کے خلاف آپریشن میں نواز شریف مسلسل رہنمائی دیتے رہے۔‘

نواز شریف زیادہ تر لاہور کی حد تک محدود رہے اور اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں بھی زیادہ باقاعدگی کے ساتھ نظر نہیں آئے۔

نواز شریف
Reuters
نو مرتبہ صوبائی اسمبلی کا حصہ رہنے والے سردار ذوالفقار کھوسہ کہتے ہیں کہ 'جو پالیساں بن رہی ہیں وہ شہباز شریف بنا رہے ہیں‘

'نواز شریف نے خود اپنے آپ کو غیر متعلق کیا ہے'

نواز شریف کے سابق قریبی ساتھی سابق سینیٹر آصف کرمانی اب ان کے ساتھ نہیں ہیں اور ان کی جماعت کو چھوڑ چکے ہیں وہ 18 برس تک نواز شریف کے بہت قریب رہے۔ وہ پہلے ان کے پولیٹکل سیکریٹری اور پھر وزارت عظمی کے دور میں نواز شریف کے سیاسی امور کے سپیشل اسسٹنٹ رہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’میں سمجھتا ہوں نواز شریف صاحب نے خود اپنے آپ کو غیر متعلق کیا ہے۔‘ آصف کرمانی کے خیال میں نواز شریف اور ان کی جماعت کی سیاست جس مقام پر آن کھڑی ہے اس کی چند وجوہات ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ نواز شریف ہمیشہ دوتہائی اکثریت یا اکثریت کے ساتھ حکومتیں بناتے رہے، چاروں صوبوں میں بھی حتیٰ کہ گلگت بلتستان میں بھی۔ سنہ 2018 میں بھی جب انھوں نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ لگایا تو عوام میں ان کی مقبولیت بہت زیادہ تھی۔

’لیکن لندن جا کر جب ان کو ووٹ کو عزت دو کے نعرے سے ان کی پارٹی کے چند لوگوں نے دستبردار کروا دیا تو ان کی مقبولیت اور ریلیوینس میں کمی آئی۔‘

وہ سمجھتے ہیں کہ جب نواز شریف نے لندن میں چار سال کا عرصہ قیام کر لیا تو ان کا رابطہ اپنے پارٹی ورکر سے اور حلقوں کے کارکنوں سے کٹ گیا۔ ان کے خیال تیسرا پی ڈی ایم کی حکومت لے لینے کا بھی انھیں نقصان ہوا۔

’میرے علم میں ہے، میرا ان سے ذاتی طور پر رابطہ رہتا تھا۔۔۔ عدم اعتماد کے ووٹ تک تو ٹھیک تھا لیکن اس کے بعد ان کی خواہش تھی اور وہ یہ چاہتے تھے کہ جلد از جلد الیکشن کروا دیے جائیں۔‘ لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ اور دوسرا نواز شریف پی ڈی ایم کی حکومت لینے کے خلاف تھے۔

آصف کرمانی کہتے ہیں کہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران ’ناقص کارکردگی تھی‘ اس کا ملبہ بھی آ کر نواز شریف اور ان کی جماعت پر گرا۔ ’اس کا نتیجہ پھر آپ نے 8 فروری 2024 کے الیکشن میں دیکھ لیا۔‘

سابق سینیٹر آصف کرمانی کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ دو ایسے صدمات تھے جن کی وجہ سے ’نواز شریف ذاتی طور پر بھی دل چھوڑ بیٹھے۔ ان میں ان کی والدہ اور ان کی اہلیہ کا دنیا سے چلے جانا تھا۔ وہ ان سے مشاورت بھی کرتے تھے اور ان کے ہمیشہ مشورے میاں صاحب کے شامل حال ہوتے تھے۔‘

نواز شریف
EPA
سابق سینیٹر آصف کرمانی سمجھتے ہیں کہ ’نواز شریف صاحب نے خود اپنے آپ کو غیر متعلق کیا ہے‘

’۔۔۔ورنہ پرائم منسٹر کے کینڈیڈیٹ تو وہی تھے‘

سابق وزیراعظم نواز شریف کے ایک اور سابقہ قریبی ساتھی اور سابق گورنر پنجاب اور سابق سینیٹر سردار ذوالفقار کھوسہ نے بھی بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے سابق سینیٹر آصف کرمانی کے خیالات کی حمایت کی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ان کی اپنی پوزیشن اگر آپ دیکھ لیں وہی ثابت کرتی ہے کہ وہ اب پارٹی میں غیر موثر ہو گئے ہیں۔ بس ان کا نام تو استعمال ہوتا ہے لیکن کوئی فیکچوئل ان کی پوزیشن اب نہیں ہے۔‘

نو مرتبہ صوبائی اسمبلی کا حصہ رہنے والے سردار ذوالفقار کھوسہ کہتے ہیں کہ ’جو پالیساں بن رہی ہیں وہ شہباز شریف بنا رہے ہیں، اگر امریکہ جا رہے ہیں تو نواز شریف سے مشاورت نہیں ہو رہی، وغیرہ وغیرہ۔ تو یہ وہ خود ثابت کر رہے ہیں کہ وہ اب ریٹائر ہو چکے ہیں۔‘

اس کی وجہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کو ’کوئی رکاوٹ ایسی نظر آئی ہے‘ جس کی وجہ سے انھوں نے اب اپنے بھائی شہباز شریف کے لیے جگہ چھوڑ دی ہے ’ورنہ پرائم منسٹر کے کینڈیڈیٹ تو وہ تھے۔‘

سردار ذوالفقار کھوسہ کہتے ہیں کہ اب جو آپ دیکھ رہے ہیں اس سے تو ظاہر ہو رہا ہے کہ نواز شریف کو اب یہ احساس ہو چکا ہے کہ شہباز شریف اب فرنٹ پر انکو ریپلیس کر چکے ہیں۔ ’اگر اب نواز شریف وزیراعظم نہیں بنے تو آگے کب بنیں گے۔‘

’کہا جا سکتا ہے۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ غیر متعلق ہوتے جا رہے ہیں‘

صحافی اور تجزیہ نگار ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی حیثیت ایک خاندانی بزرگ کی سی ہے۔ مسلم لیگ کے تنظیمی معاملات میں ان کا اثر و رسوخ برقرار ہے۔ اسی طرح حکومتی سطح پر کابینہ کے فیصلوں میں یا پارٹی کے فیصلوں وہ ابھی بھی طاقت رکھتے ہیں۔

’لیکن اس کے ساتھ ساتھ ریاستی امور میں ان کا عمل دخل نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہائبرڈ سسٹم کے اندر قابل قبول نہیں ہیں۔‘

ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ سنہ 2022 کی پی ڈی ایم کی جو حکومت تھی اس میں ریاست یا اسٹیبلشمنٹ نے یہ محسوس کیا کہ وہ شہباز شریف کے ساتھ زیادہ مطمئن ہے۔ اس لیے میاں نواز شریف کی ماضی کی تلخیوں کو دور کرنے کی زیادہ کوشش نہیں کی گئی۔

’بس انھیں مقدمات میں آسانی دی گئی۔ اور اسی لیے موجودہ سیٹ اپ میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ با آسانی کہا جا سکتا ہے کہ وہ آہستہ آہستہ غیر متعلق ہوتے جا رہے ہیں۔‘

نواز شریف
EPA
’سنہ 2022 کی پی ڈی ایم کی جو حکومت تھی اس میں ریاست یا اسٹیبلشمنٹ نے یہ محسوس کیا کہ وہ شہباز شریف کے ساتھ زیادہ مطمئن ہے‘

تجزیہ نگار ماجد نظامی کہتے ہیں کہ ایک تو ان کے خیالات ریاست کے لیے قابل قبول نہیں ہیں اور دوسرا گھر کے اندر سے ان کو مزاحمت کا سامنا ہے۔ دو بڑے پلیئرز میدان میں آ چکے ہیں۔ ان کی صاحبزادی مریم نواز وزیراعلی پنجاب ہیں اور ان کے بھائی شہباز شریف وزیراعظم ہیں۔

’تو ان دونوں کی موجودگی میں سسٹم میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں بنائی جا سکتی۔‘

ساتھ ہی ماجد نظامی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کڑواہٹ یا تلخی رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اب جب کہ ایک ہائبرڈ سسٹم میں اسٹیبلشمنٹ کا کردار ایک قدم آگے چلا گیا ہے تو نواز شریف کی موجودگی اسٹیبلشمنٹ کے لیے زیادہ سودمند ثابت نہیں ہو سکتی۔

’اور اس نقطے کو مسلم لیگ ن اور میاں نواز شریف کی فیملی بخوبی سمجھ چکی ہے۔ اسی لیے متبادل انتظام کے طور پر شہباز شریف اور مریم نواز کو آگے لایا گیا ہے تا کہ اقتدار مسلم لیگ ن کے پاس رہے لیکن اس میں نواز شریف کا کردار نہ ہو۔‘

تجزیہنگار ماجد نظامی کے خیال میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو خود بھی اس بات کا ادراک ہے کہ ایک تو وہ ریاستی امور میں زیادہ با اختیار نہیں اور دوسرا وہ ایسا کوئی کام کر کے اپنے بھائی اور اپنی بیٹی کو مشکل میں بھی نہیں ڈالنا چاہتے۔

ماضی قریب میں نواز شریف کتنا متحرک رہے؟

پاکستانی ریاست کی زندگی میں تھوڑا پیچھے جائیں تو سنہ 2017 کی بات ہے جب نواز شریف کو عدالتی حکم کے نتیجے میں تیسرے مرتبہ وزارت اعلی سے مستعفی ہونا پڑا۔ اس کے بعد نواز شریف نے کھلے عام مزاحمتی روش اختیار کی۔

یہی وہ دور تھا جس میں وہ وفاق میں اپنی جماعت کی حکومت ہوتے ہوئے عوام میں گئے اور انھوں نے ’مجھے کیوں نکالا؟‘ کا سوال پوچھا اور ’ووٹ کو عزت دو‘ کا بیانیہ پیش کیا۔ اس وقت کسی کا نام لیے بغیر ان کا یہ بیانیہ بظاہر پاکستان کی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھا۔

تین برس بعد سنہ 2020 میں پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں منعقدہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے ایک جلسے کے دوران نواز شریف نے لندن سے ویڈیو لنک پر خطاب کرتے ہوئے نام لے کر پاکستان کے اس وقت کے آرمی چیف اور سیکورٹی ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ کو ان کی وزارت عظمی چھیننے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

اس تمام عرصے کے دوران نواز شریف کے خلاف کرپشن کے مقدمات بنے، انھیں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نااہل قرار دیا گیا، ان کی اہلیہ کلثوم نواز کو کینسر کے علاج کے لیے ملک سے باہر جانا پڑا۔

وہ جب زیادہ علیل ہوئیں تو نواز شریف کو ان کی عیادت کے لیے جانے کی اجازت ملی، واپس پاکستان میں انھیں اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو ایک عدالت نے سزا سنائی۔ نواز شریف اور مریم نواز جیل کا سامنا کرنے واپس آئے اور لاہور میں اترتے ہی گرفتار ہوئے۔

اس کے بعد کے دنوں میں انھوں نے جیل کاٹی، ان کی اہلیہ کی وفات ہوئی تو وہ جنازے میں شرکت کے لیے پیرول پر رہا ہوئے۔ جیل ہی کے دوران ان کی طبیعت بگڑی تو سنہ 2019 آخر میں انھیں ایئر ایمبولینس کے ذریعے علاج کے لیے لندن منتقل کیا گیا۔

وہاں طبیعت سنبھلنے کے بعد بھی نواز شریف دوبارہ واپس پاکستان نہیں آئے تاہم وہ لندن سے بھی اپنی مزاحمتی روش پر قائم رہے۔ وہ مسلسل پی ڈی ایم کے جلسوں اور میٹنگز میں جہاں ویڈیو لنک پر شریک ہوئے انھوں نے اس وقت کی ملٹری قیادت کو اپنی وزارت عظمی گرانے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

لیکن سنہ 2022 میں پی ڈی ایم کے ہاتھوں عدم اعتماد کے ووٹ کے نتیجے میں سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت جانے اور نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کی سربراہی میں پی ڈی ایم کی حکومت بننے کے بعد صورتحال بدل گئی۔

نواز شریف کے مزاہمتی بیانیے کی شدت بتدریج کم ہوتے ہوئے منظر نامے سے غائب ہو گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی جگہ نواز شریف کی طرف سے زیادہ تر خاموشی نے لے لی۔ ان کی یہی ’خاموش‘ موجودگی اس وقت سے لے کر پاکستان واپس آنے، انتخابات میں حصہ لینے، اسمبلی میں پہنچنے سے کے کر اب تک قائم ہے۔

نواز شریف
Reuters
پرویز رشید کہتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے اندر حتمی لیڈر نواز شریف ہی ہیں۔

’مسلم لیگ ن کے حتمی لیڈر نواز شریف ہی ہیں‘

سابق وزیراعظم نواز شریف کے ایک اور قریبی ساتھی اور مسلم لیگ ن کے نائب صدر سابق سینیٹر پرویز رشید تاہم ان خیال سے متفق نہیں ہیں۔

پرویز رشید جو خود نواز شریف کے دور وزارت عظمی میں انفارمیشن منسٹر بھی رہ چکے ہیں اور وزیر قانون بھی، وہ کہتے ہیں کہ 'مسلم لیگ ن کے حتمی لیڈر نواز شریف ہی ہیں۔'

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پرویز رشید کہتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ ن کے اندر حتمی لیڈر نواز شریف ہی ہیں۔ وزیراعظم بھی ان ہی سے ایڈوائس لیتے ہیں۔

’وفاق میں اور پنجاب میں جہاں مسلم لیگ ن کی حکومت ہے وہاں وزیراعظم شہباز شریف اور وزیراعلی مریم نواز دونوں نواز شریف کو بریف کرتے ہیں اور ایڈوائس بھی لیتے ہیں۔ اس کے مطابق گورنمنٹ اپنا رول طے کرتی ہے۔‘

ن لیگ کے نائب صدر پرویز رشید کہتے ہیں کہ حکومت نے اکنامک ریفارمز نواز شریف ہی کی ہدایت پر کیے ہیں۔

’آپ پی آئی اے کی نجکاری ہی کو دیکھ لیں۔ نواز شریف ہمیشہ سے اس کے حامی تھے اور چاہتے تھے کہ ایسا ہو جائے۔ اس وقت بعض وجوہات کی بنا پر ایسا نہیں ہو سکا لیکن اب کامیاب نجکاری کا عمل ان ہی کی پالیسی کے مطابق ہوا ہے۔‘

اس سوال کے جواب میں کہ کیا نواز شریف اب کبھی دوبارہ وزیراعظم بن سکتے ہیں سابق سینیٹر پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ابھی گزشتہ عام انتخابات کو محض دو برس ہوئے ہیں، اس حکومت کے تین سال باقی ہیں۔ ’ایسے وقت میں یہ سوال ہی غیر موزوں اور ناقص ہے۔‘

وہ اس تاثر کی بھی نفی کرتے ہیں کہ نواز شریف کے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات اچھے نہ ہونا بھی ان کے غیر متعلق ہونے کی ایک وجہ ہو سکتی ہے، ن لیگ کے نائب صدر پرویز رشید کا کہنا تھا کہ ’یہ سیاسی مخالفین کی رائے تو ہو سکتی ہے لیکن یہ درست نہیں ہے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US