کیا موجودہ حکومت نگران حکومت کا تصور ختم کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کر سکتی ہے؟

image

پاکستان میں منتخب حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے کے بعد نگران حکومت انتخابات کے انعقاد تک امور مملکت چلاتی ہے تاہم نگران حکومت کا بنیادی کام صرف روزمرہ کے حکومتی امور چلانا اور انتخابات کے انعقاد کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کرنا ہوتا ہے۔

پاکستان میں نگران حکومت کا سیٹ اپ کب سے شروع ہوا؟تاریخی کے اوراق کو کنگالا جائے تو پاکستان میں پہلی مرتبہ سنہ 1990 کے الیکشن سے قبل نگران حکومت تشکیل دی گئی تھی۔

1990کے انتخابات کے بعد سے 2024 تک ہونے والے تمام تر انتخابات نگران حکومتوں کی زیر نگرانی ہوئے ہیں۔ تاہم 2002 کے انتخابات سابق فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں انعقاد کیے گئے تھے اور اُس وقت نگران سیٹ اپ کی ضرورت پیش نہیں آئی تھی۔

نگران حکومت کو کیسے تشکیل دیا جاتا ہے؟منتخب حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے کے بعد نگران حکومت کا قیام آئین کی شق 224 کے تحت عمل میں آتا ہے۔ عام انتخابات سے قبل آئین کی شق 58 کے تحت قومی اسمبلی تحلیل ہو جاتی ہے۔

آئین کی شق 224 کی ذیلی شقوں کے تحت صدر وزیراعظم اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف کی مشاورت سے نگران وزیراعظم کی تعیناتی کرتے ہیں تاہم اس تعیناتی کے لیے قائد حزب اختلاف اور وزیراعظم کے درمیان اتفاق رائے ہونا ضروری ہے۔

وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان اتفاق رائے پیدا نہ ہونے کی صورت میں یہ کام پارلیمانی کمیٹیاں سر انجام دیتی ہیں۔

نگران وزیراعظم کی تعیناتی کے معاملے پر اگر وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کے درمیان اتفاق رائے پیدا نہ ہو تو اس صورت میں یہ کام پارلیمانی کمیٹیاں سر انجام دیتی ہیں۔

پارلیمانی کمیٹی آٹھ ارکان پر مشتمل ہوتی ہے۔صوبوں میں بھی نگران حکومتوں کے تشکیل کے لیے یہی نظام موجود ہے تاہم صوبوں میں پارلیمانی کمیٹیاں 6 ارکان پر مشتمل ہوتی ہیں۔

آئین میں نگران حکومت کی ذمہ داری کیا ہوتی ہے؟وفاق اور صوبوں میں تشکیل پا جانے والی نگران حکومتوں کی اصل ذمہداری عام انتخابات کے انعقاد میں الیکشن کمیشن کی معاونت اور ملک کے روزمرہ کے معاملات چلانا ہوتا ہے نگران حکومت کو بڑے فیصلوں کا اختیار حاصل نہیں ہوتا۔

1990کے انتخابات کے بعد سے 2024 تک ہونے والے تمام تر انتخابات نگران حکومتوں کی زیر نگرانی ہوئے ہیں۔ فائل فوٹو: اے پی پیتاہم سابق پی ڈی ایم حکومت نے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 230 میں ترمیم کے ذریعے نگران سیٹ اپ کو کچھ اضافی اختیار دیے تھے۔

اب نگران حکومت روزمرہ کے حکومتی امور نمٹانے کے ساتھ ساتھ پہلے سے جاری منصوبوں سے متعلق اختیارات بھی استعمال کر سکتی ہے اور پالیسی بھی بنا سکتی ہے ۔

انتخاب 2024 سے قبل سابق وزیراعظم انوار الحق کی نگران حکومت پاکستان کی طویل ترین مدت تک رہنے والی نگران حکومت تھی۔

انوار الحق کاکڑ نے 14 اگست 2023 کو بطور نگران وزیر اعظم حلف اٹھایا تھا اور وہ 4 مارچ 2024 تک پاکستان کے نگراں وزیراعظم کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں۔ یعنی تین ماہ کی بجائے سابق نگران حکومت کم و بیش 7 ماہ تک بر سر اقتدار رہی۔

وفاق کے ساتھ ساتھ صوبوں میں بھی نگران حکومتیں اپنی مدت سے دوگنی مدت تک اقتدار کی مسند پر بیٹھی رہیں۔ جس سے اب اب پارلیمان میں یہ بازگشت سنائی دے رہی ہے کہ کیوں نہ نگران حکومت کا تصور ہی ختم کر دیا جائے۔

اب کی بار پارلیمان میں ن لیگ نگران حکومت کے کردار کو ختم کرنے کے لیے سب سے موثر آواز بن کر سامنے آئی ہے جو اس نقطے پر اتحادی جماعتوں کو بھی اپنا ہم خیال مان رہی ہے۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نگران حکومت کے تصور کو ختم کرنے پر متفق: عرفان صدیقین لیگ کے سینیئر رہنما سینیٹر ارفان صدیقی کہتے ہیں دنیا میں اب کہیں بھی نگران حکومتوں کا تصور نہیں رہا یہ معاملہ صرف پاکستان تک ہی محدود رہ گیا ہے۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ اصولی پر پر نگران حکومت کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے اس سے ملک کو نقصان ہی ہوا ہے۔ دنیا ان تجربات سے بہت آگے نکل چکی ہے۔

موجودہ حکومت میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے ساتھ ایم کیو ایم بھی ایک بڑی جماعت کے طور پر اتحادی ہے۔ فوٹو: اے پی پیانہوں نے مزید کہا کہ بنگلادیش ایک آخری ملک تھا جہاں بھی یہ تصور ختم کر دیا گیا ہے۔اب صرف پاکستان ہی یہ تجربے کر رہا ہے۔ہمیں بھی اب آگے کی سوچنا ہو گا۔

سینیٹر عرفان صدیقی نے حالیہ نگران حکومتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ انتخابات 2024 سے قبل نگران حکومتوں نے اپنی مدت سے کہیں زیادہ وقت اقتدار میں گزارا ہے۔

وفاق میں نگران حکومت 6 ماہ تک قائم رہی جب کہ آئین میں اُسکی مدت 3 ماہ ہے۔عرفان صدیقی کے مطابق اسی طرح پنجاب میں نگران حکومت 14 ماہ تک رہی ہے جس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ کس قانون کے تحت نگران اتنا عرصہ اقتدار میں رہے ہیں۔

انہوں نے کیا کچھ فیصلے کیے ہیں۔ کیا اُن کے پاس اس سب کا اختیار تھا۔

سینیٹر عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ نگران حکومت میں کون لوگ تھے کہاں سے آئے ہمیں معلوم نہیں ہے تاہم وہ 14 14 ماہ حکومتیں ضرور چلاتے رہے۔

سینیئر لیگی رہنما کے مطابق پیپلز پارٹی بھی نگران حکومت کے تصور کو ختم کرنے کے متفق ہے وہ موجودہ دورے حکومت میں اس تصور کے خاتمے کے لیے کردار ادا کریں گے۔

پارٹی کے اندر ایسا کوئی فیصلہ نہیں ہوا: فیصل کریم کنڈیپاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری اطلاعات اور سینیئر رہنما فیصل کریم کنڈی کہتے ہیں کہ نگران حکومت کے خاتمے کے لیے آئین میں ترمیم کا ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔

اردو نیوز سے گفتگو میں فیصل کریم کنڈی نے بتایا کہ ’یہ پاکستان مسلم لیگ ن کی تجویز اور ہماری پارٹی کے اندر کسی کی ذاتی رائے ہو سکتی ہے تاہم ابھی پارٹی سطح پر ایسا فیصلہ نہیں کیا گیا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت میں نگران حکومت کے تصور کو ختم کرنے کے ن لیگ کا ساتھ دیں گے یا نہیں اس کا فیصلہ پارٹی نے مشاورت سے کرنا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ’نگران حکومت کا کردار ختم کرنے سے قبل ہمیں الیکشن کمیشن کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر الیکشن کمیشن مضبوط ہو گا تو نگران حکومت کی ضرورت نہیں رہے گی۔‘

فیصل کریم کنڈی کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی مضبوط غیر جانبدار الیکشن کمیشن پر یقین رکھتی ہے۔ ’ہمیں الیکشن کی شفافیت کے لیے قانون سازی کرنی پڑی تو ن لیگ کے ساتھ مل کریں گے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ انتخابات کے شفاف انعقاد کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے تو ہی ساری سیاسی جماعتوں کے خدشات دور ہو سکیں گے۔

سینیئر قانون دان اور پارلیمنٹیرین سینیٹر کامران مرتضیٰ کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کو نگران حکومت کے تصور کو ختم کرنے کے لیے پارلیمان میں عددی اکثریت حاصل ہے۔

اردو نیوز سے گفتگو میں کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ نگران حکومت کے تصور کے خاتمے کے لیے آئین میں ترمیم لانے کی ضرورت ہو گی۔

’آئین کی شق 224 جو کہ نگران حکومت کے تصور پر بات کرتی ہے اُس میں ترمیم کے ذریعے ہی نگران حکومت کے سیٹ اپ کو ختم یا اصلاحات لائی جا سکتی ہیں۔‘

سینیئر قانون دان کامران مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ ’اتحادی جماعتیں اگر چاہیں تو آئین میں ترمیم کر سکتی ہیں۔تاہم انہیں سب سے پہلے اپنے اندر متفقہ رائے پیدا کرنا ہو گی جس کے بعد ہی ایسی ترامیم ممکن ہوں گی۔‘

کامران مرتضیٰ نے مزید کہا کہ وہ ذاتی طور پر بھی نگران حکومت کے تصور پر یقین نہیں رکھتے۔ نگران سیٹ اپ سے جمہوریت کو ہی نقصان پہنچا ہے۔

انہوں نے بھی حالیہ نگران حکومتوں کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ آئینی مدت سے تجاوز کر کے اور فیصلہ سازی میں بھی شامل ہو کر نگران حکومتوں نے اپنی وقعت کم کی ہے۔


News Source   News Source Text

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US