خاتون نے یہ دعوی کیا ہے کہ وہ 40 دن سے جنگل میں بھوکی اور پیاسی بندھی رہی تھیں لیکن اتنے عرصے تک بنا کھائے پیے زندہ رہنا کیسے ممکن ہے؟ اس سوال نے یہ معاملہ اور بھی پراسرار بنا دیا۔

انڈین ریاست مہاراشٹرا کے ایک جنگل سے جولائی کے آخری ہفتے میں بھوک سے نڈھال اور زنجیر سے بندھی ملنے والی خاتون کے بارے میں پولیس نے کہا ہے کہ اس خاتون نے اپنے آپ کو خود ہی باندھ رکھا تھا۔
کچھ روز قبل جب یہ خاتون جنگل سے بازیاب ہوئی تھیں تو انھوں نے حکام کو یہ بتایا تھا کہ انھیں اس حال میں ان کے شوہر نے پہنچایا۔
پولیس کو دیے گئے اپنے تحریری بیان میں 50 برس کی لالیتا نے اپنے شوہر پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ انھیں جنگل میں زنجیروں میں باندھ کر چھوڑ گئے تھے تاکہ وہ کھانے اور پانی کے بغیر جنگل میں ہی مر جائیں۔
لالیتا جو اس وقت ذہنی صحت کے ایک سینٹر میں زیر علاج ہیں، نے اس متعلق عوامی سطح پر کوئی بات نہیں کی۔ رازداری کے حق کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی سفارتخانے نے بھی اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
سپرٹنڈنٹ پولیس سوربھ اگروال نے منگل کو بی بی سی مراٹھی کو بتایا کہ خاتون کا اب موقف ہے کہ ان کی شادی ہی نہیں ہوئی اور پولیس کو اپنے پہلے بیان کے وقت وہ مکمل طور پر اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھیں۔
پولیس کے مطابق ’خاتون نے بتایا ہے کہ ان کا ویزا ختم ہو گیا تھا، ان کے پاس پیسے بھی ختم ہو رہے تھے اور وہ پریشان تھیں، اس لیے انھوں نے تالے اور زنجیریں خرید کر خود کو درخت سے باندھ لیا۔‘
لالیتا کا ہسپتال میں علاج کرنے والے ڈاکٹر سنگھمترا پھولے نے بی بی سی مراٹھی کو بتایا کہ ’خاتون کی حالت بہتر ہو رہی ہے۔‘
"وہ کھاتی ہیں، چلتی ہیں اور ورزش بھی کرتی ہیں۔ وہ زیر علاج ہیں اور ہم انھیں کچھ غذائی اجزا بھی دے رہے ہیں جن کی اس کے جسم میں کمی تھی۔‘
ڈاکٹر پھولے نے بتایا کہ ’امریکہ میں خاتون کے خاندان کا سراغ لگا لیا گیا ہے اور لالیتا ان سے رابطے میں تھیں۔‘
جب چرواہوں نے جنگل میں چیخ کی آواز سنی

جولائی کے آخری ہفتے کی ایک صبح جب چرواہے معمول کے مطابق اپنے مویشی جنگل میں لے کر گئے تو اچانک انھیں ایک چیخ سنائی دی۔
روناپال سونرلی گاؤں کے یہ چرواہے سندھودرگ نامی ضلع کے جنگلات میں یہ چیخ سن کر حیرت زدہ رہ گئے جب انھوں نے دیکھا کہ یہ آواز ایک ایسی خاتون کی تھی جس کی ٹانگیں کسی نے ایک درخت سے باندھ رکھی تھیں۔
انھیں اس وجہ سے بھی حیرت ہوئی کیونکہ یہ خاتون مقامی نہیں تھی لیکن وہ جنگل کے اندر کافی فاصلے پر موجود تھیں۔ اس خاتون کو قریب سے دیکھ کر یہ چرواہے اور خوفزدہ ہو گئے اور انھوں نے فوراً قریبی گاؤں اور پولیس کو اطلاع دی۔
مہاراشٹرا پولیس کے اہلکاروں نے موقع پر پہنچ کر اس خاتون کی ٹانگ سے بندھی آہنی زنجیر کو کاٹ کر انھیں چھڑوایا تو وہ کمزوری سے نڈھال تھی۔
پولیس کو یہ جان کر اور بھی حیرت ہوئی کہ یہ خاتون امریکی شہریت رکھتی تھیں اور یہ بات بھی سامنے آئی کہ انھیں کسی مجرم نے نہیں بلکہ ان کے اپنے شوہر نے اس ویران مقام پر باندھ کر تنہا چھوڑ دیا تھا۔
پولیس کے مطابق یہ خاتون کافی عرصے سے انڈیا میں تمل ناڈو میں رہائش پذیر تھی اور اس کے پاس آدھار کارڈ بھی موجود تھا جس پر تمل ناڈو کا ایڈریس موجود تھا۔
خاتون کی شہریت کے بارے میں اس کے پاس سے ملنے والے پاسپورٹ سے علم ہوا۔ مقامی پولیس نے خاتون کو ایک ہسپتال میں علاج کے لیے داخل کروا دیا کیونکہ وہ کئی دن سے جنگل میں بنا خوراک اور پانی کے بندھی رہی تھیں۔
یہ بھی پڑھیے
’شوہر نے درخت سے باندھ دیا، میں پھر بھی زندہ بچ گئی لیکن وہ بھاگ گیا‘
بتایا گیا ہے کہ خاتون کو جب بازیاب کیا گیا تھا تو اس وقت وہ ٹھیک سے بات بھی نہیں کر پا رہی تھی تاہم ان کے جسم پر کسی قسم کے زخم کے نشان نہیں تھے تاہم یہ واضح تھا کہ یہ خاتون کئی دن سے بھوکی اور پیاسی تھیں۔
جب پولیس نے اس خاتون کو ہسپتال منتقل کیا تو ابتدائی علاج کے بعد ان سے پوچھ گچھ کی کوشش کی گئی لیکن وہ ٹھیک سے بات نہیں کر پا رہی تھیں۔
ایسے میں خاتون نے کاغذ اور قلم منگوایا اور پھر انگریزی میں لکھ کر بتایا کہ ان کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا۔
اس تحریر میں ہی خاتون نے پولیس کو بتایا کہ ان کو اس حال میں ان کے اپنے شوہر نے پہنچایا۔

خاتون نے پولیس کو اس تحریر کے ذریعے بتایا کہ ان کو کسی قسم کا انجیکشن لگایا گیا جس کے بعد ان کا جبڑا حرکت نہیں کر پا رہا تھا اور ان کے لیے پانی تک پینا ناممکن ہو گیا۔
خاتون نے یہ دعوی بھی کیا تھا کہ وہ 40 دن سے جنگل میں بھوکی اور پیاسی بندھی رہی تھیں لیکن اتنے عرصے تک بنا کھائے پیے زندہ رہنا کیسے ممکن ہے؟ اس سوال نے یہ معاملہ اور بھی پراسرار بنا دیا۔
خاتون نے یہ بھی لکھا کہ ’میرے شوہر نے مجھے درخت سے باندھ دیا۔ میں پھر بھی زندہ بچ گئی لیکن وہ بھاگ گیا۔‘
سپرٹنڈنٹ پولیس سوربھ اگروال نے بتایا تھا کہ ابتدائی معائنے سے ایسا محسوس ہوا جیسے اس خاتون کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں۔
پولیس کے مطابق خاتون کے پاس سے ملنے والی دستاویزات سے علم ہوتا ہے کہ وہ دلی، ممبئی اور گوا میں ڈاکٹروں کے پاس زیرعلاج رہ چکی ہیں۔