بنگلہ دیش: حسینہ واجد کا استعفیٰ اور آرمی چیف کی پریس کانفرنس، بات یہاں تک کیسے پہنچی؟

بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے گذشتہ ایک ماہ سے جاری پرتشدد احتجاج کے بعد پیر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور وہ ملک چھوڑ کرانڈیا چلی گئی ہیں۔
sheikh hasina
Getty Images
فائل فوٹو

بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے گذشتہ ایک ماہ سے جاری پرتشدد احتجاج کے بعد پیر کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور وہ ملک چھوڑ کرانڈیا چلی گئی ہیں۔

جولائی میں سرکاری نوکریوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہونے والی طلبہ کی تحریک میں اب تک مجموعی طور پر 300 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ملک بھر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے۔

شیخ حسینہ کے استعفے کے بعد ملک کی فوج کے سربراہ نے قوم سے خطاب میں کہا ہے کہ ملک میں عبوری حکومت قائم کی جائے گی جس کے لیے بات چیت جاری ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’ہمارے ساتھ تعاون کریں، ہم ساتھ مل کر ایک بہتر مستقبل کی سنگِ بنیاد رکھیں گے۔‘

خیال رہے کہ گذشتہ روز شیخ حسینہ واجد نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ اجلاس کے بعد بیان دیا تھا کہ ’مظاہرین طلبہ نہیں، بلکہ دہشت گرد ہیں جو ملک کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

بنگلہ دیش میں پرتشدد مظاہروں کے بعد معاملہ شیخ حسینہ واجد کے استعفے تک کیسے پہنچا؟ آئیے آپ کو بتاتے ہیں۔

tanks
Getty Images

اتوار کو پرتشدد مظاہرے ہلاکت خیز کیسے بنے؟

اتوار کی صورت حال پر ایک پولیس افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ پورا شہر ’میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا ہے۔‘ وہ دارالحکومت ڈھاکہ کی بات کر رہے تھے جہاں ان کے مطابق کئی ہزار مظاہرین کے ہجوم نے ایک ہسپتال کے باہر گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو بھی آگ لگا دی۔

اتوار کو مقامی وقت کے مطابق شام چھ بجے سے کرفیو کا اعلان کیا گیا۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق کرفیو غیر معینہ مدت تک نافذ رہے گا۔

اس سے قبل سنیچر کے روز طلبہ تحریک کے رہنماؤں میں شامل ناہید اسلام نے ڈھاکہ میں ہزاروں کے اجتماع میں خطاب کے دوران کہا کہ ’شیخ حسینہ کو صرف استعفیٰ ہی نہیں دینا چاہیے بلکہ ان پر قتل و غارت، لوٹ مار اور بدعنوانی کا مقدمہ ہونا چاہیے۔‘

دارالحکومت ڈھاکہ میں موبائل فونز پر انٹرنیٹ کی سہولت معطل کر دی گئی تھی جو اب دوبارہ بحال کر دی گئی ہے۔ انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرنے والی بعض کمپنیوں نے مقامی میڈیا کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے احکامات موصول ہونے پر انھوں نے سروسز معطل کی تھیں۔

بنگلہ دیش میں مظاہرین نے اتوار سے شروع ہونے والی ملک گیر سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کر دیا اور شہریوں پر زور دیا کہ وہ ٹیکس یا کوئی بل ادا نہ کریں۔ طلبہ کی جانب سے تمام فیکٹریوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو بند کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

ملک کی موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر سابق آرمی چیفس اور آرمی افسران نے ملک کی مسلح افواج سے عام طلبہ کے ہجوم کا سامنا نہ کرنے کی اپیل کی ہے۔

سابق فوجی افسران نے اتوار کی سہ پہر ڈھاکہ میں ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کیا جس کا مقصد ملک کی موجودہ صورتحال میں بحران کو حل کرنے کے حوالے سے تجاویز دینا تھا۔ ایک تحریری بیان میں سابق آرمی چیف اقبال کریم نے کہا کہ ’فوری طور پر مسلح افواج کو واپس آرمی کیمپ میں لانا اور انھیں کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ضروری ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس بحران کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کے لیے پہل کریں۔ محب وطن مسلح افواج کو طلبہ کے ہجوم کا سامنا نہیں کرنا چاہیے۔‘

Protest
Getty Images

حسینہ واجد کے استعفے کے بعد آرمی چیف نے قوم سے خطاب میں کیا کہا؟

بنگلہ دیشی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے استعفے کے بعد ملک کی فوج کے سربراہ وقار الزماں نے کہا ہے کہ ملک میں ایک عبوری حکومت قائم کی جائے گی۔

پیر کو ایک خطاب کے دوران بنگلہ دیشی فوج کے سربراہ وقار الزماں کا کہنا تھا کہ وزیرِ اعظم نے استعفیٰ دے یا ہے۔ ہم ایک عبوری حکومت بنائیں گے، صبر کا مظاہرہ کریں۔‘

انھوں نے احتجاجی مظاہرین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ: ’ہمارے ساتھ تعاون کریں، ہم ساتھ مل کر ایک بہتر مستقبل کی سنگِ بنیاد رکھیں گے۔‘

شیخ حسینہ عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے پڑوسی ملک انڈیا پہنچ چکی ہیں۔

بنگلہ دیش میں ہفتوں سے جاری پُرتشدد مظاہروں میں اب تک 300 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ فوج کے سربراہ وقار الزمان نے احتجاجی مظاہرین کو یقینی دہانی کروائی ہے کہ ہر قتل کی تحقیقات کروائیں گے۔

انھوں نے کہا کہ ’میں تمام سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے بات چیت کر چکا ہوں، میں نے سول سوسائٹی کے اراکین سے بات کی ہے۔ فوج ملک میں امن و امان برقرار رکھے گی۔‘

banglaesh
Getty Images

حکومت مخالف مظاہرے شروع کیسے ہوا؟

بنگلہ دیش میں سرکاری نوکری کو اچھی تنخواہ کی وجہ سے کافی اہمیت دی جاتی ہے تاہم تقریبا نصف نوکریاں، جن کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے، مخصوص گروہوں کے لیے مختص ہیں۔

5جون 2024 کو بنگلہ ہائی کورٹ نے سنہ 2018 میں ختم کیا گیا کوٹہ سسٹم بحال کر دیا۔ عدالتی فیصلہ کے بعد طلبہ کے احتجاج پُرتشدد ہنگاموں میں تبدیل ہو گیا۔

سرکاری نوکریوں کا ایک تہائی حصہ ان افراد کے اہلخانہ کے لیے مخصوص ہے جنھیں بنگلہ دیش میں ’آزادی کی جنگ کا ہیرو‘ مانا جاتا ہے تاہم طلبہ کا کہنا ہے کہ یہ نظام متعصبانہ ہے اور سرکاری نوکری صرف میرٹ کی بنیاد پر ہی ملنی چاہیے۔

احتجاج میں شریک طلبہ رہنماؤں کا کہنا تھا کہ انھیں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے اس بیان نے طیش دلایا جس میں ان طلبا کے مطابق وزیر اعظم نے کوٹہ نظام کے خلاف احتجاج کرنے والوں کو 1971 کی جنگ میں پاکستان کی مدد کرنے والے ’رضاکاروں‘ سے تشبیہ دی۔

بنگلہ دیش میں یہ اصطلاح ان لوگوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے جنھوں نے مبینہ طور پر 1971 کی جنگ میں پاکستان کی فوج کا ساتھ دیا تھا۔

ایسے میں ملک کے دارالحکومت ڈھاکہ سمیت کئی شہروں میں احتجاجی مظاہروں کے دوران اس نظام کے مخالفین اور برسراقتدار عوامی لیگ کے طلبہ کے درمیان جھڑپیں ہوئیں جن کے دوران لاٹھیوں اور اینٹوں کا استعمال ہوا، پولیس کی جانب سے آنسو گیس برسائی گئی اور ربڑ کی گولیاں چلائی گئیں جس کی وجہ سے سینکڑوں افراد زخمی ہوئے۔

مظاہرین نے حکومت کو نو نکاتی مطالبات کی فہرست دی اور پھر عدلیہ کی مداخلت سے بظاہر انتظامیہ نے یہ مطالبات تسلیم بھی کر لیے مگر پھر بھی احتجاج اور مظاہروں کا یہ سلسلہ رک نہ سکا۔

طلبہ کا احتجاج اور نو نکاتی مطالبات کیا تھے؟

احتجاج کرنے والے طلبہ نے حکومت کو نو مطالبات کی فہرست دی، جس میں یہ مطالبہ کیا گیا کہ وزیراعظم فسادات کی ذمہ داری قبول کریں اور ہلاک طلبہ کے خاندانوں سے معافی مانگیں۔ وزیرداخلہ اور وزیر ٹرانسپورٹ وزارتوں سے مستعفی ہوں۔ جن مقامات پر لوگوں کو ہلاک کیا گیا وہاں پر تعینات پولیس اہلکاروں سے استعفیٰ لیا جائے۔ ڈھاکہ، جہانگیر نگر اور راج شاہی یونیورسٹیز کے وائس چانسلر استعفے دیں۔ طلبہ پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے اور زخمی اور مرنے والوں کو معاوضہ ادا کیا جائے

عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم ’بنگلہ چھاترو لیگ‘ پر پابندی لگائی جائے۔ تعلیمی ادارے، طلبہ ہوسٹل اور ہال کھولے جائیں۔ طلبہ کو انتقامی کارروائیاں نہ کرنے کی ضمانت دی جائے، تعلیمی سرگرمیاں معمول کے مطابق بحال کی جائیں۔

bangladesh
Getty Images

پرتشدد مظاہروں کے پہلے مرحلے اور گذشتہ دو ہفتوں کا دوران کیا ہوا؟

ڈھاکہ سے تعلق رکھنے والی وکیل رضوانہ مسلم نے بی بی سی کو بتایا کہ پہلے مرحلے پر طلبہ نے پرامن احتجاج کیا۔ ان کے مطابق ان طلبہ نے اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کی منصوبہ بندی کی تو پھر انھوں نے ایک منظم غیر سیاسی اتحاد بنایا مگر حکومت نے اسے ایک سیاسی چال سے تعبیر کیا۔

پرتشدد مظاہروں کے بعد سپریم کورٹ نے کوٹہ سسٹم میں تبدیلی کا حکم دیا ہے جس کے مطابق ’1971 کی جنگ میں لڑنے والے فوجیوں کے اہلِ خانہ کو ملازمتوں کا اب صرف پانچ فیصد حصہ ملے گا‘ تاہم مظاہرین نے مارے جانے والے طلبہ کو انصاف ملنے تک ملک گیر مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال جاری رکھنے کا اعلان کیا۔

رضوانہ مسلم نے بی بی سی کو بتایا کہ حکومت نے مطالبات تسلیم نہیں کیے اور اس کے بجائے احتجاج کرنے والوں کے خلاف ہی کارروائیاں شروع کر دیں اور یوں ہر روز چھاپوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا، جن میں متعدد لوگ مارے گئے اور زخمی ہوئے۔

ان کے مطابق اتوار کو صورتحال زیادہ اس وجہ سے خراب ہوئی کہ حکومتی جماعت عوامی لیگ نے اپنی طلبہ تنظیم ’بنگلہ دیش چھاترو لیگ‘ کو میدان میں اتارا اور پھر پرتشدد مظاہروں میں متعدد لوگ ہلاک ہو گئے۔

رضوانہ کے مطابق ’پہلے تو طلبہ کے نو مطالبات تھے مگر اس وقت عوام ایک ہی مطالبے پر باہر نکلے ہیں کہ اب وزیراعظم شیخ حسینہ واجد استعفیٰ دیں۔‘

ان کے مطابق اس وقت صرف ایک ہی جماعت ملک میں فعال ہے اور وہ حکومتی جماعت عوامی لیگ ہے۔ ان کے مطابق متعدد سیاسی رہنما پہلے ہی ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے ہیں۔

Dhaka
Getty Images

عدالتی فیصلے کے باوجود مطالبات تسلیم کیوں نہیں کیے گئے؟

ڈھاکہ میں مقیم صحافی ندیمہ جہان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب سے کوٹہ سسٹم کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو حکومت نے ان مظاہرین سے سختی سے نمٹنے کی پالیسی اختیار کی۔‘

ان کے مطابق جب بظاہر یہ مطالبات تسلیم کرنے کے بارے میں خبریں سامنے آئیں تو اس کے بعد بھی کوئی ایک دن ایسا نہیں گزرا جب حکومت اور سکیورٹی اہلکاروں نے احتجاج کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہ کی ہو۔

ندیمہ کے مطابق ’ہر روز ہلاکتوں کی خبروں اور گرفتاریوں کے سلسلے نے عوام کو سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا۔‘ ان کے مطابق اس وقت تک تقریباً 10 ہزار لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔

رضوانہ کے مطابق ’جب لوگوں نے دیکھا کہ گولیاں برس رہی ہیں اور وہ مر رہے ہیں تو وہ حکومت کے خلاف ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے یہ سوال کیا کہ یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں ہماری زندگی بھی محفوظ نہیں ہے۔‘

ان کے مطابق ’اب لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ مطالبات تسلیم ہوں یا نہ ہوں یہ بعد کی بات ہے مگر پہلے وزیراعظم کو گھر جانا ہوگا۔‘

protest
Getty Images

سول نافرمانی کی تحریک کیسے شروع ہوئی؟

انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بدعنوانی کے علاوہ گذشتہ 15 سالوں کے دوران ملک میں جمہوری سرگرمیوں کے لیے آزادی بھی کم ہو گئی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا یہ بھی کہنا ہے کہ گذشتہ 15 سالوں میں 80 سے زائد افراد جن میں سے اکثریت حکومتی ناقدین ہیں، لاپتہ ہو چکے ہیں اور ان کے اہل خانہ کو ان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں۔

رضوانہ کے مطابق ’بظاہر حکومت اس سارے معاملے کو سیاسی رنگ دینا چاہتی ہے اور یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ یہ طلبہ کے کوٹہ سسٹم سے زیادہ حکومت کے خلاف ایک سازش تھی۔‘

ان کے مطابق اس کے بعد جماعت اسلامی اور اس کے طلبہ ونگ کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ رضوانہ کے مطابق ’حکومت نے اس بات کو دل سے تسلیم ہی نہیں کیا کہ یہ سیاسی نہیں بلکہ طلبہ کے حقیقی مطالبات تھے۔‘

رضوانہ کے مطابق ’اس وقت بنگلہ دیش میں کوئی جماعت بھی اپوزیشن نہیں کر پا رہی ہے اور نہ کوئی سیاسی جماعت حکومت کے آگے کھڑی ہو سکتی ہے۔‘ رضوانہ کے مطابق اب صورتحال عوام بمقابلہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد ہے۔

protest
Reuters

رضوانہ کے مطابق حالات مزید کشیدگی کی طرف اس لیے گئے کیونکہ حکومت نے ایک پرامن احتجاج کو پرتشدد کارروائیوں سے ملک کے کونے کونے تک پھیلا دیا۔

وہ کہتی ہیں کہ حسینہ واجد بہت حد تک آمرانہ طرزِ حکومت کو اپنا رہی تھیں اور حکومت پر اختلاف رائے اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے لیکن حکومتی وزرا ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

رضوانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ملک میں انٹرنیٹ بند اور فون سروس بند رہے اور میڈیا پر پابندیاں ہیں۔‘

رضوانہ کے مطابق ایک ٹی وی چینل جو مظاہرین اور طلبہ کی کوریج کر رہا تھا، اتور کو اس کی نشریات بھی بند کر دی گئیں اور اس کے بعد وہ ٹی وی چینل صرف پرانی نشریات ہی بار بار چلاتا رہا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US