شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے ڈرامائی اختتام کے بعد اب پروفیسر یونس ہی ایک ایسی شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں جن پر ملک میں احتجاج کرنے والے طلبہ اعتماد کرتے دکھائی دیے۔

سال 2024 کا پہلا ہی دن تھا جب 84 سالہ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کو بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے چھ ماہ قید کی سزا سنائی۔ چھ ہی دن بعد 76 سالہ شیخ حسینہ واجد چوتھی بار انتخابات جیت کر وزیر اعظم بنیں تو انھیں جنوبی ایشیا کی سب سے طاقتور خاتون کا خطاب ملا۔
لیکن بنگلہ دیش کی سیاسی بساط نے اگلے سات ماہ میں یوں قلابازی کھائی کہ آج وہی محمد یونس عبوری حکومت کے نگران سربراہ بن چکے ہیں جو سزا سنائے جانے کے بعد ضمانت پر رہا تھے اور اس وقت خود ملک سے باہر ہیں جبکہ انھیں ’عوامی دشمن‘ کا لقب دینے والی شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا تختہ الٹ چکا ہے۔
بی بی سی بنگالی کے مطابق جس وقت شیخ حسینہ واجد طیارے میں بیٹھ کر انڈیا روانہ ہو رہی تھیں، محمد یونس علاج کی غرض سے فرانس میں موجود تھے۔
محمد یونس، جنھیں ان کے مداح ’غریبوں کا بینکار‘ کہتے ہیں، کو اس وقت عالمی شہرت ملی تھی جب ان کے گرامین بینک کی جانب سے غریب طبقے کو کاروبار شروع کرنے کے لیے قرضے دینے کے پروگرام کو سراہا گیا اور 2006 میں انھیں نوبل انعام دیا گیا۔
بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک نتیجے میں ملک کے سربراہ بننے والے 84 سالہ معیشت دان، جن کی قسمت انھیں چھ ماہ میں زیرعتاب شخصیت سے اقتدار کی دہلیز پرلے آئی، کے کندھوں پر ہی ملک میں امن قائم کرنے اور استحکام لانے کی ذمہ داری آن پڑی ہے۔
محمد یونس: ’غریبوں کے بینکار‘
محمد یونس نے 1970 کی دہائی میں ملک میں مائیکرو فائنانس کے بانی کی حیثیت سے معاشرے کے محروم طبقے کے بہت سے لوگوں کو غربت کی زندگی سے باہر نکلنے میں مدد فراہم کی۔
یہ تصور انھیں چٹاگانگ یونیورسٹی سے متصل دیہات کے دوروں کے دوران آیا تھا جس کے بعد انھوں نے قلیل سرمایہ، جو بعض اوقات دس ڈالر تک ہوتا، درجن بھر دیہاتیوں کو بطور قرض فراہم کیا اور ایسے چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والوں کو چنا جنھیں روایتی بینک قرضہ فراہم کرنے سے کتراتے تھے۔
محمد یونس کا یہ ماڈل کامیاب ہو گیا اور تیزی سے پھیلا۔ 1980 کی دہائی کی ابتدا میں اس تصورنے گرامین بینک کی عملی شکل اختیار کر لی جس کے ہزاروں اراکین تھے۔ گرامین کے معنی ’گاؤں کا بینک‘ ہے۔
2007 میں محمد یونس نے ’ناگرک شکتی‘ یعنی ’عام شہری کی طاقت‘ کے نام سے سیاسی تحریک پر کام کرنا شروع کیا جو ملک میں ایک تیسری سیاسی قوت بنانے کی کوشش تھیاس بینک نے ٹیسکٹائل سے لے کر موبائل ٹیلی کام اور براڈ بینڈ جیسے بڑے شعبوں سمیت زندگی کے ہر شعبے میں سرمایہ لگایا اور رفتہ رفتہ عالمی شہرت پروفیسر یونس کا پیچھا کرنے لگی۔ 2006 میں انھیں نوبل انعام دیا گیا تو ان کا ماڈل ترقی پذیر دنیا میں بھی مشہور ہو چکا تھا۔
سیاست میں قدم اور شیخ حسینہ واجد سے رقابت
نوبل انعام پانے کے چند ہی ماہ بعد پروفیسر یونس نے سیاست میں قدم رکھا۔ اس وقت انھوں نے کہا تھا کہ ’میں ایسا شخص نہیں ہوں جو سیاسی میدان میں آرام دہ محسوس کرتا ہے۔ لیکن اگر حالات نے مجبور کیا تو میں سیاست کا حصہ بننے سے گریز نہیں کروں گا۔‘
سیاسی عدم استحکام اور تقسیم کا سامنا کرتے ملک میں حکومت پر تنقید کرنے والی آواز کے دشمن نہ بنیں، ایسا ممکن نہیں تھا۔
2007 میں محمد یونس نے ’ناگرک شکتی‘ یعنی ’عام شہری کی طاقت‘ کے نام سے سیاسی تحریک پر کام کرنا شروع کیا جو ملک میں ایک تیسری سیاسی قوت بنانے کی کوشش تھی۔ واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کی عوامی لیگ اور بیگم خالدہ ضیا کی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کا غلبہ رہا ہے۔
2008 میں وزیر اعظم بنتے ہی شیخ حسینہ واجد نے یونس پر الزام لگایا کہ وہ اپنی کاروباری سرگرمیوں سے ’غریبوں کا خون چوس رہے ہیں‘طاقت کی رسہ کشی اور سیاسی رقابتوں سے مایوس ہونے کے بعد محمد یونس جلد ہی سیاسی میدان سے پسا ہو گئے۔ انھوں نے رواں سال کے آغاز میں بین الاقوامی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں سیاسی شخص نہیں ہوں، تو میں نے فوری طور پر اعلان کر دیا کہ میں سیاسی جماعت نہیں بنا رہا۔‘
تاہم ان کے اس اعلان کے باوجود حکومت سے ان کا تعلق بہتر نہ ہو سکا۔ 2008 میں شیخ حسینہ اقتدار میں واپس آ چکی تھیں جو اگلے 15 برس تک وزیر اعظم رہنے کے بعد دو دن قبل ہی ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوئیں۔
تاہم 2008 میں وزیر اعظم بنتے ہی شیخ حسینہ واجد نے یونس پر الزام لگایا کہ وہ اپنی کاروباری سرگرمیوں سے ’غریبوں کا خون چوس رہے ہیں۔‘ بنگلہ دیش کی حکومت نے یونس کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا۔ یونس اور ان کے حامیوں کا اصرار ہے کہ ان تحقیقات کی بنیاد سیاسی مخالفت تھی۔
گزشتہ سال اقوام متحدہ نے بنگلہ دیش میں سیاسی مخالفین کے ساتھ حکومتی رویے پر سرزنش بھی کی جب عالمی تنظیم کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر نے بیان دیا کہ ’ہمیں انسانی حقوق کے کارکنوں کی ہراسانی پر کافی تشویش ہے جن میں پروفیسر محمد یونس شامل ہیں۔‘
لیکن محمد یونس اور حکومت کے درمیان چپقلش بڑھتی چلی گئی۔ جنوری میں ملک کے لیبر قوانین کی خلاف ورزی کے الزام کے تحت گرامین ٹیلی کام کے تین ساتھیوں سمیت یونس کو چھ ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ انھوں نے سزا کے خلاف اپیل دائر کی اور پھر ضمانت پر رہا ہو گئے۔
’بنگلہ دیش آزاد ہو گیا‘
شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد پروفیسر یونس نے بیان دیا تھا کہ ’بنگلہ دیش آزاد ہو گیا ہے‘شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے ڈرامائی اختتام کے بعد اب پروفیسر یونس ہی ایک ایسی شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں جن پر ملک میں احتجاج کرنے والے طلبہ اعتماد کرتے دکھائی دیے۔
طلبہ تحریک کی جانب سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا تھا کہ عبوری حکومت میں محمد یونس چیف ایڈوائزر یا نگران سربراہ بنیں جس کے بعد پروفیسر یونس کے ایک ترجمان نے اعلان کیا کہ نوبل انعام یافتہ بینکار نے حامی بھر لی ہے۔
واضح رہے کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد پروفیسر یونس نے بیان دیا تھا کہ ’بنگلہ دیش آزاد ہو گیا ہے۔‘ انھوں نے انڈیا کے دی پرنٹ کو انٹرویو میں کہا تھا کہ ’ملک بھر میں لوگ جشن منا رہے ہیں۔‘
یونس نے کہا کہ ’جب تک وہ (شیخ حسینہ) موجود تھی ہم مقبوضہ ملک تھے۔ وہ کسی آمر، فوجی جنرل کی طرح حکومت کر رہی تھی، ہر چیز پر کنٹرول رکھ رہی تھی۔ آج بنگلہ دیش کے سب لوگ محسوس کر رہے ہیں کہ وہ آزاد ہو چکے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم ایک نیا آغاز لینا چاہتے ہیں اور اپنے لیے ایک خوبصورت ملک بنانا چاہتے ہیں۔ یہ وہ وعدہ ہے جو ہم طلبہ اور نوجوانوں سے کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے مستقبل کے رہنما ہیں۔‘
بنگلہ دیش کی عبوری حکومت اور محمد یونس کے سامنے سب سے پہلی ترجیح یہی ہو گی کہ عبوری انتظامیہ کی بنیاد رکھی جائے تاکہ اقتدار کے خلا کو پر کرتے ہوئے مذید عدم استحکام سے گریز کیا جائے۔
ایسے میں پروفیسر یونس کی بین الاقوامی شہرت اور عالمی حمایت حاصل کرنے کی صلاحیت اہم ثابت ہو سکتی ہے۔