’برفباری کی وجہ سے پلان بنایا لیکن یہاں پہنچے تو دھوپ تھی‘: کشمیر کی برف پوش وادی جو اس سال ویران ہے

انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں اس سال برفباری کی ریکارڈ کمی سے سیاحت کا شعبہ شدید متاثر ہوا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ برف نہ ہوئی تو اگلے سال پاکستان میں بھی پانی کی کمی کا خدشہ ہے۔
گمراٹ
BBC

دنیا بھر میں مشہور کشمیر کے سیاحتی ریزورٹ گلمرگ میں دسمبر اور جنوری کے دوران سیاحوں، گھوڑے بانوں اور برف میں استعمال ہونے والی سواری سلیج چلانے والوں کے چہروں پر ایک ہی طرح کی مایوسی نظر آتی ہے۔

گلمرگ سرینگر کے شمال مغرب میں 2690 میٹر کی بلندی پر واقع خوبصورت وادی ہے جو اس موسم میں برف سے ڈھکی رہتی ہے اور وادی کی ڈھلوانوں پر پوری دنیا سے سکیئنگ کے شوقین اپنے کرتب دکھاتے ہیں۔

برف سے گھری یہ وادی خوبصورت نظارہ پیش کرتی ہے لیکن اس سال یہ وادی ویران ہے اور جو لوگ برف کا نظارہ یا سکیئنگ کرنے آئے تھے، وہ یہاں پہنچ کر مایوس ہو گئے ہیں۔

نئی دہلی کے ایک سیاح اکشینت نے بتایا کہ ’ایسا نہیں کہ ہم انجوائے نہیں کر رہے لیکن برف ہوتی تو مزہ آجاتا۔‘

واضح رہے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پچھلے سال ایک کروڑ سے زیادہ سیاح کشمیر آئے تھے اور اس سال مارچ تک ہوٹلوں کی ایڈوانس بکنگ تھی۔

ایک ٹورآپریٹر نے بتایا کہ ہوٹلوں کی پچاس فیصد بکنگ کینسل ہو گئی ہے۔ ’اس سے صرف ہوٹل ہی نہیں بلکہ ٹریول ایجنٹ، گھوڑے بان، ٹیکسی والے اور جو بھی سیاحت سے روزگار کماتے ہیں، سبھی متاثر ہوں گے۔‘

گمراٹ
BBC

’میں روزانہ پانچ سے دس ہزار روپے کماتا تھا لیکن اب ایسا نہیں‘

57 سال کے محمد رفیق بچپن سے ہی برف پر چلنے والی گاڑی سلیج چلا کر روزگار کما رہے ہیں۔ اس سال اُن کی سلیج گاڑی دوسری بہت ساری ایسی گاڑیوں کے ساتھ بے کار پڑی ہے۔

اب انھوں نے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے گھوڑا نکالا ہے، جس پر وہ خشک گلمرگ وادی میں سیاحوں کو گھما کر چند پیسے کما لیتے ہیں۔

’پہلے بہت اُمید تھی کہ برف ہو گی اور کمائی ہو جائے گی لیکن جنوری بھی ختم ہونے کو آیا تو سوچا کچھ نیا ہی کیا جائے۔‘

نوجوان سکئیر دو دہائیوں سے گلمرگ میں سِکی ٹرینر کے طور کام کرتے ہیں۔ ان کے پاس پچھلے سال بات کرنے تک کا وقت نہیں تھا لیکن اس سال وہ بھی فارغ بیٹھے ہیں۔

ایک سِکی ٹرینر نے ہمیں بتایا کہ ’روس، جرمنی، آسٹریلیا، امریکہ اور کئی یورپی ملکوں کے سیاحوں نے ایڈوانس بکنگ کی تھی لیکن جب میڈیا پر آیا کہ یہاں برفباری نہیں ہوئی تو سب بکنگ کینسل ہوگئی۔ میں دن میں پانچ سے دس ہزار روپے کماتا تھا لیکن اب صبح آتا ہوں اور بس ٹہلتا ہوں، یہاں تو گرمیوں جیسی صورتحال ہے۔ ‘

گمراٹ
BBC

’سوشل میڈیا پر برف دیکھ کر پلان کیا، یہاں پہنچے تو دھوپ تھی‘

یہاں برف میں بہت سی فلموں کی شوٹنگ بھی ہوتی تھی لیکن درجنوں فلموں نے یا تو جگہ بدل دی یا کہانی سے برف کے سین نکال دیے۔

کشور پروڈکشن نامی ایک فلم یونٹ آج کل گمرگ میں ہے لیکن ڈائریکٹر حامل تمکین وسن کہتے ہیں کہ ’ہماری کوشش ہوتی ہے کہ کئی موسم فلم میں دکھائے جائیں، کشمیر میں برف کے سین ہم شوق سے شوٹ کرنے آئے تھے لیکن برفباری نہیں ہوئی۔ پھر بھی ہم نے خوبصورتی دکھانے کی کوشش کی ہے لیکن برف کی الگ ہی بات ہے۔‘

انڈین شہر پونا سے آئے ایک جوڑے نے بتایا کہ ’سوشل میڈیا پر ہم ہر سال برف کی خوبصورت ریلز اور ویڈیوز دیکھ کر خوش ہو جاتے تھے۔ ہم کبھی کشمیر نہیں آئے تھے تو اس سال ہم نے پلان کیا اور پہنچ گئے لیکن یہاں دن میں دھوپ اور رات کو سردی ہوتی ہے۔ گلمرگ آئے تو یہاں نہ سکیئینگ ہو رہی ہے اور نہ سلیج کی سواری ممکن ہے۔‘

گمراٹ
BBC

پاکستان کیسے متاثر ہو گا؟

ماہرین کہتے ہیں کہ خشک سالی کا یہ سلسلہ اگر کچھ سال اور جاری رہا تو یہاں کی زراعت تباہ ہو جائے گی، جس کے اثرات اسی سال سبزیوں میں دیکھے گئے۔

ماہر ماحولیات پروفیسر شکیل رومشو کہتے ہیں کہ کشمیر سے نکلنے والے کئی دریاوٴں کا پانی جو پاکستان جاتا ہے، وہ ہمارے پہاڑوں پر بنے گلیشیئرز سے نکلتا ہے۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ سیاچن سمیت کئی گلیشیئرز کا سائز کم ہو رہا ہے۔‘

پروفیسر رومشو کہتے ہیں کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان 1960 میں دریائے سندھ کے پانی کی شراکت کا معاہدہ ہوا تھا جسے ’انڈس واٹر ٹریٹی‘ کہتے ہیں۔

’جب ہماری طرف سے بھی پانی کی سطح کم ہو گی تو کون سا پانی بانٹیں گے۔ ماحولیات ہی نہیں انڈیا اور پاکستان کے تعلقات پر بھی موسمیاتی تبدیلی کے بُرے اثرات پڑ سکتے ہیں۔‘

گمراٹ
BBC

جموں و کشمیر کی حکومت نے 140 سال کے اعدادوشمار جمع کیے ہیں، جس سے پتا چلتا ہے کہ سردیوں کے دوران درجہ حرارت میں اضافہ اور برف یا بارشوں کی کمی صرف ایک دہائی پرانا مسئلہ ہے۔

پروفیسر رومشو کہتے ہیں کہ ’دلچسپ بات ہے کہ کشمیر کوئی صنعتی خطہ نہیں، یہاں آلودگی کی سطح بھی بہت کم ہے، اس طرح ہم گلوبل وارمنگ کے لیے ذمہ دار نہیں لیکن اس کے بُرے اثرات کشمیر پر پڑتے ہیں۔ ‘

خشک سالی سے لوگوں میں خوف پایا جاتا ہے کیونکہ کشمیر کی معیشت، ماحولیات اور عام زندگی کے لیے پانی ایک ناگزیر وسیلہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ گذشتہ ڈیڑھ ماہ سے بڑی مساجد، خانقاہوں اور عیدگاہوں میں لوگوں نے بارش اور برف کے لیے خاص دعائیہ مجالس کا اہتمام کیا اور نماز استسقا بھی پڑھی گئی۔

کئی علاقوں میں مقامی کلچر کے مطابق ’ساس رس‘ کیا گیا۔ اس میں لوگ اجتماعی طور پر بستیوں میں کھانا پکاتے ہیں اور راہگیروں کو کھِلاتے ہیں تاہم ابھی تک معمول کی برفباری نہیں ہوئی۔

سیب کے ایک کاشتکار محمد سبحان بیگ کہتے ہیں کہ ’ہمارا انحصار ہر طرح سے بارش اور برف پر ہے۔ اگر یہی حال رہا تو قیامت ہو گی۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US