ملک میں ہفتوں پر محیط پُرتشدد مظاہروں کے بعد بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور ملک چھوڑ کر انڈیا چلی گئی ہیں۔
شیخ حسینہ سنہ 1947 میں مشرقی بنگال میں پیدا ہوئی تھیںملک میں ہفتوں پر محیط پُرتشدد مظاہروں کے بعد بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور ملک چھوڑ کر انڈیا چلی گئی ہیں۔
76 سالہ رہنما شیخ حسینہ واجد کا ہیلی کاپٹر انڈیا میں اُتر چکا ہے اور اس دوران ڈھاکہ میں ان کی سرکاری رہائش گاہ میں ہزاروں احتجاجی مظاہرین گُھس آئے ہیں۔
شیخ حسینہ نے تقریباً دو دہائیوں تک بنگلہ دیش پر حکومت کی اور وہ ملک میں سب سے طویل دورانیے کے لیے وزیراعظم رہنے والی سیاسی رہنما ہیں۔
شیخ حسینہ کو اکثر بنگلہ دیش کی معیشت کو ترقی دینے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے لیکن حالیہ برسوں میں ان پر آمرانہ طرز حکمرانی اختیار کرنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔
شیخ حسینہ کیسے طاقتور رہنما بنیں؟
شیخ حسینہ سنہ 1947 میں مشرقی بنگال میں پیدا ہوئی تھیں اور سیاست ان کے خون میں رچی بسی ہوئی تھی۔
وہ قوم پرست رہنما شیخ مجیب الرحمان کی صاحبزادی ہیں، جنھیں بنگلہ دیش کا ’بنگلہ بندھو‘ یعنی ’بابائے قوم‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ان کی قیادت میں ہی بنگلہ دیش پاکستان سے علیحدہ ہوا تھا اور وہ 1971 میں ملک کے پہلے صدر بنے تھے۔
اس وقت سے ہی شیخ حسینہ نے خود کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں ایک سٹوڈنٹ رہنما کے طور پر منوا لیا تھا۔
سنہ 1975 میں فوجی بغاوت کے نتیجے میں شیخ مجیب الرحمان اور ان کے خاندان کے متعدد اراکین کو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں صرف شیخ حسینہ اور ان کی چھوٹی بہن ہی بچ پائے تھے کیونکہ وہ اس وقت ملک میں نہیں تھیں۔
انھوں نے اس دوران انڈیا میں جلاوطنی کاٹی اور 1981 میں واپس بنگلہ دیش لوٹیں اور اپنے والد کی جماعت عوامی لیگ کی سربراہ مقرر ہو گئیں۔
انھوں نے جنرل حسین محمد ارشاد کی فوجی حکومت کے دوران دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر جمہوریت کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے کیے۔
اس تحریک نے شیخ حسینہ کو مقبولیت کی بلندی پر پہنچا دیا اور وہ ایک قومی رہنما بن کر اُبھریں۔
وہ 1996 میں پہلی مرتبہ ملک کی وزیراعظم بنیں۔ اس دوران انھوں نے انڈیا کے ساتھ پانی کی شیئرنگ کی ڈیل طے کی اور ملک کے جنوب مشرقی علاقوں میں لڑنے والے عسکریت پسندوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کیے۔
لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی حکومت پر نہ صرف کرپشن کے الزامات لگتے رہے بلکہ وہ انڈیا سے زیادہ قربت کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنتی رہیں۔
سنہ 2001 میں وہ اپنی سابق اتحادی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی رہنما بیگم خالدہ ضیا سے الیکشن میں شکست کھا گئیں اور انھیں وزیرِ اعظم کا منصب چھوڑنا پڑا۔
شیخ حسینہ نے تقریباًدو دہائیوں تک بنگلہ دیش پر حکومت کیبنگلہ دیش کی سیاست پر یہ دونوں خواتین تقریباً پچھلی تین دہائیوں سے چھائی رہیں اور انھیں ملک میں ’جنگجو بیگمات‘ کے نام سے پُکارا جانے لگا۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان دو رہنماؤں کی لڑائی کے سبب نہ صرف ملک میں بم دھماکے ہوئے، لوگ لاپتہ ہوئے اور لوگوں کا ماورائے عدالت قتل ہونا ملک میں معمول بن گیا۔
سنہ 2009 میں ایک عبوری حکومت نے ملک میں انتخابات کروائے اور شیخ حسینہ ایک بار پھر ملک کی وزیراعظم منتخب ہو گئیں۔
اپنے سیاسی سفر کے دوران بطور اپوزیشن رہنما شیخ حسینہ متعدد مرتبہ گرفتار ہوئیں اور ان پر حملے بھی ہوئے۔ سنہ 2004 میں ایک ایسے ہی حملے کے سبب ان کی قوتِ گویائی متاثر ہوئی تھی۔
کئی مرتبہ انھیں ملک بدر کرنے کی کوشش بھی کی گئی اور مبینہ کرپشن کے سبب ان پر عدالتی مقدمات بھی قائم کیے گئے۔
سیاسی کریئر میں انھوں نے کیا حاصل کیا؟
بنگلہ دیش کا شمار دنیا کے سب سے زیادہ غریب ممالک میں ہوتا تھا لیکن سنہ 2009 کے بعد شیخ حسینہ کی قیادت میں ملک کی معیشت میں بہتری آتی ہوئی نظر آئی۔
اب اس کا شمار خطے میں سب سے زیادہ تیزی سے آگے بڑھتی ہوئی معاشی طاقتوں میں ہوتا ہے، جس کی ترقی کی رفتار انڈیا سے بھی تیز ہے۔
ورلڈ بینک کے مطابق گذشتہ ایک دہائی میں تقریباً ڈھائی کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے باہر آئے ہیں۔
ملک میں سب سے زیادہ ترقی کپڑوں یعنی گارمنٹس کے شعبے میں نظر آئی اور بنگلہ دیش میں بنائے گئے کپڑے کو یورپ، شمالی امریکہ اور ایشیا تک رسائی ملی۔
ملک کی اپنی دولت، قرضوں اور غیر ملکی اداروں سے معاونت کا استعمال کرتے ہوئے شیخ حسینہ نے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کیے، جن میں دو ارب 90 کروڑ ڈالر کی لاگت سے بننے والا ’پدما برج‘ بھی شامل ہے۔
ایک متنازع شخصیت
ملک میں حالیہ پُرتشدد مظاہرے شاید شیخ حسینہ کے سیاسی کریئر کا سب سے بڑا چیلنج تھے اور اس سے قبل ملک میں ہونے والے انتخابات بھی تنازعات کا شکار ہوئے تھے۔
ان انتخابات کے نتیجے میں شیخ حسینہ کی جماعت لگاتار چوتھی مرتبہ اقتدار میں آئی تھی۔
ان کے استعفے کے مطالبات کیے جاتے رہے لیکن شیخ حسینہ نے مزاحمت جاری رکھی۔ انھوں نے احتجاجی مظاہرین کو نہ صرف ’دہشتگرد‘ قرار دیا بلکہ اپیل کی کہ ’ان دہشتگردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔‘
بنگلہ دیش میں سرکاری نوکری کو اچھی تنخواہ کی وجہ سے کافی اہمیت دی جاتی ہے تاہم تقریباً نصف نوکریاں، جن کی تعداد لاکھوں میں ہے، مخصوص گروہوں کے لیے مختص ہیں۔
سرکاری نوکریوں کا ایک تہائی حصہ ان افراد کے اہلخانہ کے لیے مخصوص ہے جنھیں بنگلہ دیش میں ’آزادی کی جنگ کا ہیرو‘ مانا جاتا ہے۔
شیخ حسینہ 1996 میں پہلی مرتبہ ملک کی وزیراعظم بنیںتاہم ملک میں طلبہ اور دیگر احتجاجی مظاہرین کا کہنا تھا کہ یہ نظام متعصبانہ ہے اور سرکاری نوکری صرف میرٹ کی بنیاد پر ہی ملنی چاہیے۔
طلبہ کا یہ احتجاج ایک حکومت مخالف ملک گیر تحریک میں بدل گیا۔ دنیا میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد بنگلہ دیش میں مہنگائی بڑھ گئی تھی، زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہو گئے تھے اور بیرونی قرضہ تقریباً دو گنا بڑھ گیا تھا۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور غربت کی اصل وجہ شیخ حسینہ کی حکومت کی بدانتظامی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ماضی میں ملک کی معاشی کامیابیوں کا فائدہ صرف انھیں ہی ہوا ہے جو عوامی لیگ کا حصہ تھے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس دوران ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں اور جمہوریت کا معیار گرتا گیا۔ وہ شیخ حسینہ پر آمرانہ طرزِ حکمرانی اختیار کرنے کا الزام لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم نے اپنے سیاسی مخالفین اور میڈیا پر پابندیاں عائد کیں۔
شیخ حسینہ اور ان کی حکومت ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے سینیئر رہنماؤں اور ہزاروں سیاسی کارکنان کو حکومت مخالف مظاہروں کے درمیان گرفتار کیا گیا۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ سنہ 2009 کے بعد ملک میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ماورائے عدالت ہلاکتوں اور جبری گمشدگیوں میں اضافہ ہوا۔
شیخ حسینہ کی حکومت ان الزامات کی دوٹاک انداز میں تردید کر چکی ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کی حکومت غیر ملکی صحافیوں کو بھی ملک میں ان واقعات کی تحقیقات سے روکتی رہی۔