متحدہ عرب امارات: بن سلطان خاندان نے ریگستان میں قائم سلطنت کو عالمی طاقت کیسے بنایا؟

جہاں کبھی کھجور کاشت کی جاتی تھی، موتیوں کو سمندر سے تلاش کیا جاتا تھا اور زندگی گزارنے کے لیے اونٹوں کی نسلیں پالی جاتی تھیں، آج وہاں دنیا کی سب سے اونچی عمارت، سیون سٹار ہوٹل، جدید بندرگاہ اور دنیا کے سب سے بڑے شاپنگ سینٹرز موجود ہیں۔
متحدہ عرب امارات
Getty Images

نوٹ: 6 اگست 1966 کے دن زاید بن سلطان النہیان ابوظہبی کے امیر بنے تھے۔ اس دن کی مناسبت سے یہ تحریر دوبارہ شائع کی جا رہی ہے۔

50 سال پہلے تک جزیرہ نما عرب کے صحرا میں قبائلی شاہی ریاستوں کے ایک گروپ کے طور پر موجود متحدہ عرب امارات مکمل طور پر بدل چکا ہے۔

تقریباً نصف صدی بعد، جہاں زیادہ تر کھلے بازار اور خیمہ نما مکانات تھے، وہاں فلک بوس عمارتیں اور عمدہ شاہراہیں دکھائی دیتی ہیں۔

جہاں کبھی کھجور کاشت کی جاتی تھی، موتیوں کو سمندر سے تلاش کیا جاتا تھا اور زندگی گزارنے کے لیے اونٹوں کی نسلیں پالی جاتی تھیں، وہاں اب جزیرہ نما عرب میں آرٹ کا سب سے بڑا عجائب گھر پیرس کا لورے ان پیرس اور نیویارک یونیورسٹی اور پیرس کی سوربون یونیورسٹی کی شاخیں کھل چکی ہیں۔

آج وہاں دنیا کی سب سے اونچی عمارت، (سیون سٹار) ہوٹل، دنیا کی مہنگی ترین پینٹنگ (لیونارڈو ڈاونچی کی سیویئر آف دی ورلڈ والی پینٹنگ) اور دنیا کے سب سے بڑے شاپنگ سینٹرز موجود ہیں۔

یہی نہیں بلکہ وہ دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہیں جنھوں نے خلا میں اپنے مشن بھیجے ہیں، ساتھ ہی وہ پہلا ملک ہے جہاں دفاتر میں ساڑھے چار دن کام کا دن ہے۔

عرب ممالک کے درمیان اپنے تیل کے کنوؤں کی بدولت جدت اور ٹیکنالوجی کی مضبوط ہم آہنگی والا ملک متحدہ عرب امارات (یو اے ای) مشرق اور مغرب کے درمیان ایک گیٹ وے یعنی دروازہ بن گیا ہے۔

تیل
Reuters

ایک بڑی عالمی طاقت

نصف صدی سے بھی کم عرصے میں اس علاقے میں رونما ہونے والی اس تبدیلی کے پس پشت مشرق وسطیٰ کے ماہرین جن کی طرف اشارہ کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے، وہ شیخ خلیفہ بن زاید بن سلطان النہیان ہیں، جو گذشتہ ماہ وفات پا گئے تھے۔

دنیا کا امیر ترین شخص سمجھے جانے والے ابوظہبی کے امیر اور حکمران شیخ خلیفہ بن زاید بن سلطان النہیان متحدہ عرب امارات کے دوسرے صدر اور ایک متنازع شخصیت رہے ہیں جنھوں نے علاقائی ترقی کے زور پر اپنے ملک کو دنیا کے نقشے پر پہچان دلائی ہے۔

سنہ 2014 میں فالج کا حملے کے بعد انھوں نے حکومت میں معمول کا کام کاج کرنا چھوڑ دیا لیکن ان کی موجودگی ہر طرف دکھائی دے رہی تھی۔

ہوٹلوں کی لابیوں، سرکاری دفاتر حتیٰ کہ دکانوں اور ریستورانوں میں بھی ان کی تصویریں ہر جگہ نظر آتی تھیں۔ حکومتی کام کی نگرانی حیرت انگیز طور پر ان کے بھائی محمد بن زاید بن سلطان النہیان کے ہاتھ میں آ گیا، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ گذشتہ دہائی کے دوران امارات کی خارجہ پالیسی کے سربراہ تھے۔ اب وہ ملک کے صدر بن چکے ہیں۔

شیخوں کے اس خاندان نے اپنے ملک کو ایک قبائلی ریاست سے مشرق وسطیٰ کے سب سے طاقتور ملک میں کیسے تبدیل کیا؟

اونٹ کی ریس
AFP
اونٹ کی ریس

متحدہ عرب امارات کیسے بنا؟

سنہ 1960 کی دہائی کے آخر تک برطانیہ نے جزیرہ نما عرب کے ممالک میں اپنی کالونیوں سے نکلنا شروع کر دیا تھا۔ ایک صدی قبل انگریز وہاں اس وقت آئے جب کچھ جنگجو قبائلی وہاں سے گزرنے والے مال بردار جہازوں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔

ان پر قابو پانے کے لیے ہی انگریز وہاں آئے تھے۔ اگرچہ وہاں تیل دریافت ہوا لیکن جب انگریزوں نے وہاں رہنے میں فائدے سے زیادہ خطرہ دیکھا تو وہ ملک چھوڑ کر چلے گئے۔

اس کے پیچھے بڑی وجہ چھ امارات (دبئی، ابوظہبی، شارجہ، عجمان، ام القوین، فجیرہ) کے شیخوں کا باہمی معاملات کے تصفیہ اور ہم آہنگی کے لیے ایک کونسل بنانے کا فیصلہ تھا۔

دسمبر 1971 میں ان تمام چھ اماراتوں نے متحد ہو کر ایک نیا خودمختار ملک، متحدہ عرب امارات تشکیل دیا۔ چند ماہ بعد ایک اور امارات راس الخیمہ بھی ان میں شامل ہو گیا جو آج بھی متحدہ عرب امارات کے نقشے پر موجود ہے۔

ابوظہبی کے اس وقت کے امیر زاید بن سلطان النہیان (خلیفہ کے والد اور محمد) ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔ تیل کی دریافت ہو چکی تھی، اور بڑے پیمانے پر معیشت میں سرمایہ کاری کی گئی اور عوامی پیسے کو بڑھانے کا عمل شروع ہوا۔

یہ عمل خلیج فارس کے دوسرے سنی ممالک (سعودی عرب، عمان، قطر، بحرین اور کویت)جیسا ہی تھا۔

'فرام ڈیزرٹس کنگڈم ٹو گلوبل پاور - دی رائز آف دی عرب گلف' میں مؤرخ روری ملر کا دعویٰ ہے کہ ان ممالک کی بے پناہ اقتصادی کامیابی کے پیچھے تیل کی آمدنی کو مختلف اسٹیک ہولڈرز میں تقسیم کرنا اور غیر منقولہ اثاثوں جیسے کہ رئیل اسٹیٹ، آرٹ اور سٹاک میں تبدیل کرنے کی مہم کارفرما تھی۔

میوزیم
Getty Images

جبل علی فری زون

دیگر خلیجی ممالک میں متحدہ عرب امارات نے سب سے زیادہ ترقی اور سب سے زیادہ فی کس آمدنی کے ساتھ بہت کم وقت میں خود کو دولت مند بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔

تیل تمام امارات کے لیے یکساں طور پر دستیاب نہیں تھا لیکن یہ ابو ظہبی کی ترقی کا سب سے بڑا محرک بن گیا، اس کے تیل کی فراوانی متحدہ عرب امارات کی اقتصادی ترقی کی کامیابی کا سب سے بڑا ہتھیار بن گئی۔

ایک نیم خودمختار امارت ہونے کے ناطے، اقتصادی اور ترقیاتی منصوبوں میں تبدیلیوں کے ذریعے انھیں مضبوط بنانے کی صلاحیت نے ان کی معیشت کو بڑھانے میں بڑا کردار ادا کیا۔

کچھ امارات نے سیاحت پر توجہ مرکوز کی، دوسروں نے غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے لیے حکمت عملی بنائی، اور اس طرح 1985 میں دبئی کے مضافات میں ایک بڑا تجارتی بندرگاہ اور تجارتی مرکز، ’جبل علی فری زون‘ قائم ہوا۔

اپنے قیام کے تقریباً 40 سال بعد بھی یہ دنیا کا سب سے بڑا آزاد تجارتی علاقہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

متحدہ عرب امارات کا نیا گولڈن ویزا کیا ہے؟

متحدہ عرب امارات میں بالغ فلموں کی سینسرشپ ختم

تاریخ متحدہ عرب امارات کے ’منافقانہ طرز عمل‘ کو کبھی فراموش نہیں کر پائے گی: ترکی

آج یہ کئی گنا بڑا ہو گیا ہے۔ یہ مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی بندرگاہ ہے۔ یہ مسلسل 24 سالوں سے مشرق وسطیٰ کی بہترین بندرگاہ بھی ہے۔

پانی، فضا اور زمین سے جڑی یہ بندرگاہ آج متحدہ عرب امارات کی معیشت میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ ٹیکس میں چھوٹ، کسٹم ڈیوٹی کے فوائد کے ساتھ غیر ملکی مالکان کے لیے سرمایہ کاری میں آسانی موجود ہے۔

یہ امارات کے بانی زاید بن سلطان النہیان کا وژن تھا جس نے ان کے ملک کو 20ویں صدی کے آخر تک دنیا کے نقشے پر نمایاں مقام دلانے کے قابل بنایا۔ تاہم، بہت سے لوگ اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ نئی صدی کا وژن شیخ زاید اور ان کے سوتیلے بھائی کی دین ہے۔

زاید بن سلطان النہیان
Getty Images
زاید بن سلطان النہیان

نئی صدی: شیخ نے متحدہ عرب امارات کی ترقی کے لیے کیا کیا؟

متحدہ عرب امارات کےدوسرے صدر کے سامنے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ سنہ 2008 میں دبئی میں آنے والے مالیاتی بحران سے کیسے نمٹا جائے۔

امارات میں اربوں ڈالر کے بیل آؤٹ فنڈز ڈالے گئے، جس کی وجہ سے دنیا کے سب سے اونچے ٹاور، برج دبئی کی تعمیر شروع ہوئی، جسے جنوری سنہ 2010 میں اس کے سرکاری افتتاح کے موقع پر برج خلیفہ کا نام دیا گیا۔

یوں تیل کی دولت کو ثقافتی اور تعلیمی مراکز کو راغب کرنے اور بیرون ملک اپنی تصویر بہتر کرنے کے لیے بھی استعمال کیا۔

خواہ سرکاری ہو یا نجی، امارات کا پیسہ بڑی کمپنیوں، بڑی ریئل اسٹیٹ، مالیاتی اداروں، بڑے برانڈز اور یہاں تک کہ فٹبال کلبوں (جیسے مانچسٹر سٹی) میں لگایا گیا۔

امارات نے حالیہ برسوں میں مغرب کی کچھ مہنگی ترین عمارتوں کی تعمیر میں بھی سرمایہ کاری کی ہے۔

شیخ خلیفہ نے تیل پر اقتصادی ترقی کا انحصار کم کرنے کے لیے قابل تجدید توانائی کی تحقیق میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کی کوشش کی۔

تاہم انھوں نے برآمدات کے پیش نظر تیل اور گیس میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی۔ پچھلے سال، متحدہ عرب امارات نے 2050 تک کاربن کے اخراج کے ہدف صفر کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اس عرصے کے دوران کم کاربن کے اخراج والے شہر مصدر کی تعمیر کو جاری رکھا ہے۔

شیخ محمد بن زاید
Getty Images
شیخ محمد بن زاید

انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تنقید

حکومت کے ناقدین کا کہنا ہے کہ تیل کی ترقی ایک ایسا معاشرہ بنانے میں ناکام رہی ہے جہاں انسانی حقوق کا احترام کیا جاتا ہو۔

متعدد بین الاقوامی اداروں نے متحدہ عرب امارات کو اس کے حدود قائم کرنے والے معاشرے کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جہاں پریس یا گروہوں کو آزادی نہیں ہے، اور نظام کے ناقدین کو قید کیا جاتا ہے اور بعض اوقات قتل بھی کر دیا جاتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی 2021 کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اماراتی حکومت میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں، بشمول من مانی گرفتاریاں، جیل میں غیر انسانی سلوک، آزادی اظہار اور رازداری کے حق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔

اگرچہ یہ مشرق وسطیٰ میں سب سے زیادہ فی کس آمدنی والا ملک ہے لیکن یہاں عموماً 20 ہزار سے ایک لاکھ افراد کو وطن بدر سمجھا جاتا ہے جس کی وجہ سے انھیں صحت، گھر، تعلیم اور نوکری کے مواقع جیسے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے جو کہ دوسرے لوگوں کو حاصل ہیں۔

حال ہی میں عالمی سطح پر متحدہ عرب امارات کے اثر و رسوخ کا سب سے نمایاں اثر شیخ خلیفہ کی وفات کے وقت دیکھا گیا۔

جہاں امریکی نائب صدر کملا ہیرس کو ان کے جنازے میں بھیجا گیا وہیں کیوبا اور انڈیا جیسے ممالک نے سرکاری سوگ کا اعلان کیا۔

ابوظہبی انویسٹمنٹ کونسل دنیا کے سب سے بڑے خودمختار دولت فنڈز میں سے ایک ہے۔ Sovereign Wealth Fund Institute کے اندازوں کے مطابق، اس کے پاس 700 ارب امریکی ڈالر کی بڑی پونجی ہے۔

متحدہ
Getty Images

محمد بن زاید بن سلطان النہیان اپنے بھائی کی موت سے پہلے ان کے سائے تلے تھے لیکن اس وقت سے ہی انھیں عرب رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنے ملک کے اثر و رسوخ کو دور دراز علاقوں تک پھیلانے کی بھرپور کوشش کی۔

متحدہ عرب امارات پہلی جدید عرب ریاست ہے جس نے اپنی فوج یورپ بھیجی۔ سنہ 1999 میں اس نے نیٹو کی حمایت میں اپنی فوج کوسوو بھیجی۔

پھر افغانستان کا معاملہ درپیش آیا۔ امارات کی فوج نے وہاں نیٹو کے ساتھ کام کیا، پھر مصر میں اخوان المسلمون کو کچلنے میں اپنا کردار ادا کیا، اورسنہ 2011 میں اپنے جنگی طیارے معمر قذافی کے خلاف ایک مشن پر لیبیا بھیجے۔

چند سال بعد وہ شام میں امریکی قیادت میں ہونے والے فضائی حملے میں شامل ہو گئے اور ترکی کے ساتھ تزویراتی تنازعے میں بھی شامل ہو گئے جو صومالیہ، سوڈان، جبوتی اور صومالی لینڈ تک پہنچا۔

ایک متنازع فیصلے میں محمد بن زاید النہیان نے سعودی قیادت میں یمن جنگ میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے اپنی فوج بحرین بھیجی اور قطر اور خلیج کے دوسرے پڑوسیوں پر کچھ پابندیاں عائد کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔

تاہم یمن کی جنگ میں متحدہ عرب امارات کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

وہاں اس کے فوجیوں پر نہ صرف انسانی حقوق کی بہت سی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا بلکہ ان پر مقامی شدت پسند تنظیم القاعدہ سے وابستگی کا بھی الزام لگا تھا۔

آج وہ یونان اور قبرص کے بھی اتحادی ہیں۔ وہ ترکی کے توانائی کے دعووں کے خلاف مشرقی بحیرہ روم میں اسرائیل اور مصر کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ بہر حال آج کا یہ طاقتور ملک تقریباً 50 سال قبل صرف چند قبائلی ریاستوں پر مشتمل تھا۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US