پاکستان تحریک انصاف پنجاب کے صدر حماد اظہر نے جمعرات کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر اپنا استعفیٰ شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’میرے سمیت جن عہدے داروں کی عمران خان تک رسائی نہیں ہے ان کے لیے پارٹی کے معاملات چلانا مشکل ہے۔‘انہوں نے اپنے استعفے میں پی ٹی آئی لاہور کے صدر چودھری اصغر گجر کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’وہ بہت اچھا کام کر رہے تھے ان سے استعفیٰ لینا درست نہیں ہے۔‘
’بدقسمتی سے میری عمران خان تک رسائی نہیں ہے۔ میں نے پریس کانفرنس کی اور نہ ہی کوئی ڈیل، لہٰذا میری نقل و حرکت پر بھی بہت سختی ہے اور میں اڈیالہ جیل کے اندر بھی نہیں جا سکتا۔‘سابق وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ’پنجاب کی تنظیم میں بہت سارے ایسے فیصلے کیے گئے ہیں جن میں نہ تو میری رائے شامل تھی اور نہ ہی رضامندی۔‘ ’ان میں زیادہ تر ایسے فیصلے بھی تھے جن پر میرٹ کے بجائے لابنگ کا عمل دخل تھا، عمران خان تک یک طرفہ معلومات پہنچائی گئیں۔‘حماد اظہر کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی لاہور کے صدر چودھری اصغر گجر کو ہٹانے کی کوششیں کافی عرصے سے جاری تھیں۔ کافی عرصے سے لابنگ چل رہی تھی کہ چودھری اصغر گجر کو تبدیل کرایا جائے۔‘’آج وہ کامیاب ہو گئے ہیں اور عمران خان خان کو غلط معلومات پہنچا کر ہدایت حاصل کی گئی ہے۔ چودھری اصغر گجر کا قصور یہ ہے کہ وہ دو ماہ قید میں رہے، فارم 45 پر نواز شریف کے حلقے سے الیکشن جیتے اور تین ماہ قبل لاہور کے صدر منتخب ہوئے۔‘پی ٹی آئی کے رہنما نے مزید کہا کہ ’میں دعوے سے کہتا ہوں کہ چودھری اصغر گجر نے تین ماہ کے دوران جو کام کیا اور جس طرح فرنٹ سے لیڈ کیا وہ پہلے لاہور کے کسی صدر نے نہیں کیا۔‘’ورکرز کنونشن، پریس کلب کے باہر بڑا احتجاج اور 13 اور 14 اگست کی درمیانی رات لاہور میں کامیاب ریلیوں کے انعقاد میں اُن کا کلیدی کردار تھا۔‘خیال رہے کہ لاہور میں 13 اور 14 اگست کی درمیانی رات حماد اظہر بھی لاہور کی سڑکوں پر نظر آئے جنہوں نے تحریک انصاف کا پرچم بھی اٹھا رکھا تھا۔اہم بات یہ ہے کہپی ٹی آئی پنجاب کے صدر حماد اظہر کے استعفے کے علاوہ حال ہی میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے سربراہ بنائے گئے حافظ فرحت نے بھی اپنے عہدے سے استعفی دے دیا ہے۔ اسی طرح لاہور کے صدر اصغر گجر بھی اب اپنے عہدے پر نہیں رہے۔حماد اظہر نے خود ہی اس صورت حال کا سیاق و سباق بھی لکھا ہے اور کہا ہے کہ ان کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ وہ سوشل میڈیا کا سہارا لیں۔
انہوں تحریک انصاف کے اندر دھڑے بندیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’الیکشن میں کامیابی کے بعد کچھ لوگ حکومت میں آگئے، کچھ پارلیمان میں اور کچھ اب بھی زیرِعتاب ہیں۔‘’یہ تین گروپ ہیں جن کے اب مفادات اور سوچ مختلف ہیں۔ ان سب کو ایک پیج پر آپ لے کر آئیں اور کسی شخص کو آپ کی سوچ سے مختلف حکمت عملی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔‘انہوں نے مزید لکھا کہ ’پارٹی میں دو اور گروپ بھی ہیں۔ ان دونوں کا تعلق دو مختلف پیغام رساؤں سے ہے۔ یہ لوگ ضرورت سے زیادہ اہمیت حاصل کر گئے ہیں اور پارٹی میں اپنے من پسندوں کے بارے آپ کو خاص فیڈ بیک دیتے ہیں اور اپنی پسند کے الفاظ آپ کی زبان سے نکلوا لیتے ہیں۔‘اس ساری صورت حال میں اس وقت پنجاب یا لاہور میں تحریکِ انصاف کی قیادت موجود نہیں جن سے اس معاملے پر بات کی جا سکے۔ استعفیٰ دینے والے حافظ فرحت نے اس موضوع پر کوئی بھی بات کرنے سے انکار کیا ہے۔تاہم مقدمات میں مفرور تحریک انصاف کے ایک رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’لاہور کی صدارت کا مسئلہ کافی عرصے سے چل رہا ہے۔‘’میاں اسلم گروپ اپنی صدارت لانا چاہتا ہے جبکہ حماد اظہر گروپ کا بندہ اصغر گجر پہلے ہی اس عہدے پر موجود تھا جن سے صرف تین ماہ کے اندر ہی سے استعفیٰ لے لیا گیا ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عمران خان سے رابطوں میں کمی کی وجہ سے بھی کئی طرح کی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں جس کی وجہ سے بھی یہ صورت حال پیدا ہوئی ہے۔‘