سی کانت کا کہنا ہے کہ ’چونکہ وہ بینک مینیجر تھے، اس لیے انھیں اُن پر اعتماد تھا لیکن صارفین کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ انھیں اپنے اکاؤنٹ میں موجود رقم اور اس میں سے ہونے والی ٹرانزیکشنز پر ہر وقت نظر رکھنی چاہیے۔‘
ایک انڈین خاتون نے ملک کے بڑے بینکوں میں سے ایک کے منیجر پر الزام لگایا ہے کہ انھوں نے اُن کے اکاؤنٹ سے 160 ملین یعنی 16 کروڑ روپے نکال کر انھیں دھوکہ دیا۔
شویتا شرما کا کہنا ہے کہ انھوں نے امریکہ میں اپنے بینک اکاؤنٹ سے انڈیا کے آئی سی آئی سی آئی بینک میں اس اُمید سےرقم منتقل کی تھی کہ یہ پیسے فکسڈ ڈیپازٹ میں لگائے جائیں گے۔
لیکن شویتا نے الزام لگایا کہ ایک بینک اہلکار نے ان کے اکاؤنٹ سے رقم نکالنے کے لیے ’جعلی اکاؤنٹ بنائے، ان کے جعلی دستخط کیے گئے اور بس یہی نہیں بلکہ اُن کے نام پر ڈیبٹ کارڈ اور چیک بُکس بھی بنائیں گئیں۔‘
شویتا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’بینک کے اہلکار نے مجھے بینک کی جعلی سٹیٹمنٹس دیں، میرے نام سے ایک جعلی ای میل آئی ڈی بنائی اور بینک کے ریکارڈ میں میرے موبائل نمبر میں ہیرا پھیری کی تاکہ مجھے اکاؤنٹ سے ہونے والی ٹرانزیکشنز یا رقم نکلوانے کی کوئی اطلاع یا پیغام موصول نہ ہو۔‘
بینک کے ترجمان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس بات کا تو اعتراف کیا کہ ’درحقیقت دھوکہ دہی کا یہ واقعہ ہوا ہے‘ لیکن ساتھ ہی اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی سی آئی سی آئی ’ایک مشہور اور قابلِ بھروسہ بینک ہے جس کے پاس لاکھوں صارفین کے کھربوں روپے جمع ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ دھوکہ دہی کہ اس واقعے میں جو بھی ملوث ہے، انھیں سزا دی جائے گی۔
شویتا شرما اور ان کے شوہر، جو امریکہ اور ہانگ کانگ میں کئی دہائیوں تک رہنے کے بعد 2016 میں انڈیا واپس آئے، ایک دوست کے ذریعے ایک بینکر سے ملے۔
چونکہ امریکہ میں بینک ڈپازٹس پر سود کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی، اس لیے انھوں نے شویتا کو مشورہ دیا کہ وہ اپنا پیسہ انڈیا منتقل کر دیں جہاں فکسڈ ڈیپازٹ 5.5 فیصد سے 6 فیصد تک سود کی پیشکش کر رہے تھے۔
انھوں نے دارالحکومت دہلی کے قریب پرانے گروگرام میں آئی سی آئی سی آئی کی برانچ کا دورہ کرنے کے بعد ان کے مشورے پر ایک نان ریزیڈنٹ انڈین ’این آر ای‘ یعنی وہ انڈین شہری جو اپنے ملک سے باہر رہتے ہیں، کی سہولت کے لیے فراہم کردہ اکاؤنٹ کھولا اور 2019 میں اپنے امریکی اکاؤنٹ سے اس میں رقم کی منتقلی شروع کی۔
انھوں نے کہا کہ ’ستمبر 2019 سے دسمبر 2023 تک کے چار سال میں، ہم نے اپنی پوری زندگی کی جمع پونجی تقریباً 135 ملین یعنی 13 کروڑ 50 لاکھ روپے بنک میں جمع کرائی۔‘ اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’سود کے ساتھ، یہ رقم بڑھ کر 160 ملین روپے سے زیادہ ہو گی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’انھیں کبھی ایک لمحے کے لیے بھی شک نہیں ہوا کہ کچھ غلط ہو رہا ہے کیونکہ برانچ مینیجر ’مجھے بینک کے ڈیپازٹس کی مناسب اور مکمل رسیدیں فراہم کرتے تھے، مجھے اپنے آئی سی آئی سی آئی اکاؤنٹ سے باقاعدگی سے ای میل سٹیٹمنٹس بھیجی جاتیں تھیں اور بعض اوقات دستاویزات کے فولڈر بھی لے کر آتے تھے۔‘
یہ فراڈ جنوری کے اوائل میں اس وقت سامنے آیا جب بینک میں ایک نئے ملازم نے شویتا شرما کو اپنے پیسوں پر بہتر منافع حاصل کرنے کی پیشکش کی۔
تب ہی انھیں پتا چلا کہ اُن کے تمام فکسڈ ڈیپازٹ غائب ہو چکے ہیں۔ ایک ڈیپازٹ پر 25 ملین روپے کا اوور ڈرافٹ بھی لیا گیا۔
’میرے شوہر اور میں حیران رہ گئے۔ مجھے اس بات کا اس قدر صدمہ پہنچا کہ میں پورے ایک ہفتے تک بستر سے نہیں اٹھ سکی۔ میری کیفیت بس ایسی ہی تھی کہ آپ کی زندگی آپ کی آنکھوں کے سامنے برباد ہو رہی ہو اور آپ کچھ نہیں کر پا رہے ہوں۔‘
شویتا شرما کہتی ہیں کہ انھوں نے تمام معلومات بینک کے ساتھ شیئر کی ہیں اور اعلیٰ حکام کے ساتھ کئی ملاقاتیں کی ہیں۔
’16 جنوری کو اپنی پہلی ملاقات میں، ہم نے بینک کے علاقائی اور زونل سربراہوں اور بینک کے اندرونی معاملات کی نگرانی کرنے والے حکام سے ملاقات کی جو ممبئی سے آئے تھے۔ انھوں نے ہمیں بتایا کہ وہ اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ اس سارے معاملے میں اُن کی کی جانب سے غلطی ہوئی کہ اُن کے برانچ کے منیجر نے انھیں دھوکہ دیا تھا۔‘
’انھوں نے ہمیں یقین دلایا کہ ہمیں ہماری ساری رقم واپس مل جائے گی لیکن پہلے، انھوں نے کہا کہ انھیں جعلی لین دین کی نشاندہی کرنے میں میری مدد کی ضرورت ہے۔‘
شویتا شرما اور اُن کی معاونت کرنے والی اکاؤنٹنٹس کی ٹیم نے پچھلے چار سال سے بینک کی جانب سے ملنے والی سٹیٹمنٹس کی چھان بین میں کئی دن گُزارے۔ ان کے اکاؤنٹنٹس پھر ویجیلنس ٹیم کو مزید تفتیش کے لیے بھیجے گئے تاکہ اُن میں ایسی ٹرانزیکشنز کی نشا ندہی کی جا سکے کہ جو اُن کے علم کے بغیر کی گئیں۔‘
’حقیقت میں یہ جاننا چونکا دینے والا تھا کہ میرے اکاؤنٹ سے رقم کیسے نکالی گئی اور کہاں خرچ کی گئی۔‘
شرما کہتی ہیں کہ بینک کی اس یقین دہانی کے باوجود کہ یہ مسئلہ دو ہفتے کے اندر حل ہو جائے گا، چھ ہفتے سے زیادہ گزر جانے کے باوجود انھیں ابھی تک اپنی رقم کی واپسی سے متعلق کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا اور وہ بس اپنی ڈوبی ہوئی جمع پونجی کی واپسی کی منتظر ہیں۔
اس دوران انھوں نے آئی سی آئی سی آئی کے سی ای او اور ڈپٹی سی ای او کو خط بھیجے ہیں اورملک کے مرکزی بینک ریزرو بینک آف انڈیا کے پاس شکایتیں درج کرائی ہیں، جو مالی جرائم سے متعلق ہیں۔
بی بی سی کو بھیجے گئے ایک بیان میں، بینک نے کہا کہ انھوں نے شویتا شرما کے اکاؤنٹ میں تحقیقات کے مکمل ہونے اور نتائج سامنے آنے تک 92 ملین روپے ٹرانسفر کرنے کی پیشکش کی ہے۔
تاہم شویتا شرما کی جانب سے بینک کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا گیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’یہ ان 16 کروڑ روپے سے بہت کم ہے جو واجب الادا ہیں اور بینک کی اس پیشکس کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ اکاؤنٹ اس وقت تک نا قابلِ استعمال کر دیا جائے گا کہ جب تک پولیس اس کیس کو بند نہیں کر دیتی، جس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’میری کوئی غلطی نہ ہونے کی سزا مجھے کیوں دی جا رہی ہے؟ میری زندگی برباد ہو گئی۔ میں سو نہیں سکتی۔ مجھے روزانہ ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔‘

سری کانت ایل، جو ’کیش لیس کنزیومر‘ کے نام سے ایک واچ ڈاگ چلاتے ہیں، کا کہنا ہے کہ ایسے معاملات عام نہیں اور بینک اس بات کو یقینی بنانے کے لیے آڈٹ اور چیک کا استعمال کرتے ہیں کہ ایسی چیزیں نہ ہوں۔
اُن کا کہنا ہے کہ ’لیکن اگر آپ کا بینک مینیجر ہی آپ کو دھوکہ دینے کا فیصلہ کر لے تو آپ کے پاس کرنے کو کُچھ نہیں ہوتا یعنی آپ کُچھ نہیں کر سکتے۔‘
سی کانت کا کہنا ہے کہ ’چونکہ وہ بینک مینیجر تھے، اس لیے انھیں اُن پر اعتماد تھا لیکن صارفین کو ہوشیار رہنا چاہیے۔ انھیں اپنے اکاؤنٹ میں موجود رقم اور اس میں سے ہونے والی ٹرانزیکشنز پر ہر وقت نظر رکھنی چاہیے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’گاہک کی طرف سے دوہری جانچ کی کمی اس قسم کی دھوکہ دہی کا باعث بن سکتی ہے۔‘
اس مہینے میں یہ دوسرا موقع ہے جب آئی سی آئی سی آئی بینک کسی ایسی وجہ سے خبروں میں ہے کہ جس سے اُن کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔
اس ماہ کے شروع میں، ریاست راجستھان میں پولیس نے کہا تھا کہ ایک برانچ مینیجر اور ان کے معاونین نے بینک کے مقرر کردہ اہداف کو پورا کرنے کے لیے کئی سال سے اربوں روپے جمع کرنے والوں کو دھوکہ دیا۔
پولیس نے کہا کہ انھوں نے کسٹمر کے اکاؤنٹس سے رقم نکالی اور اسے نئے کرنٹ اور سیونگ اکاؤنٹس کھولنے اور فکسڈ ڈیپازٹ قائم کرنے کے لیے استعمال کیا۔
آئی سی آئی سی آئی کے ترجمان نے کہا کہ اس معاملے میں بینک نے تیزی سے کام کیا اور ملوث مینجر کے خلاف کارروائی کی۔ انھوں نے مزید کہا کہ بینک کے کسی بھی کسٹمر کے پیسے کا نقصان نہیں ہوا۔
شویتا شرما کے معاملے میں، انھوں نے کہا کہ یہ ’حیران کن‘ ہے کہ وہ ’گزشتہ تین سال میں اپنے اکاؤنٹ میں ان ٹرانزیکشنز اور بیلنس سے بے خبر رہیں اور حال ہی میں انھوں نے اپنے اکاؤنٹ کے بیلنس میں فرق دیکھا۔‘
ملزم برانچ مینیجر کو ’معطل کر دیا گیا ہے اور تحقیقات جاری ہیں۔ بینک کا کہنا ہے کہ ’دھوکہ تو ہمارے ساتھ بھی ہوا ہے۔‘
آئی سی آئی سی آئی کے ترجمان نے کہا کہ ’ہمیں پولیس کی تفتیش مکمل ہونے تک انتظار کرنا پڑے گا۔ جب ان کا الزام سچ ثابت ہو جاتا ہے تو انھیں سود سمیت ان کی ساری رقم واپس مل جائے گی لیکن بدقسمتی سے انھیں انتظار کرنا پڑے گا۔‘
تاہم اس سارے معاملے میں بی بی سی تبصرے کے لیے مذکورہ مینیجر سے رابطہ کرنے سے قاصر رہا۔