قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے منعقد اجلاس کے دوران عمر ایوب نے ڈپٹی سپیکر سے شکایت کی کہ ان کی تقریر پی ٹی وی پر نشر نہیں کی جا رہی جس پر ڈپٹی سپیکر نے اس حوالے سے ہدایت جاری کر دی۔
پاکستان کے ایوانِ زیریں قومی اسمبلی میں ملک کے نئے وزیرِ اعظم کے انتخاب کے لیے ہونے والا اجلاس کسی طور پر بھی گذشتہ دو اجلاسوں سے مختلف نہیں تھا۔
وہی شور شرابا، ارکان کے ’مینڈیٹ چور‘، ’مریم کے پاپا چور ہیں‘، ’گھڑی چور‘ اور ’دیکھو دیکھو کون آیا‘ تو کبھی ’شیر آیا شیر آیا‘ کے نعروں میں شدت آجاتی اور کبھی ’چور چور آیا‘ کے نعروں سے ایوان گونج اٹھتا۔
سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں ابھی اجلاس شروع ہوا ہی تھا کہ تلاورت کلام پاک کے بعداپوزیشن کے ارکان نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے بڑے بڑے پوسٹرز کے ساتھ سپیکر کے ڈائس کا گھیراؤ کرلیا اور ’مینڈیٹ چور، مینڈیٹ چور‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیے جس پر سپیکر نے انھیں بتایا کہ اس کے بعد قومی ترانہ بھی بجایا جانا ہے لہذا کچھ دیر کے لیے انتظار کریں۔
قومی ترانہ بجتے ہی اس وقت ہال میں موجود تمام ارکان اس کے احترام میں کھڑے ہوگئے جبکہ اپوزیشن کے ارکان پہلے ہی سے احتجاج کے لیے کھڑے تھے۔ قومی ترانہ ختم ہونے کے بعد اپوزیشن کے ارکان نے پھر شور مچانا شروع کر دیا۔
اپوزیشن کے ارکان کچھ دیر کے لیے خاموشی اختیار کرتے یا پھر سانس لینے کے لیے نعرے بازی بند کر دیتے تو حکومتی بینچ سے کوئی رکن اپنی کلائی سے گھڑی اُتار کر لہرا دیتا جس کے بعد اپوزیشن کے ارکان دوبارہ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کے خلاف نعرے بازی کرنا شروع کردیتے۔
اپوزیشن ارکان کے نعروں کی شدت میں کمی آتی تو پھر حکومتی بینچز سے کوئی رکن یہی عمل دوبارہ دہراتا جس کے بعد اپوزیشن کے ارکان دوبارہ نعرے بازی شروع کردیتے۔
حکومتی بینچ کی طرف سے متعدد ارکان اسمبلی اونچی آواز میں کہتے ’وہ گھڑی جو چین نہیں لینے دے گی۔‘

واضح رہے کہ عمران خان نے بطور وزیرِ اعظم توشہ خانہ سے گھڑی لی تھی جو انھیں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے تحفے میں دی تھی جس پر مسلمانوں کے مقدس مقام خانہ کعبہ کی شبیہ تھی۔ اسے قومی احتساب بیورو کے بقول ’سستے داموں خرید کر فروخت‘ کیا گیا تھا۔ مقدمے میں عمران خان کو جرم ثابت ہونے پر سزا سنائی گئی ہے۔ تاہم انھوں نے اس الزام کو بارہا مسترد کیا ہے۔
سابق وزیر اعظم اور پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اور وزارتِ عظمی کے اُمیدوار میاں شہباز شریف اکٹھے ایوان میں داخل ہوئے تو پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے ’چور چور‘ کے نعرے لگانا شروع کر دیے۔ یہ دونوں بھائی چونکہ اپنی جماعت کے دیگر ارکان کے گھیرے میں تھے اس لیے انھیں اپنی نشستوں پر جانے میں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔
سپیکر نے جب قائد ایوان، یعنی وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے لابیز کا اعلان کیا جس میں سپیکر کی دائیں جانب میاں شہباز شریف اور بائیں جانب عمر ایوب کے لیے لابی بنائی گئی اور ارکان سے کہا کہ ارکان اپنے پسندیددہ امیدوار کو ووٹ دینے کے لیے متعقلہ لابی میں چلے جائیں۔
اپوزیشن کے ارکان نے کچھ دیر تو اپنا احتجاج جاری رکھا اور پھر وہ عمر ایوب کی لابی میں چلے گئے۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کچھ دیر تو اپنی کرسی پر بیٹھے رہے اور پھر میاں شہباز شریف کی لابی میں چلے گئے۔
ووٹنگ کے عمل کے دوران پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو، سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے علاوہ مخصوص نشستوں پر کامیاب ہونے والی اپنی جماعت کے خواتین کے ساتھ گفتگو کرتے رہے۔

حکمراں اتحاد کے صدارتی امیدوار آصف علی زرداری اپنے ووٹ کا اندراج کروانے کے بعد جب ایوان میں آئے تو انھوں نے کچھ دیر کے لیے بلاول بھٹو سے سرگوشی کی اور پھر دونوں اپنی نشست پر بیٹھ گئے جس کے بعد بلاول بھٹو اپنی جیب سے موبائل نکالا اور اپنے والد آصف علی زرداری کو موبائل پر کوئی میسج دیکھاتے رہے اور اس دوران سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور سید خورشید شاہ وہاں آگئے جس کی وجہ سے بلاول بھٹو نے اپنا موبائل بند کردیا۔
پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواد شیر افضل مروت بھی ایوان میں موجود تھے۔ اچانک اپنی کرسی سے اٹھے اور مہمانوں کی گیلری کی طرف چل دیے جہاں پر ایک خاتون نے انھیں روکا اور ان کے ساتھ سیلفی بنائی جس پر وہاں پر موجود سکیورٹی کے عملے نے مہمان خاتون کو ایسا کرنے سے روکا۔ شیر افضل مروت ایوان سے باہر نکل گئے۔
بلوچستان نینشل پارٹی مینگل گروپ کے سربراہ احتر مینگل نے اس انتخاب میں کسی کو بھی ووٹ نہیں ڈالا جبکہ جمیعت علمائے اسلام فضل الرحمن گروپ نے اس سارے عمل میں حصہ نہیں لیا۔
سپیکر قومی اسمبلی نے جب وزیر اعظم کے انتخاب کا اعلان کیا تو اپوزیشن کے ارکان نے میاں شہباز شریف کے ڈائس کے سامنے کھڑے ہوکر احتجاج کرنا شروع کردیا اور انھوں نے اونچی آواز میں نعرےلگانا شروع کردیے اور اس احتجاج کے دوران ہی نو منتخب وزیر اعظم نے اپنے کانوں پر ہیڈفون لگا کر تقریر کرنا شروع کردی۔
نومنتخب وزیر اعظممیاں شہباز شریف نے جوش خطابت میں اپنی تمام اتحادی جماعتوں کا ووٹ دینے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہہ دیا کہ ’ان کے ووٹوں کی وجہ سے وہ اپوزیشن لیڈر بنے ہیں۔‘
اس شور شرابے میں حکمراں اتحاد کی سینیئر لیڈرشپ نے بھی ہیڈ فونز لگا لیے۔ اپوزیشن کے اس شور شرابے میں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا کہ وزیر اعظم کیا بات کر رہے ہیں اور کچھ دیر کے بعد جب حکمراں اتحاد کے ارکان اپنے ڈیسک بجانا شروع کرتے تو اس وقت ایسا معلوم ہوتا کہ نومنتخب وزیر اعظم نے کوئی ایسی بات کی ہے جو ان کے مطلب کی ہے۔
اپوزیشن کے ارکان کے نعروں سے تنگ آکر کہنا پڑا کہ ایوان میں شور کا نہیں شعور کا رواج ہونا چاہیے۔
نو منتخب وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اپنا خطاب ختم کیا تو اُس کے بعد جب اُن کے مدِ مقابل وزیرِ اعظم کے اُمیدوار عُمر ایوب نے تقریر شروع کی۔
نومنتخب وزیر اعظم کی تقریر اپوزیشن کے احتجاج کے دوران ہی ختم ہوئی جس کے بعد عمر ایوب نے اپنی تقریر شروع کرتے ہی کہا کہ جعلی مینڈیٹ کے ذریعے آنے والی حکومت کے چہرے پر کوئی خوشی نہیں ہے کیونکہ انھیں بھی معلوم ہے کہ وہ مینڈیٹ چوری کر کے آئے ہیں۔
ان کی اس تقریر کے دوران پی ٹی وی نے قومی اسمبلی میں جاری کارروائی براہِ راست نشر کرنا بند کر دی۔ سنی اتحاد کونسل کے ارکان کبھی عمر ایوب کے پیچھے عمران خان کا بینر لہرا رہے تھے تو کبھی وہ ان کے بازو اور سامنے مائیک پر عمران خان کے سٹیکر لگا رہے تھے۔
تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے امیدوار عمر ایوب کی تقریر نشر نہ کیے جانے پر ارکان نے ڈپٹی سپیکر سے مطالبہ کیا کہ ’آپ رولنگ دیں۔‘
قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی جانب سے قومی نشریاتی ادارے پی ٹی وی کو یہ ہدایات جاری کیں کہ وہ پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما عُمر ایوب خان کی تقریر کو نشر کریں۔ انھوں نے کہا کہ ’عمر ایوب صاحب! آپ اتنے سینیئر ہیں۔ آپ چیئر کو حکم نہ دیں۔ میں نے ہدایت دے دہی ہے، پی ٹی آئی اسے لائیو چلائے۔‘
عمر ایوب نے حکومتی ارکان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے چہروں سے ایسے لگتا ہے کے جیسے وہ کسی جنازے پر آئے ہیں۔
یہ سن کر عطا تارڑاور دوسرے ارکان غصے میں آگئے اور وہ اپوزیشن کے بینچز کی طرف بڑھنے لگے تو حنیف عباسی نے انھیں ادھر جانے سے روک دیا۔