بلوچستان کے ضلع قلات میں بس پر حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد دراصل قوال تھے جو ایک تقریب میں شرکت کے لیے کراچی سے کوئٹہ جا رہے تھے۔
’بس پر اچانک اندھا دھند فائرنگ کے باعث میری آنکھ کھلی تو وہ ایک خوفناک منظر تھا اور جو لوگ ہوش میں تھے وہ سب آہ و بکا کر رہے تھے۔‘
یہ کہنا تھا کراچی سے تعلق رکھنے محمد رضوان کا جو اس بس میں سفر کر رہے تھے جسے بدھ کی شام بلوچستان میں قلات شہر کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے حملے کا نشانہ بنایا۔
انھوں نے بتایا کہ وہ خوش قسمتی سے حملے میں محفوظ رہے تاہم ان کے ساتھیوں میں سے تین زندگی کی بازی ہار گئے جبکہ باقی زیادہ تر زخمی ہو گئے۔
حملے کا نشانہ بننے والے ایک اور مسافر نے بتایا کہ وہ چالیس سال سے کوئٹہ آمدورفت کرتے رہے ہیں لیکن اس سے پہلے انھوں نے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا۔
بلوچستان کے ضلع قلات میں بس پر حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد دراصل قوال تھے جو ایک تقریب میں شرکت کے لیے کراچی سے کوئٹہ جا رہے تھے۔
کوئٹہ میں پولیس کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حملے کا نشانہ بننے والے قوالوں اور موسیقاروں کا تعلق صابری گروپ سے ہے جن کو کوئٹہ میں ایک شادی کی تقریب میں بلایا گیا تھا۔
پولیس حکام کے مطابق بس پر ہونے والے حملے میں تین افراد ہلاک ہوئے۔ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال قلات کے ایم ایس ڈاکٹر نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ فائرنگ سے 14 افراد زخمی ہوئے جن میں سے تین کی حالت تشویشناک ہے۔
زخمیوں کو قلات میں طبی امداد کی فراہمی کے بعد علاج کے لیے کوئٹہ منتقل کر دیا گیا۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اب دہشت گرد شہریوں کو اندھا دھند نشانہ بنا رہے ہیں۔‘
بس کے مسافروں نے کیا بتایا؟
کوئٹہ پولیس کے ایک سینیئر اہلکار نے بتایا کہ کوئٹہ میں ایک بااثر فیملی کی شادی تھی جس میں صابری گروپ سے تعلق رکھنے والے قوالوں اور موسیقاروں کو پرفارمنس کے لیے بلایا گیا تھا۔
بی بی سی نے کوئٹہ میں فائرنگ سے ایک زخمی منظر عباس سے فون پر رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ اس وقت بات کرنے کی حالت میں نہیں۔
فائرنگ سے بعض لوگ محفوظ رہے تھے لیکن شدید صدمے کی وجہ سے وہ بھی زیادہ بات نہیں کر سکتے۔
ان ہی میں سے ایک محمد رضوان نے بتایا کہ فائرنگ کے واقعے سے کچھ پہلے ان کی آنکھ لگ گئی تھی لیکن فائرنگ اور بس کو لگنے والے شدید جھٹکوں کی وجہ سے جب آنکھ کھلی تو وہ ایک خوفناک منظر تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’توبہ استغفار، اس منظر کو بیان کرنے کے لیے الفاظ نہیں۔ بس میں ہر طرف آہ و بکا تھی اور کچھ لوگ اپنی نشستوں پر گرے پڑے تھے اور بہت سارے نیچے بھی پڑے ہوئے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ میں نے یہ سمجھا کہ بس یہ زندگی کا آخری دن ہے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے اس حملے میں محفوظ رکھا تاہم میرے ساتھی ہلاک اور زخمی ہوئے جس کے باعث میں بہت دکھی ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ قوال ہیں اور پرفارمنس کے لیے کوئٹہ جا رہے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں ان میں امجد صابری کے دو قریبی عزیز بھی شامل ہیں۔
قلات کے ہسپتال سے وہاں کے مقامی صحافیوں نے فائرنگ سے بچ جانے والے جن مسافروں کی ویڈیوز شیئر کیں ان میں بھی وہ غم سے نڈھال دکھائی دے رہے تھے۔
محفوظ رہنے والا ایک شخص ویڈیو میں مستقل روتا ہوا دکھائی دیا اور صحافیوں سے بات چیت کے دوران بھی اپنے آنسوؤں پر قابو نہ پا سکا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ چالیس سال سے کوئٹہ آتے جاتے رہے ہیں لیکن اس سے پہلے انھوں نے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا۔
انھوں نے بتایا کہ ان کا تعلق کراچی میں صابری گھرانے سے ہے اور ماجد علی صابری ان کے بھائی ہیں۔
صحافیوں کے اصرار پر انھوں نے بتایا کہ ’مجھ میں بولنے کی ہمت نہیں۔ اس حملے میں ہمارے تین بندے ضائع ہو گئے۔ بس ہم کیا بولیں۔‘
’زخمیوں میں بس ڈرائیور بھی شامل‘
زخمی ہونے والوں میں بس کا ڈرائیور بھی شامل ہے جنھیں قلات میں طبی امداد کی فراہمی کے بعد ٹراما سینٹر کوئٹہ منتقل کیا گیا۔
سول پستال کوئٹہ کے ایم ایس نے بتایا کہ زخمیوں کو کوئٹہ منتقل کرنے کے پیش نظر سول ہسپتال سمیت دیگر ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی لیکن سول ہسپتال کے ٹراما سینٹر میں صرف ایک زخمی کو منتقل کیا گیا جو بس کا ڈرائیور ہے اور انھیں کندھے اور ٹانگ پر گولی لگی۔
بس کے بعض مسافروں نے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال قلات میں مقامی صحافیوں کو بتایا کہ بس پر اچانک شدید فائرنگ ہوئی جس کے باعث بس سڑک سے باہر نکل گئی۔
انھوں نے بتایا کہ بس سڑک سے نیچے اتر کر ایک باغ کے قریب رک گئی جہاں سے زخمی افراد کو طبی امداد کی فراہمی کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ نہیں دیکھا کہ حملہ آور کتنے تھے تاہم بس میں بہت ساری گولیاں لگیں۔
بس کو کہاں نشانہ بنایا گیا؟
جس بس کو قلات میں نامعلوم مسلح افراد نے حملے کا نشانہ بنایا وہ صبح کراچی سے کوئٹہ کے لیے نکلی تھی۔
سرکاری حکام نے بتایا کہ بس کو نیمرغ کراس کے علاقے میں نشانہ بنایا گیا جو قلات شہر سے اندازاً آٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر شمال میں کوئٹہ کراچی ہائی وے پر کوئٹہ کی جانب واقع ہے۔
اس واقعے کی تفصیلات معلوم کرنے کے لیے ڈپٹی کمشنر قلات اور ضلعی پولیس کے سربراہ سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی لیکن انھوں نے کال وصول نہیں کی۔
اگرچہ رابطہ کرنے پر قلات کے ایس ایچ او حبیب نیچاری نے کال وصول کی لیکن انھوں نے زیادہ تفصیلات فراہم نہیں کیں اور صرف اتنا بتایا کہ حملے میں تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے ہیں۔
اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے۔
میڈیا کو بی ایل اے ترجمان جیئند بلوچ کی جانب سے جاری بیان میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ قوال ان کے حملے کا ہدف نہیں تھے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’قلات میں مسافر کوچ پر حملہ ایک بزدلانہ اور قابل نفرت دہشت گردی ہے جس میں قیمتی جانوں کا ضیاع ناقابل تلافی نقصان ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ کالعدم تنظیمیں پہلے شناخت کی بنیاد پر حملوں کا تاثر دیتی رہی ہیں۔ ’اب اندھا دھند شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہیں جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جنگ ہر عام پاکستانی کے خلاف ہے۔ ہم اسے ہر قیمت پر ناکام بنائیں گے۔‘
قلات کہاں واقع ہے؟
قلات بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے اندازاً ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر جنوب میں واقع ہے۔ قلات کی آبادی مختلف بلوچ قبائل پر مشتمل ہے۔
قلات کا شمار بلوچستان کے ان علاقوں میں ہوتا ہے جو شورش سے متاثر ہیں اور قلات شہر سمیت اس کے دیگر علاقوں میں طویل عرصے سے بدامنی کے سنگین واقعات پیش آ رہے ہیں۔
قلات میں گذشتہ ایک ڈیڑھ سال کے دوران نہ صرف سنگین بدامنی کے واقعات میں اضافہ ہوا بلکہ کالعدم عسکریت پسند تنظیموں سے تعلق رکھنے والے جنگجو متعدد بار کوئٹہ کراچی شاہراہ پر ناکہ بندی بھی کرتے رہے ہیں۔
ماضی میں قلات میں سنگین بدامنی کے واقعات کی زیادہ تر ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے قبول کی جاتی رہی ہے تاہم سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ قلات شہر اور اس کے مختلف علاقوں میں امن و امان کی بہتری کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔