انڈیا میں کام کرنے والی 80 فیصد سے زیادہ خواتین غیر رسمی معیشت میں ملازمت کرتی ہیں جس میں زراعت کے بعد گھروں سے کیا جانے والا کام سب سے بڑا شعبہ ہے۔ اس کے باوجود کوئی قانون سازی یا پالیسی ان خواتین کی مدد نہیں کرتی۔

انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی سے متصل ایک کچی آبادی میں رہنے والی غریب پناہ گزین خاتون سیدہ کی زندگی محنت اور مسلسل محنت سے عبارت ہے۔
انھوں نے اپنی زندگی کے 30 برس میں 50 سے زیادہ ملازمتیں کی جن میں جینز کے دھاگے تراشنے سے کھانا پکانے، بادام چھیلنے، چائے کی چھلینیاں بنانے، فوٹو فریم اور کھلونا بندوقوں اور سکول کے بستوں کی تیاری جیسے کام شامل تھے۔
سخت محنت کے باوجود انھیں ان کاموں کی بہت کم اجرت ملی جیسے ایک ہزار کھلونا بندوقیں جوڑنے پر انھیں صرف 25 روپے ملتے تھے۔
صحافی نیہا ڈکشٹ کی نئی کتاب ’دی مینی لائیوز آف سیدہ ایکس‘ کی مرکزی کردار سیدہ 1990 کی دہائی کے وسط میں پڑوسی ریاست اتر پردیش میں مذہبی فسادات کے بعد اپنے اہلخانہ کے ساتھ دہلی منتقل ہوئی تھیں۔
900 سے زیادہ انٹرویوز کے ساتھ 10 برس کی محنت کے بعد شائع ہونے والی اس کتاب میں ایک انڈین گھریلو ملازمہ کی غیر یقینی زندگی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔
نیہا ڈکشٹ کی کتاب انڈیا میں نظر انداز کی جانے والی گھر پر رہ کر کام کرنے والی محنت کش خواتین کی پوشیدہ زندگیوں پر روشنی ڈالتی ہے۔
2007 میں سرکاری طور پر مزدوروں کی ایک الگ قسم کے طور پر تسلیم کیے جانے کے بعد انڈیا نے گھر پر رہ کر کام کرنے والوں کی تعریف ایسے فرد کے طور پر کی ہے جو اپنے گھر کے لیے سامان یا خدمات تیار کرتا ہے قطع نظر اس سے کہ آجر انھیں خود آلات یا سامان فراہم کرتا ہے یا نہیں۔
انڈیا میں کام کرنے والی 80 فیصد سے زیادہ خواتین غیر رسمی معیشت میں ملازمت کرتی ہیں جس میں زراعت کے بعد گھروں سے کیا جانے والا کام سب سے بڑا شعبہ ہے۔ اس کے باوجود کوئی قانون سازی یا پالیسی ان خواتین کی مدد نہیں کرتی۔
غیر رسمی روزگار میں خواتین کی مدد کرنے والی تنظیم ویگو کا اندازہ ہے کہ 18-2017 تک انڈیامیں گھر پر کام کرنے والے چار کروڑ دس لاکھ کارکنوں میں سے تقریباً ایک کروڑ 70 لاکھ خواتین تھیں۔ یہ خواتین کل با روزگار افراد کا تقریباً نو فیصد تھیں۔
شہروں میں ان کی تعداد انڈیا کے دیہی علاقوں کے مقابلے میں تیزی سے بڑھی ہے۔
مؤرخ اندرانی مجومدار جنھوں نے اس موضوع پر بڑے پیمانے پر کام کیا، کہتی ہیں ’ایسا لگتا ہے کہ گھروں میں کام کرنے والے مزدوروں کا مرکز شہری علاقوں کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔‘

سماجی تحفظ سے محروم یہ خواتین غربت، غیر یقینی صورتحال اور شریک حیات کے ساتھ مسلسل جنگ لڑ رہی ہیں۔
اکثر خاندان کی کفیل کی حیثیت سے وہ اپنے بچوں کو غربت سے نکالنے کے لیے ہر ممکن حد تک پیسہ کمانے کی کوشش کرتی ہیں۔
ان خواتین کو ماحولیاتی تبدیلی کا بھی خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے، ذریعہ معاش کھونا پڑتا ہے اور ان کے مسلسل نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مون سون کا پانی ان کے گھروں میں جمع ہونے سے سامان تیار کرنے کے لیے موجود ان کا خام مال ضائع ہو جاتا ہے۔
ماہر اقتصادیات سونا مترا کہتی ہیں کہ انڈیا میں مینوفیکچرنگ کے شعبے میں کام کرنے والی تقریباً 75 فیصد خواتین گھر پر کام کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’ان عورتوں کو سیلف ایمپلائڈ کے طور پر درج کیا گیا، اور بڑی تعداد میں یہ خواتین رجسٹرڈ بھی نہیں۔‘
نیہا ڈکشٹ کی کتاب میں سیدہ بی بی اور گھر میں کام کرنے والی دیگر خواتین اسی بے بسی اور استحصال کی مثال ہیں۔
کوئی نہیں جانتا کہ ان کے لیے اتنی کم اجرت کون طے کرتا ہے۔ انھیں کوئی بھی تربیت یا اوزار فراہم نہیں کرتا اور یہ عورتیں ہنر سیکھنے کے لیے صرف ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں۔
نیہا ڈکشٹ لکھتی ہیں کہ اکثر ان خواتین کو ملنے والا کام ایسے واقعات کا ردعمل ہوتا جو خبروں کی زینت بنتے ہیں۔
سنہ 1997 میں جب کلپنا چاولہ خلا میں جانے والی پہلی انڈین نژاد خاتون بنیں تو ان ہنرمند خواتین نے سفید سوٹ ہاتھ سے سی کر پلاسٹک کی گڑیوں کو پہنائے۔ 1999 کے ورلڈ کپ کے دوران انھوں نے سینکڑوں سستے فٹبال سلائی کیے۔
سنہ 2001 میں دلی میں ایک ’منکی مین‘ کی جانب سے لوگوں پر حملہ کرنے کی افواہ وائرل ہونے کے بعد ٹریفک کراسنگ پر بندروں کی شکل کے نقابوں کی مانگ میں اضافہ ہوا تو ایسی ہی خواتین کام آئیں۔
انتخابات کے دوران انھوں نے سیاسی جماعتوں کے لیے جھنڈے، چابیاں اور ٹوپیاں بنائیں۔ جب سکول دوبارہ شروع ہوئے تو انھوں نے سکول بیگ اور کتابیں پیک کیں۔
یہ بھی پڑھیے

بہت سی خواتین کو مہینے میں 20 دن سے زیادہ کا کام حاصل کرنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔
نیہا ڈکشت لکھتی ہیں کہ صرف ان خواتین کو آسانی سے کام مل جاتا ہے جو نہ تو اجرت پر بحث کرتی ہیں، نہ بہت زیادہ سوالات پوچھتی ہیں، اپنے اوزار خود خریدتی ہیں، وقت پر ڈیلیوری دیتی ہیں، مشکل وقت کے دوران بھی ایڈوانس یا مدد نہیں مانگتیں اور انھیں تاخیر سے اجرت ملنے پر بھی مسئلہ نہیں ہوتا۔
اندرانی مجومدار کے مطابق کام کی نوعیت میں تبدیلی کی وجہ سے گھریلو خواتین کے روزگار کو درپیش مسائل میں اضافہ ہوا۔
سنہ 1990 کی دہائی تک ریڈی میڈ گارمنٹس کی صنعت بہت سے کام گھریلو کارکنوں کو آؤٹ سورس کرتی تھی۔ یہ صورتحال اس وقت بدل گئی جب کارخانوں میں کام شروع ہوا اور خاص طور پر کڑھائی کے لیے مشینوں نے انسانوں کی جگہ لے لی۔
وہ کہتی ہیں کہ ’گھروں پر کیا جانے والا کامبہت غیر مستحکم ہو گیا۔‘
سنہ 2019 میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن نے 118 ممالک میں کیے گئے گھریلو سروے سے اندازہ لگایا کہ دنیا بھر میں تقریباً 26 کروڑ گھر پر کام کرنے والے کارکن ہیں جن کا عالمی روزگار میں حصہ 7.9 فیصد ہے۔
برازیل اور جنوبی افریقہ میں تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ کام کے حالات کی نگرانی اور ذیلی معاہدے یا گھر سے کیے جانے والے کام میں مزدوروں کے حقوق کا تحفظ اس وقت ممکن ہے جب مقامی حکومتیں اور ٹریڈ یونین مؤثر طریقے سے تعاون کریں۔

انڈیا میں ایسی مثالیں چند ہی ہیں۔ 52 برس پہلے بننے والی سیلف ایمپلائیڈ ویمن ایسوسی ایشن اس بے قاعدہ معیشت میں غریب اوراپنا کاروبار کرنے والی خواتین کو جمع کرتی ہے۔
سال 2009 میں باداموں کے چھلکے اتارنے اور ان کی صفائی کا کام کرنے والی دلی کی خواتین نے ہڑتال کی۔ وہ دیگر مطالبات کے ساتھ بہتر تنخواہ اور اوور ٹائم کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ انھیں 23 کلوگرام وزنی تھیلے کو صاف کرنے کے لیے 50 روپے مل رہے تھے جبکہ اس کام میں 12 سے 16 گھنٹے لگتے تھے۔
اس ہڑتال نے باداموں کی پروسیسنگ کی صنعت کو کاروبار کے عروج کے وقت مفلوج کر دیا۔
ریاست تمل ناڈو میں ماہر سماجیات کے کلپنا کے ایک مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح چنئی میں ہنرمند خواتین نے اپنے حقوق کا کامیابی سے دفاع کیا لیکن سیدہ بی بی اور ان کے ساتھ کام کرنے والی خواتین اتنی خوش قسمت نہیں تھیں۔
نیہا ڈکشٹ لکھتی ہیں کہ ’اگر وہ کبھی کسی بیماری کا علاج کرنے یا اپنے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے وقت نکالتی ہیں تو ان کی نوکری کسی اور کے پاس چلی جائے گی جو ان کی جگہ لینے کی کوشش کر رہا ہو گا۔‘
نوکریاں اور گھر بدلتے بدلتے ان کی زندگی میں بس ایک ہی چیز مستقل ہے اور وہ ہے نقل مکانی اور مشکلات۔