غزہ جنگ بندی کا مجوزہ منصوبہ: ’اگر نتن یاہو نے اس پر عمل کیا تو مستعفی ہو جائیں گے‘، اسرائیلی وزرا کی دھمکی

امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی جانب سے پیش کردہ مجوزہ منصوبے کے اعلان کے بعد دو اسرائیلی وزرا نے دھمکی دی ہے کہ اگر وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے اس منصوبے پر عمل کیا تو وہ مستعفی ہو جائیں گے اور حکومتی اتحاد توڑ دیں گے۔‘

امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی جانب سے پیش کردہ مجوزہ منصوبے کے اعلان کے بعد دو اسرائیلی وزرا نے دھمکی دی ہے کہ اگر وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے اس منصوبے پر عمل کیا تو وہ مستعفی ہو جائیں گے اور حکومتی اتحاد توڑ دیں گے۔

وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ اور قومی سلامتی کے وزیر اتامار بین گویر کا کہنا ہے کہ وہ حماس کی تباہی سے قبل کسی بھی قسم کے معاہدے کے خلاف ہیں۔

دوسری جانب، اپوزیشن لیڈر یائر لاپید نے اعلان کیا ہے کہ اگر نتن یاہو اس منصوبے کی حمایت کرتے ہیں تو وہ حکومت کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں۔

اس سے قبل ماضی میں اسرائیلی وزیراعظم خود کہہ چکے ہیں کہ جب تک حماس کی عسکری اور حکومتی صلاحیتوں کو ختم نہیں کر دیا جاتا اور تمام یرغمالی رہا نہیں ہو جاتے تب تک مستقل جنگ بندی کا امکان نہیں۔

صدر بائیڈن کی جانب سے پیش کی جانے والی تجویز تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلے میں چھ ہفتے کی جنگ بندی ہو گی۔ اس دوران اسرائیلی فوج غزہ کے آبادی والے علاقوں سے نکل جائے گی۔ ان کے مطابق، بالآخر یہ معاہدہ تمام یرغمالیوں کی رہائی، مستقل ’دشمنی کے خاتمے‘ اور غزہ کی تعمیر نو کے ایک بڑے منصوبے کا باعث بنے گا۔

لیکن سنیچر کے روز سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں، سموٹریچ کا کہنا تھا کہ انھوں نے وزیر اعظم نتن یاہو کو بتا دیا ہے کہ وہ کسی ’ایسی حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے جو اس مجوزہ منصوبے سے اتفاق کرے اور حماس کی تباہی اور تمام یرغمالیوں کی واپسی کے بغیر جنگ ختم کر دے۔‘

بین گویر بھی ان سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’[اس] معاہدے کا مطلب ہے جنگ کا خاتمہ اور حماس کو تباہ کرنے کے مقصد کو ترک کر دینا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا یہ ایک نامناسب معاہدہ ہے جو اسرائیلی ریاست کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور اس سے دہشت گردی کی جیت ہو گی۔

israel
Getty Images

بین گویر کا کہنا تھا کہ وہ اس تجویز سے اتفاق کرنے کے بجائے ’حکومت تحلیل‘ کرنے کو ترجیح دیں گے۔

نتن یاہو کی حکومت کو پارلیمنٹ میں معمولی اکثریت حاصل ہے اور اسے قائم رکھنے کے لیے انھیں متعدد اتحادیوں کی حمایت درکار ہے۔ بین گویر کی جماعت کے پاس چھ نشستیں ہیں جبکہ سموٹریچ کی جماعت کے پاس سات سیٹیں ہیں۔

دوسری جانب اسرائیل کے سب سے بااثر اپوزیشن سیاست دانوں میں سے ایک یائر لاپید نے تنازع میں گھرے وزیر اعظم کو اپنی حمایت کی پیشکش کی ہے۔ ان کی جماعت کے پاس 24 سیٹیں ہیں۔

ان کا کہنا ہےنے کہا کہ اگر بین گویر اور سموٹریچ حکومت سے الگ ہوتے ہیں تو یرغمالیوں کی واپسی کے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے وہ نتن یاہو کی حمایت کے لیے تیار ہیں۔

یہ تنازع ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب تل ابیب میں ہزاروں افراد نے ریلی نکالی ہے اور اسرائیلی حکومت سے امریکی صدر کے مجوزہ منصوبے کو قبول کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

مظاہرین نے اسرائیلی وزیراعظم کے استعفیٰ کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ ریلی کے دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئی ہیں اور کچھ مظاہرین کو حراست میں لیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔

سنیچر کے روز مصر، قطر اور امریکہ کے ثالثوں نے ایک مشترکہ بیان میں اسرائیل اور حماس پر زور دیا ہے کہ وہ بائیڈن کے مجوزہ معاہدے کو ’حتمی شکل‘ دیں۔

برطانوی وزیر اعظم رشی سونک نے بھی اس منصوبے کی حمایت کی ہے۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر حماس جنگ بندی کے منصوبے کو قبول کرتا ہے تو ان کی حکومت غزہ کے لیے مزید امداد فراہم کر سکتی ہے۔

غزہ کی تعمیر نو، اسرائیل حماس امن معاہدہ
Getty Images
امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ نیا معاہدہ غزہ کی تعمیر نو کے ایک بڑے منصوبے کی بنیاد بنے گا

غزہ جنگ کے خاتمے کا مجوزہ منصوبہ کیا ہے؟

اس سے قبل جمعے کو امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی جانب سے پیش کردہ مجوزہ منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’وقت آ گیا ہے کہ یہ جنگ ختم ہو۔‘

انھوں نے حماس پر زور دیا تھا کہ وہ غزہ تنازع کے خاتمے کے لیے اسرائیل کی نئی تجویز قبول کر لے۔

نیا مجوزہ منصوبہ تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلے میں چھ ہفتے کی جنگ بندی کا اعلان کیا جائے گا۔ اس دوران اسرائیلی فوج غزہ کے آبادی والے علاقوں سے نکل جائے گی جبکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھیجی جانے والی امداد میں ’اضافہ‘ کیا جائے گا اور فلسطینی قیدیوں اور کچھ اسرائیلی یرغمالیوں کا تبادلہ بھی ہو گا۔

صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ بالآخر مستقل ’دشمنی کے خاتمے‘ اور غزہ کی تعمیر نو کے ایک بڑے منصوبے کی بنیاد بنے گا۔

حماس کا کہنا ہے کہ وہ اس تجویز کو مثبت انداز میں دیکھ رہا ہے۔

جمعے کو وائٹ ہاؤس میں بات کرتے ہوئے امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں ’مکمل جنگ بندی‘، آبادی والے علاقوں سے اسرائیلی فورسز کا انخلا اور فلسطینی قیدیوں کے بدلے اسرائیلی یرغمالیوں کا تبادلہ شامل ہے۔

امریکی صدر کا کہنا تھا کہ یہ ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ ’حماس کہتا ہے کہ وہ جنگ بندی چاہتا ہے۔ یہ معاہدہ ان کے لیے یہ ثابت کرنے کا موقع ہے کہ وہ حقیقتاً یہی چاہتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس جنگ بندی کے نتیجے میں محصور علاقوں تک پہنچنے والی امداد میں اضافہ ممکن ہو گا اور روزانہ کی بنیاد پر 600 امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہو پائیں گے۔

مجوزہ منصوبے کے دوسرے مرحلے میں فوجیوں سمیت تمام اسرائیلی یرغمالیوں کو چھوڑا جائے گا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد یہ جنگ بندی ’مستقل طور پر دشمنی کے خاتمے‘ کی بنیاد بنے گی۔

برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون ان افراد میں شامل ہیں جنھوں نے حماس کو یہ تجویز ماننے کا مشورہ دیا ہے۔انھوں نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا ہے کہ حماس کو ’اس معاہدے کو قبول کرنا چاہیے تاکہ ہم لڑائی کو روک سکیں۔‘

لارڈ کیمرون کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم بہت عرصے سے یہ کہتے آئے ہیں کہ اگر ہم سب صحیح اقدم اٹھانے کے لیے تیار ہوں تو اس تنازع کو مستقل امن میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔‘

’آئیے اس موقعے سے فائدہ اٹھائیں اور اس تنازع کو ختم کریں۔‘

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی تائید

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے بھی اس پیشرفت کا خیرمقدم کیا ہے۔ ایکس پر جاری اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا کہ دنیا ’غزہ میں بہت زیادہ مصائب اور تباہی دیکھ چکی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ یہ ختم ہو۔

’میں (صدر) بائیڈن کے اقدام کا خیرمقدم کرتا ہوں اور تمام فریقین سے کہتا ہوں کہ وہ جنگ بندی، تمام یرغمالیوں کی رہائی، بلا روک ٹوک انسانی امداد کی رسائی اور بالآخر مشرق وسطیٰ میں ایک پائیدار امن کے لیے اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔‘

صدر بائیڈن نے تسلیم کیا ہے کہ پہلے اور دوسرے مرحلے کے درمیان کے مذاکرات آسان نہیں ہوں گے۔

امریکی صدر کی جانب سے جنگ کے خاتمے کی تجویز اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ حال ہی میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کا بیان سامنے آیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے کے تحت جنگ کے خاتمے کے حق میں نہیں ہیں۔

اس منصوبے میں بہت سی ایسی تفصیلات بھی شامل ہیں جو اس سے پہلے ناکام ہو جانے والے مذاکرات میں بھی شامل تھیں۔ تاہم لگتا ایسا ہے کہ امریکہ کی جانب سے مستقل جنگ بندی کے مطالبے کا مقصد حماس کو ان شرائط پر مذاکرات کی طرف واپس لانا ہے جن پر وہ پہلے ہی رضامندی ظاہر کر چکا ہے۔ مستقل جنگ بندی حماس کے دیرینہ مطالبات میں سے ایک ہے۔

تجویز کے تیسرے مرحلے میں کسی بھی مقتول اسرائیلی یرغمالی کی باقیات کی واپسی کے ساتھ ساتھ غزہ میں گھروں، سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیر نو کا ایک ’بڑا منصوبہ‘ شامل ہے۔

امریکی صدر جو بائیڈن
Getty Images
امریکی صدر جو بائیڈن نے تسلیم کیا کہ اسرائیلی حکومت میں موجود کچھ حکام سمیت کچھ اسرائیلی ممکنہ طور پر اس مجوزہ معاہدے کے خلاف ہوں گے

’ہم یہ لمحہ نہیں کھو سکتے‘

اپنے بیان میں صدر بائیڈن نے تسلیم کیا کہ اسرائیلی حکومت میں موجود کچھ حکام سمیت کچھ اسرائیلی ممکنہ طور پر اس مجوزہ معاہدے کے خلاف ہوں گے۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے اسرائیلی رہنماؤں کو اس معاہدے کی تائید کرنے کا کہا ہے چاہے انھیں کسی بھی قسم کے (سیاسی) دباؤ کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے۔‘

امریکی صدر نے اسرائیلی عوام سے براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’ہم یہ لمحہ نہیں کھو سکتے۔‘

اس دوران صدر بائیڈن کی جانب سے ایک اور اہم بات یہ بھی کی گئی کہ حماس کی صلاحیت کو اس حد تک نقصان پہنچایا جا چکا ہے کہ اب اس کے جنگجو دوبارہ سات اکتوبر کے طرز کا حملہ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ ممکنہ طور پر اسرائیل کے لیے پیغام ہے کہ واشنگٹن کے مطابق یہ جنگ اب ختم ہو چکی ہے۔

صدر بائیڈن کی اس تقریر کے بعد اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نتن یاہو نے ایک بار پھر زور دیا کہ یہ جنگ تب تک ختم نہیں ہو گی جب تک اس کے مقاصد پورے نہیں ہو جاتے جن میں تمام یرغمالیوں کی واپسی اور حماس کی عسکری اور گورننگ صلاحیت کا خاتمہ شامل ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ تازہ ترین منصوبہ اسرائیل کو ان اصولوں پر قائم رہنے میں مدد کرے گا۔

دوسری جانب حماس کا کہنا ہے کہ وہ اس مجوزہ معاہدے کو ’مثبت‘ انداز میں دیکھتا ہے کہ کیونکہ اس میں مستقل جنگ بندی، اسرائیلی فوجوں کے غزہ سے انخلا، تعمیر نو اور قیدیوں کے تبادلے کی بات کی گئی ہے۔

حماس کا مزید کہنا تھا کہ وہ کسی بھی ایسے معاہدے پر ’مثبت اور تعمیری‘ انداز میں ردِ عمل دیں گے جس میں مستقل جنگ بندی کی بات کی جائے، بشرطیکہ اسرائیل ’اس کا اعلان واضح الفاظ میں کرے۔‘

ایک اور فلسطینی رہنما جو مذاکرات سے متعلق جانتے ہیں اور انھوں نے نئے مجوزہ اسرائیلی معاہدے کا مسودہ دیکھا ہے نے کہا کہ اس معاہدےمیں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں دی گئی کہ جنگ ختم ہو جائے گی نہ ہی اسرائیلی فوج کے غزہ سے مکمل انخلا کے بارے میں کوئی بات کی گئی ہے۔

یہ مجوزہ منصوبہ حماس کو قطر میں موجود مذاکراتی ٹیم کی جانب سے بھیجا گیا ہے۔

غزہ میں عام شہریوں کی بڑھتی اموات کے باعث صدر بائیڈن کو امریکہ کی اسرائیل کو دی جانے والی امداد کے حوالے سے ملک میں خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے اور مذاکرات پر زور دینے کی بات کی جاتی رہی ہے۔

رواں ہفتے کے آغاز میں وائٹ ہاؤس نے کہا تھا کہ اس کے نزدیک رفح میں اسرائیلی آپریشن ایک ’بڑا گراؤنڈ آپریشن‘ نہیں ہے جو ریڈ لائن کو کراس کرے اور امریکی پالیسی میں تبدیلی لائے۔

یہ بیان اسرائیل کے رفح کے ایک پناہ گزین پر کیے گئے فضائی حملے اور اس کے نتیجے میں لگنے والی آگ کے باعث اتوار کو 45 فلسطینیوں کی ہلاکت کے بعد سامنے آیا تھا۔

جمعے کو ایک علیحدہ اعلان میں امریکی اعوان نمائندگان کے حکومتی اور اپوزیشن رہنماؤں کی جانب سے وزیرِ اعظم نتن یاہو کو واشنگٹن میں کانگریس سے خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔

یہ واضح نہیں ہے کہ ایسا کوئی بھی خطاب کب ہو گا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts