برفباری کے دوران سیاحتی مقامات کی تفریح پرخطر بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ یہی کچھ 24 برس کے سہراب افتخار اور ان کے ایک دوست کے ساتھ ہوا جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ میں واقع بنجوسہ جھیل کے نظارے سے محظوظ ہونے گئے مگر پھر جھیل پر موجود برف کی تہہ میں پھنس گئے۔ ایک مشکل ریسکیو آپریشن کی کہانی۔
برفباری کے دوران سیاحتی مقامات کی تفریح پرخطر بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ یہی کچھ 24 برس کے سہراب افتخار اور ان کے ایک دوست کے ساتھ ہوا جو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع پونچھ میں واقع بنجوسہ جھیل کے نظارے سے محظوظ ہونے گئے مگر پھر جھیل پر موجود برف کی تہہ میں پھنس گئے۔
سہراب افتخار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے لگا کہ اب میں کبھی بھی اس برف سے نہیں نکل سکوں گا۔ کافی لوگ کھڑے تھے مگر ان کے لیے بھی برف میں آنا ممکن نہیں تھا۔ میں نے کلمہ پڑھ لیا تھا کہ اب میں اور میری مدد کو آنے والا میرا دوست فیصل بچ نہیں پائیں گے۔ مگر زغفران بھائی نے بڑی ہمت کی تھی۔ وہ اپنی جان پر کھیل کر ہمیں بچانے کے لیے آگے آئے۔‘
سہراب افتخار بنجوسہ جھیل سے 20 کلو میٹر دور ایک گاؤں کے رہائشی ہیں۔ یہ گذشتہ دونوں تفریح کی عرض سے بنجوسہ جھیل گے تھے، جہاں پر برف جمی ہوئی تھی اور وہ جھیل کو پار کرنے کی کوشش میں برف میں دھنس گے۔ اس موقع پر ان کو بچانے کے عرض سے ان کا ایک دوست فیصل پہنچا تو وہ بھی اس برف میں دھنس گیا۔
دو نوجوان دھنس چکے تھے۔ واضح طور پر نظر آرہا تھا کہ تھوڑی دیر تک انھیں مدد نہ ملی تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ایک وہ جھیل میں نیچے جارہے تھے اور برف والی جھیل کے ساتھ زیادہ دیر تک مقابلہ بھی ممکن نہیں تھا۔ ایسے میں بنجوسہ جھیل کے مقامی رہائشی محمد زغفران نے اپنی جان پر کھیل کر دونوں کی جانیں بچا لیں۔ یہ منظر متعدد موبائل کیمروں نے ریکارڈ کیا اور پھر یہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔
محمد زغفران کو اس جرات اور بہادری پر مقامی پولیس کے علاوہ مقامی سیاسی و سماجی رہنماؤں نے ایوارڈ اور انعام سے بھی نوازا ہے۔
یہ واقعہ کیسے پیش آیا؟
سہراب افتخار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں اپنے دوستوں کے ہمراہ جھیل پر تفریح کرنے گیا تھا۔ وہاں پر سب لوگ برف پر تصاویر بنوا رہے تھے۔ پہلے میں ان لوگوں کو منع کررہا تھا کہ نہ کرو یہ برف ٹوٹ سکتی ہے مگر وہ نہ مانیں اور تصاویر بنانے میں مگن رہے، جس سے مجھے حوصلہ ہوا کہ اگر برف نہیں ٹوٹ رہی تو مجھے بھی کچھ نہیں ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس پر میں نے سوچا کہ میں اکیلا اس برف پر سے چل کر پار جا سکتا ہوں۔ بس ’ایڈونچر‘ کے لیے آگے بڑھا۔ ابھی برف پر کچھ دیر ہی چلا تھا کہ برف ٹوٹ گئی اور میں اس میں دھنس چکا تھا۔ جب جھیل میں دھنسا تو مجھے لگا کہ اب میں نہیں بچ پاؤں گا۔ میرے دوست اور قریبی عزیز یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ اس پر میرے دوست اور قریبی فیصل مجھے بچانے آئے۔‘
سہراب افتخار کے مطابق ’فیصل جب میرے قریب پہنچے تو انھوں نے ایک چادر میرے طرف پھینکی کہ میں اس کو پکڑ کر باہر نکلوں، وہ میرے بہت قریب پہنچ چکا تھا جب اس نے چادر پھینکی تو برف ٹوٹ گئی اور وہ بھی اس میں دھنس گیا۔ اب ہم دو لوگ برف میں دھنسے ہوئے تھے اور ارد گرد کافی لوگ ہمیں دیکھ رہے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم دونوں نے ایک دوسرے سے یہ بات کی کہ اب کون ہماری مدد کو آئے گا۔‘ فیصل کا کہنا تھا کہ ’اپنا حوصلہ برقرار رکھنا ہے، لوگ ہمیں دیکھ رہے ہیں وہ ضرور ہماری مدد کو آئیں گے اور ہم بچ جائیں گے۔ مگر میرا حوصلہ ٹوٹ رہا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی اس برف پر چل کر ہماری مدد کو آئے اور جو آئے گا وہ کیسے بچ پائے گا۔‘
سہراب افتخار کا کہنا تھا کہ ’میری حالت غیر ہورہی تھی جبکہ فیصل کی حالت کچھ بہتر تھی۔ ایسے میں دیکھا کہ زغفران خان برف پر چل کر آ رہے ہیں اور ان کے ہاتھ میں رسا بھی ہے۔ زغفران بہت فربا تھے میں نے فیصل سے کہا کہ برف اتنا وزن برداشت نہیں کرسکے گی اور ٹوٹ جائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ زغفران جب آگے بڑھتے رہے اور مختلف مقامات سے ہماری طرف رسا پھینکتے رہے کئی مرتبہ کی کوشش کے بعد وہ ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں پر پہلے رسا فیصل تک پہنچا، جس کو لوگوں نے کھینچ کر نکالا اورپھر زغفران نے وہی رسا مجھ تک پہنچایا اور لوگوں نے مجھے بھی کھینچ کر نکال لیا۔‘
سہراب کے مطابق ’میں کنارے پر پہنچا تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ میں اور فیصل دونوں بچ گئے ہیں۔ زغفران ہمیں اپنے گھر لے کر گئے، وہاں پر جسم گرم کروایا اور پھر ڈاکٹر کو بھی دکھایا۔‘
سب دعائیں کر رہے تھے مگر آگے بڑھنے کی ہمت کوئی نہیں کررہا تھا
دونوں نوجوانوں کی زندگی بچانے والے 34 برس کے محمد زغفران خان جھیل کے قریب ہی کامران گیسٹ ہاوس کے مالک ہیں۔
محمد زغفران خان کا کہنا تھا کہ ’جب یہ واقعہ ہوا تو اس وقت میں کچن میں کام کررہا تھا۔ میرے چھوٹے بھائی محمد شعبان خان نے ایک لڑکا بھیجا کہ جھیل میں دو لڑکے پھنس گئے ہیں۔ ان کو نکالنے کے لیے رسی کی ضرورت ہے، جس پر میں نے اپنا کچن والا کام چھوڑا اور جھیل کی طرف چلا گیا، جہاں پر میں نے دیکھا کہ دو نوجوان پھنسے ہوئے تھے۔
محمد زغفران خان کہتے ہیں کہ اس وقت ہزار پندرہ سو لوگ جمع تھے۔ سب ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ سب لوگ دعائیں کررہے تھے، شور مچا رہے تھے مگر ہمت کوئی نہیں کررہا تھا اور کسی کو سمجھ بھی نہیں آرہا تھا کہ کیسے ان کی مدد کریں۔ سب لوگوں کو یہی خدشہ تھا کہ اگر کوئی ان کی طرف گیا تو وہ خود بھی منجمد جھیل میں دھنس جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ صورتحال گھمبیر تھی۔ وہ دونوں نوجوان چیخ رہے تھے شور مچار رہے تھے اور ساتھ ساتھ کلمے پڑھ رہے تھے۔ وہ سب لوگوں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے مگر دونوں نوجوانوں کو اپنے ساتھ برف سے منجمند جھیل میں دھنستے دیکھ کر اب کوئی ہمت نہیں کر رہا تھا۔ اس موقع پر میرے چھوٹے بھائی نے برف پر چلنے کی کوشش کی مگر وہ کامیاب نہیں ہو سکے۔
محمد زغفران کا کہنا تھا کہ اب میں نے کنارے سے رسا ان کی طرف پھینکنے کی کوشش مگر رسا ان تک نہیں پہنچ رہا تھا۔ اسکوشش میں کچھ منٹ ضائع ہوئے۔ اس طرح کشتی کے ذریعے سے بھی ان تک جانے کی کوشش کی جارہی تھی مگر برف پر کشتی کی حرکت بھی بہت ہی زیادہ کم تھی۔
اس صورتحال میں ایک ہی راستہ تھا کہ کوئی آگے بڑھتا اور ان کے بہت قریب جا کر ان تک رسا پہنچاتا، جس کی مدد سے ان کو واپس کھینچا جاسکتا تھا۔
’رشتہ داروں سے لڑائی کے بعد جھیل میں اترا‘
محمد زغفران کہتے ہیں کہ ’مجھے تیراکی بھی آتی تھی۔ بس لمحوں میں یہ فیصلہ کیا کہ مجھے دو انسانی جانیں بچانی ہیں۔ اس کے لیے میں برف پر چلنے لگا تو موقع پر موجود میرے رشتہ داروں اور دوستوں نے مجھے روکا بلکہ پکڑ لیا کہ کم وزن رکھنے والے دو نوجوان برف میں دھنس گئے ہیں تو میرا وزنتو ایک سو دو کلو گرام ہے۔ میں نے ان سے باقاعدہ لڑائی کی اور پھر رسی پکڑ کر آگے چل پڑا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں نے برف پر چلنا شروع کیا تو ایک اور نوجوان جو مقامی نہیں تھا بلکہ کوئی سیاح تھا تو وہ بھی میرے ساتھ چلنے لگا میں نے اس سے پوچھا کہ کیا اسے تیراکی آتی ہے تو اس کا جواب نفی میں تھا، جس پر میں نے اس سے کہا کہ پیچھے رہو۔ برف جمی ہوئی جھیل پر تیراکی آنے کے باوجود خطرات تھے کہ یہ پلیٹوں کی طرح جمی ہوئی تھی جب کوئی چیز دھنستی ہے تو یہ پلیٹیں ٹوٹتی ہیں اور اس سے مختلف طرح کے خطرات پیدا ہوتے ہیں۔‘
محمد زغفران کا کہنا تھا کہ برف پر چلتے ہوئے برف ٹوٹ رہی تھی مگر میں بڑھتا گیا کافی سارا چل کر ان تک رسی پھینکنے کی کوشش کی مگر رسی نہ پہنچی تو اس سے آگے تو واضح طور پر خطرے کا زون تھا کیونکہ میرے سامنے وہ دونوں بھی برف میں دھنسے ہوئے تھے، جس وجہ سے برف کچھ کمزور بھی ہوگئی تھی۔ بہرحال میں تھوڑا اور آگے چلا اور اس مرتبہ رسی ان تک پہنچ گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد سب لوگوں نے مل کر انھیں کھینچ کر باہر نکالا۔ دونوں کو اللہ نے نئی زندگی دی تھی۔ ان کو گھر لایا، گرم کیا اور ڈاکٹر کو بلایا وہ تھوڑے بہتر ہوئے تو پھر اپنے گھر چلے گئے تھے۔‘
مصنوعی جھیل جو سردیوں میں منجمند ہوجاتی ہے
بنجوسہ جھیل مصنوعی جھیل ہے۔ یہ ضلع پونچھ کے شہر راولاکوٹ سے اٹھارہ کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ بنجوسہ جھیل تک پہچنے کے لیے مناسب روڈ اور راستے موجود ہیں۔ مصنوعی جھیل بنانے کا بنیادی مقصد علاقے میں سیاحت کو فروغ دینا ہے۔
یہ علاقہ جنگلات اور پہاڑوں کے دامن میں واقع ہے۔
محمد زغفران بتاتے ہیں کہ جنوری اور فروری میں جب درجہ حرارت زیرو سے بھی گر جاتا ہے تو اس وقت جھیل کا پانی برف بن جاتا ہے اور جب مارچ کے مہینے میں درجہ حرارت بہتر ہوتا ہے تو برف پکھل کر پانی بن جاتا ہے۔
اس جھیل کا پانی قریب ہی میں موجود چشموں سے آتا ہے۔ اس جھیل میں دو طرح کی مچھلی پائی جاتی ہے جو بے انتہا لذیز ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب جھیل کا پانی برف بنتا ہے تو اس وقت مچھلی مٹی کے نیچے چلی جاتی ہے اور پانی بننے پر پانی میں نکل آتی ہے۔ اس جھیل میں وافر مقدار میں مچھلی ہوتی ہے اور لوگ اس مچھلی سے لطف اندوز ہونے کے لیے بھی بڑی تعداد میں اس طرف کا رخ کرتے ہیں۔
محمد زغفران کا کہنا تھا کہ سردیوں میں بھی سیاح آتے ہیں مگر گرمیوں میں زیادہ آتے ہیں۔ گرمیوں میں اس علاقے میں موسم بہت خوشگوار ہوتا ہے۔ راستہ بھی دشوار گزار نہیں ہے۔ سیاح ہمارے لیے مہمان ہوتے ہیں۔ ان کی خدمت اور حفاظت ہمارا فرض ہے۔‘