کھیل کے میدان سے لے کر مجرموں کی کھوج تک: ’کنٹینر پر چڑھ کر چیکنگ کی تو لوگوں نے کہا پہلی بار ایسی لڑکی دیکھی ہے‘

ملکۂ نور اور حرا علی اُن باہمت خواتین میں سے ہیں جو پاکستان کے لیے اپنی خدمات پیش کر رہی ہیں۔ ملکۂ نور پاکستان فٹ بال ٹیم میں ہیں جبکہ حرا کسٹم آفیسر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ ملکۂ اور حرا کی زندگی کی کہانیاں اُتنی ہی دلچسپ ہیں جتنے ان کے شعبے۔
ملکۂ نور فٹبالر ہیں جبکہ حرا علی ایک کسٹمز افسر ہیں
BBC
ملکۂ نور اور حرا علی کا شمار ان باہمت خواتین میں ہوتا ہے جو پاکستان کے لیے اپنی خدمات پیش کر رہی ہیں

ملازمت کے ساتھ ساتھ گھر کی ذمہ داریاں نبھانے کا معاملہ آج کل ہر دوسرے گھر میں زیرِ بحث ہے اور اس توازن کو برقرار رکھنے کی جدوجہد ہر خاتون کے لیے ایک چیلنج سمجھا جاتا ہے۔

حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا گروپس میں ورکنگ وومن کو لے کر یہ بحث زور پکڑتی دکھائی دیتی ہے۔ نوکری کے ساتھ گھر اور بچوں کو دیکھ بھال کرنا آسان کام نہیں خصوصاً اگر ان خواتین کا تعلق کسی ایسے شعبے سے ہو جس کے متعلق عام تاثر یہ ہو کہ اس شعبے میں مردوں کی اجارہ داری ہے۔

ملکۂ نور اور حرا علی کا شمار ان باہمت خواتین میں ہوتا ہے جو پاکستان کے لیے اپنی خدمات پیش کر رہی ہیں۔ ملکۂ نور پاکستان کی قومی فٹ بال ٹیم کا حصہ ہیں جبکہ حرا کسٹم آفیسر کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ ملکۂ نور اور حرا کی زندگی کی کہانیاں اُتنی ہی دلچسپ ہیں جتنے ان کے شعبے۔

ٹی وی پر میچ دیکھتے ہوئے شاید ہی کبھی کسی نے سوچا ہو کہ یہ خواتین کھلاڑی کس طرح گھر اور کھیل کے درمیان توازن برقرار رکھ پاتی ہیں۔

ملکہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’گھر اور کھیل کو ایک ساتھ لے کر چلنا آسان نہیں ہے۔ میرے دو چھوٹے بچے ہیں جن میں سے ایک سکول جاتا ہے۔ صبح اُٹھ کر اُس کو بھیجتی ہوں، پھر شوہر کو جم بھیجتی ہوں اور اس کے بعد اپنی ٹریننگ کے لیے جاتی ہوں۔‘

ملکہ کو بین الاقوامی میچز میں حصہ لینے کے لیے اکثر بیرونِ ملک سفر کرنا پڑتا ہے۔ ایسے میں وہ بچوں کو اپنے والدین کے پاس چھوڑ کر جاتی ہیں۔ ’میں بچوں کو بہت یاد کرتی ہوں۔ مگر اُن کے کپڑوں، کھانے پینے کا سارا انتظام میں کر کے جاتی ہوں۔‘

ملکۂ نور کے دو بچے ہیں
BBC
ملکۂ نور پاکستان کی قومی فٹ بال ٹیم کا حصہ ہیں

ملکہ نے سنہ 2007 میں فٹ بال کھیلنا شروع کیا تھا۔ سالوں کی انتھک محنت کے بعد وہ نہ صرف پاکستان نیشنل ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گئیں بلکہ وہ ایک خوشحال زندگی بھی گزار رہی ہیں۔ ملکہ کا تعلق ہنزہ سے ہے جہاں خواتین کی عوامی زندگی میں نمائندگی میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔

ملکہ دوسری خواتین کی حوصلی افزائی کرتی ہیں وہ بھی ان کی طرح آگے بڑھیں اور اپنے خوابوں کو پورا کریں۔

ملکہ امریکہ، بنگلہ دیش، سعودی عرب سمیت کئی ممالک میں میچز کھیل چکی ہیں اور کئی مقابلے بھی جیت چکی ہیں۔ ان کی دونوں بہنیں بھی فٹ بالرز ہیں جن میں سے ایک اُن کے ساتھ نیشنل ٹیم میں کھیلتی ہیں جبکہ دوسری دبئی میں فٹ بال کوچ ہیں۔

عموماً ملازمت کرنے کی خواہشمند خواتین کو اپنے ہی گھر اور خاندان والوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم ملکہ اس معاملے میں کافی خوش قسمت ہیں۔ نہ صرف ان کے والدین نے اپنی بیٹیوں کو گھر کے کام کاج کے بجائے ان کے خوابوں حصول میں مدد دی بلکہ شادی کے بعد ان کے شوہر نے بھی کھیل جاری رکھنے کے لیے کی حوصلہ افزائی کی۔

حرا
BBC

ملکہ کہتی ہیں کہ ’لوگ ایسے دیکھتے تھے جیسے میں نے پتا نہیں کون سا کام شروع کر دیا ہے اور میں اس میں فٹ نہیں ہوتی۔ مگر میں نے گھر اور کھیل کو مینیج کر کے دکھایا اور آج وہی لوگ میری تعریف کرتے ہیں۔‘

ملکۂ کو جم میں ٹریننگ کرتے، ورزش کرتے، پھر گھر جا کر کھانا پکاتے اور بچوں کا خیال رکھتے دیکھ کر اندازا ہوتا ہے کہ ایک عام مرد کی بنسبت اُن کی زندگی کتنی مشکل ہے۔

عموعماً مرد شام کو دفتر سے واپس آکر گھر کا کام نہیں کرتے مگر خواتین کو یہ آسائش میسر نہیں اور انھیں گھر کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔

کھیل
BBC
ملکہ نے سنہ 2007 میں فٹ بال کھیلنا شروع کیا تھا

’یونیفارم میں ایک شان ہوتی ہے‘

’آپ نے سر پہ دوپٹہ نہیں لیا ہوا، آپ نے سکارف کیوں نہیں پہنا ہوا؟ آپ اگر سکارف پہنیں گی تو آپ پاکستانی عورت لگیں گی، مسلمان لگیں گی۔‘

نوجوان کسٹم آفیسر حرا علی کو اکثر ایسی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ حرا آج کل حیدرآباد میں تعینات ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ عموماً لوگ اُنھیں ان کے کام کی وجہ سے سراہتے ہیں لیکن کبھی کبھار انھیں عجیب وغریب باتیں بھی سُننا پڑتی ہیں۔

سندھ کے ضلع مٹیاری سے تعلق رکھنے والی حرا کو فوج کا یونیفارم پہننے کا شوق تھا جو پورا نہیں ہو سکا لیکن ناکامیوں کے باوجود وہ مسلسل محنت کرتی رہیں اور کسٹم آفیسر بن کر انھوں نے اپنا یونیفارم پہننے کا خواب پورا کیا۔

’یونیفارم میں ایک شان ہوتی ہے، میں نے آرمی میں اپلائی کیا، ایئر فورس میں اپلائی کیا لیکن جہاں آپ کا نصیب ہوتا ہے قسمت آپ کو وہاں لے جاتی ہے۔‘

حرا گریجویشن کے بعد تین سال کی مسلسل کوشش کے بعد آخرکار مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہوئیں۔ اُن کے بقول اُن کے سفر میں اُن کی فیملی خصوصاً اُن کے والد کا بڑا ہاتھ ہے، جو اُن کی ہر ناکامی کے بعد مُسکرا کر اُنھیں دوبارہ کوشش کرنے کا حوصلہ دیتے تھے۔

ماضی کا ذکر کرتے ہوئے حرا بتاتی ہیں کہ ’کچھ رشتہ دار تھے جو کہتے تھے کہ نہیں پڑھو، چھوڑ دو، تین سال ہو گئے ہیں۔ ابھی تک محنت کر رہی ہو، کچھ مل تو نہیں رہا ہے، شاید تمھارے نصیب میں یہ چیز لکھی ہوئی نہیں ہے، شادی کر لو انجوائے کرو، لیکن میں نے امید نہیں چھوڑی۔‘

حرا
BBC

حرا علی پاکستان کسٹمز میں پچھلے نو ماہ سے کام کر رہی ہیں۔ فی الوقت اُن کے پاس ’ایکسپورٹ فیسیلیٹیشن‘ سکیم کا چارج ہے اور اس کام کے سلسلے میں اُنھیں مختلف ملوں کے دورے کرنے پڑتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ اینٹی سمگلنگ کے مقدمات میں محکمے کی طرف سے پیش ہوتی ہیں۔

ایک کیس کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’جیکب آباد سے 912 آئٹمز پکڑے گئے تھے اور مجھے اُس معاملے میں محکمے کی طرف سے کیس لڑنا تھا۔ مخالف پارٹی میں 40 سے 50 مرد تھے اور دوسری طرف سے میں لڑ رہی تھی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ یہ بہت ’چیلنجنگ‘ تھا۔ ’ایک ایک کو سمجھانا، جواب دینا، ہر ایک کے دلائل سننا اور اپنے حقائق، اعداد و شمار اور دلائل دینا۔ بالآخر، میں نے یہ کیس جیتا اور فیصلہ محکمے کے حق میں آیا۔‘

عدالتوں میں اکثر اُن کا سامنا مردوں سے ہی ہوتا ہے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس ایسے کلائنٹس بھی آتے ہیں جو عورت سے بات ہی نہیں کرنا چاہتے۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی مرد کو بُلائیں، ہم آُن سے بات کریں گے، اُن کو اپنا کیس سمجھائیں گے، ہم عورت سے بات نہیں کریں گے، ہمیں اُنھیں سمجھانا پڑتا ہے کہ ہم بھی اُسی طریقے سے یہاں پہنچے ہیں، جس پر عمل کرکے ایک مرد یہاں پہنچتا ہے۔‘

اُن کے خیال میں مرد اہلکاروں کے مقابلے میں عورتوں کو دو سے تین گنا زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اگر آپ کیس کی بھرپور تیاری کر کے جائیں اور اگر آپ کے پاس حقائق ہیں، اعداد وشمار ہیں، معلومات ہیں، بات چیت میں مہارت حاصل ہے، تو اس سے بہت آسانی ہو جاتی ہے اور آپ ان کو سمجھا سکتے ہیں۔‘

حرا
BBC

بطور کسٹم آفیسر اپنے پہلے دورے کو یاد کر تے ہوئے ان کے لبوں پر مُسکراہٹ پھیل گئی۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’اُن کو توقع تھی کہ یہ تو لڑکی ہے اور ہم کچھ بھی کہہ دیں گے تو مان جائے گی۔‘

حرا کہتی ہیں کہ جب وہ پہلی بار گئیں تو انھوں نے بھر پور چیکنگ کی۔ ’میں دستاویزات ساتھ لے کر اور پڑھ کے گئی تھی۔ میں نے کنٹینرز پہ چڑھ کے بھرپور چیکنگ کی، معائنہ کیا، تو اُن کا کہنا تھا کہ ایک خاتون آفیسر ہو کے آپ بہت تفصیل سے چیکنگ کر رہی ہیں، ہم نے ایسا پہلی بار دیکھا ہے۔‘

کسٹم میں خواتین آفیسرز اور عملے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اُن کے دفتر میں اگر 70 لوگ کام کررہے ہیں تو اُن میں صرف نو سے 10 خواتین ہیں جو مختلف پوزیشنز پر اپنی خدمات انجام دے رہی ہیں۔

اُن کے خیال میں عورتوں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے بھی اُنھیں سائیڈ لائن کیا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اُن (عورتوں) کو فیصلہ سازی کا حصہ نہیں بنایا جاتا، مردوں کے مقابلے میں اُن کی رائے کو اتنی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔‘

خواتین کو پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے حرا نے بتایا کہ چارج لینے کے بعد جب وہ پہلی بار پاکستان کسٹمز کے دفتر گئیں تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئیں وہاں خواتین کے لیے الگ ٹوائلٹ نہیں تھا۔

جب انھوں نے وہاں پہلے سے کام کر رہی خواتین سے پوچھا کہ وہ کب اور کس طرح واش روم استعمال کرتی ہیں تو اُن کو جواب ملا کہ جب دفتر میں کام کرنے والے مرد حضرات دو بجے کھانا کھانے یا نماز پڑھنے چلے جاتے ہیں تو ان کی غیر موجودگی میں خواتین ٹوائلٹ استعمال کرتی ہیں۔

حرا کہتی ہیں کہ انھوں نے اعلیٰ حکام سے بات کر کے خواتین کے لیے علیحدہ ٹوائلٹس کا انتظام کیا، جس پر اُن کی ساتھی خواتین کافی مطمئن نظر آتی ہیں۔

حرا کے ساتھ دن گزارنے کے بعد اندازہ ہوا کہ وہ طبیعتاً ہنس مکھ اور زندہ دل انسان ہیں۔ حرا کا کہنا ہے کہ وہ بہت اچھا کھانا بناتی ہیں۔ ’میرے ہاتھ کا کھانا کھائیں گی تو انگلیاں چاٹتی رہیں گی۔‘

فارغ اوقات میں حرا سیر و تفریح کرنا پسند ہے اور دوستوں اور فیملی کے ساتھ وقت کو بہت انجوائے کرتی ہیں۔

حرا کی فیملی جامشورو میں رہتی ہے جبکہ اُن کی پوسٹنگ حیدرآباد میں ہے۔ اس کی وجہ سے ان کو دفتر پہنچنے کے لیے روزانہ ایک گھنٹہ ڈرائیو کرنا پڑتا ہے۔

حرا کہتی ہیں کہ انھوں نے سات سال پہلے گاڑی چلانا سیکھی اور اُن کے خیال میں اِس سے اُن کی محتاجی ختم ہو گئی ہے اور وہ اپنے آپ کو آزاد اور خودمختار محسوس کرتی ہیں۔

حرا اور ملکہ جیسی خواتین یہ ثابت کر رہی ہیں کہ ایک عورت صرف کچن تک ہی محدود نہیں بلکہ وہ کھیل کے میدانوں سے لے کر مجرموں تک کو پکڑنا جانتی ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts