برفانی تیندوے کی لاکھوں روپے مالیت کی کھال لاہور سے کیسے پکڑی گئی؟

صوبہ پنجاب کے لاہور میں وائلڈ لائف حکام نے قیمتی اور انتہائی خطرے کا شکار برفانی تیندوا کی کھال کو سمگل کرنے کی کوشش کو ڈرامائی انداز میں ناکام بنا کر ایک ملزم کو گرفتار کر لیا ہے۔ گرفتار ملزم نے مقامی مجسٹریٹ کی عدالت میں اقرار جرم کرلیا ہے جس کے بعد ان پر ایک لاکھ روپیہ جرمانہ عائد کرنے کے بعد رہا کردیا گیا ہے جبکہ کھال وائلڈ لائف حکام نے ضبط کر لی ہے۔

گذشتہ ماہ فیس بُک پر نوادرات کی خرید و فروخت کی غرض سے بنائے گئے ایک گروپ میں ایک اشتہار پوسٹ کیا گیا جس میں لکھا تھا ’سنو لیپرڈ سکن فار سیل‘ (برفانی تیندوے کی کھال برائے فروخت)۔

یعنی اس پوسٹ کے ذریعے پاکستان میں معدومیت کے خطرے کے شکار برفانی تیندوے کی کھال فروخت کی جا رہی تھی۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر یہ اشتہار پوسٹ کرنے والے شخص کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اگر کوئی اس کھال کو خریدنے میں دلچسپی رکھتا ہے تو وہ انھیں اِن باکس میں میسج بھیج کر رابطہ کر سکتا ہے۔

یہ اشتہار پوسٹ کیے جانے کی اطلاع محکمہ جنگلی حیات پنجاب تک بھی پہنچ گئی۔

صوبہ پنجاب کے محکمہ وائلڈ لائف کے حکام کا کہنا ہے کہ برفانی تیندوا کی اس قیمتی کھال کو سمگل کرنے کی کوشش کو ناکام بنا کر ایک ملزم کو گرفتار کیا گیا۔

گرفتار ملزم نے مقامی مجسٹریٹ کی عدالت میں اقرار جرم کر لیا جس کے بعد ان پر ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کر کے رہا کردیا گیا ہے۔ جبکہ یہ کھال وائلڈ لائف حکام نے ضبط کر لی۔

پنجاب کی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب کے اندازے کے مطابق اس کھال کی قیمت ’کم ازکم 20 ہزار ڈالر‘ہے، یعنی 50 لاکھ پاکستانی روپے سے بھی زیادہ۔

ایکس پر ایک پیغام میں انھوں نے کہا کہ ’یہ آپریشن جنگلی حیات کے غیر قانونی کاروبار کے خلاف جاری مہم کا حصہ ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ برفانی تیندوا پاکستان میں معدومیت کے خطرے کا شکار ہے اور ان کی تعداد ’صرف 400 رہ چکی ہے۔‘

’افسر نے گاہک بن کر رابطہ کیا‘

وائلڈ لائف پنجاب کے سپیشل سکواڈ اسسٹنٹ ڈائریکٹر عاصمکامران کے مطابق اس کھال کو برآمد کرنا اور ملزم کو گرفتار کرنا اتنا آسان نہیں تھا۔

ان کے بقول ملزم ’انتہائی چالاک تھا‘ جس نے ’دو بار گرفتاری کی کوششوں کو ناکام بنایا۔‘

وائلڈ لائف پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل مدثر ریاض کا کہنا ہے کہ ’یہ پنجاب کی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ یہاں پر برفانی تیندوا کی کھال پکڑی گئی ہو۔‘

ان کے مطابق انھیں اطلاع ملی تھی کہ برفانی تیندوے کی ایک قیمتی کھال کو فروخت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس پر محکمے نے کارروائی کا منصوبہ بنایا اور عاصم کامران کے مطابق ’پہلی کوشش میں ایک وائلڈ لائف افسر گاہک بنے اور انھوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے ملزم سے رابطہ قائم کیا۔‘

مگر کچھ بات چیت کے بعد معلوم ہوا کہ سمگلر کھال کو ’بیرون ملک فروخت کرنا چاہتے تھے۔ انھیں بیرونی ملک

کھال کی قیمتوں کا بھی اندازہ تھا۔‘

وائلڈ لائف پنجاب کے ڈائریکٹر کے مطابق انھیں 12 لاکھ روپے کی پیشکش کی گئی جو سمگلروں نے قبول کر لی مگر پھر ’انھیں شک ہوگیا اور انھوں نے رابطہ منقطع کر دیا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہمارے پاس زیادہ وقت نہیں تھا۔ ایک اور کوشش کے طور پر ایک اور آفسر سے کہا گیا کہ وہ کاہگ بن کر رابطہ کرے۔

’اس مرتبہ ہمیں لگا کہ ملزم پریشان ہے۔ اس نے زیادہ مول تول اور بحث مباحثہ کے بغیر 10 لاکھ روپے کے عوض یہ کھال دینے کی بات کی۔‘

تاہم یہ منصوبہ بھی کامیاب نہ ہوا کیونکہ ’جس مقام پر اس نے ملنے کا بتایا، وہ اس مقام پر نہیں پہنچا اور اس کے بعد اس نے سوشل میڈیا سے وہ پوسٹ بھی ڈیلیٹ کر دی۔‘

کھال سمگل کرنے کے لیے ’کوریئر سروس استعمال ہوئی‘

محکمہ وائلڈ لائف کے لیے سوشل میڈیا کے ذریعے سمگلروں کو ٹریس کرنا مشکل تھا۔ اس لیے انھوں نے تحقیقات کا طریقہ کار تبدیل کیا اور ’ملزم کے خاندان کے ذریعے ان کا نمبر ٹریس کیا۔‘

ملزم کی شناخت کے بعد انھیں گرفتار تو کر لیا گیا مگر ان کے پاس کھال نہیں تھی۔

اس وقت انھیں معلوم ہوا کہ ملزم نے گرفتاری کے خدشے سے پہلے کھال کراچی سے لاہور بذریعہ کوریئر منگوائی تھی اور اب وہ اسے لاہور سے واپس کراچی بھیج رہے تھے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ تیندوے کی کھال ٹرانسپورٹ کرنے کے لیے ’لیپرڈ کوریئر‘ نامی کمپنی کی سروس استعمال کی جا رہی تھی۔

پاکستان میں ’لیپرڈ کوریئر‘ سروس کے مارکیٹنگ ڈائریکٹر عبدالحلیم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کھال ٹرانسپورٹ کرنے کے لیے ایک ’پرانے گاہک‘ نے پارسل بُک کروایا تھا تاہم کمپنی سے ’غلط بیانی‘ کی گئی تھی۔

وہ بتاتے ہیں کہ جب اس آرڈر کو ٹرانسپورٹ کرنے کے لیے تیار کیا گیا تو معلوم ہوا کہ یہ برفانی تیندوے کی کھال ہے اور اسی وقت آرڈر منسوخ کر دیا گیا تھا۔

محکمہ وائلڈ لائف کے اہلکار عاصم کامران بتاتے ہیں کہ ان کی ٹیم نے پولیس کے ہمراہ لیپرڈ کے دفتر پر چھاپہ مارا۔ ’اگر ہمیں کچھ اور تاخیر ہوجاتی تو یہ کھال جا چکی ہوتی۔‘

ادھر ’لیپرڈ کوریئر‘ سروس کے عبدالحلیم کے مطابق ان کی کمپنی نے اس معاملے میں حکام سے تعاون کیا ہے اور وہ اب بھی مزید تعاون کے لیے تیار ہیں۔

عاصم کامران کے مطابق اس کھال کو پہلے بھی ایک دوسری کوریئر سروس کے ذریعے ٹرانسپورٹ کیا گیا تھا اور انھیں حیرت ہے کہ کوریئر کمپنیاں ’کیسے یہ کھال وصول کر لیتی ہیں اور پھر اس کی ڈیلیوری کو بھی یقینی بناتی ہیں۔‘

دریں اثنا حکام کے مطابق ملزم نے مجسڑیٹ کی عدالت میں اقرار جرم کیا جس پر انھیں قوانین میں نرمی کے باعث ایک لاکھ روپے جرمانے ہوا اور عدالت نے انھیں رہا بھی کر دیا۔

’بااثر لوگوں کی پشت پنائی‘ کا الزام

ڈبیلو ڈبیلو ایف پاکستان کے سینیئر مینیجر محمد اقبال جمشید دعویٰ کرتے ہیں کہ ’یہ کوئی راز نہیں کہ ملک میں جنگلی حیات کا کاروبار ہورہا ہے۔ یہ کاروبار بڑے منظم پیمانے پر ہوتا ہے، یہ بڑے لوگوں کے شوق ہیں اور بڑے اور بااثر لوگ اس میں شامل ہوتے ہیں جو انتہائی منظم طریقے سے یہ کاروبار کرتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ کاروبار کہاں تک پھیلا ہوا ہے اور کون کون اس کی پشت پنائی کرتا ہے، ہم اس کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں جانتے ہیں۔ مگر جب اس طرح کے واقعات منظر عام پر آتے ہیں تو ان سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کی جڑیں کہاں تک ہو سکتی ہیں۔‘

وہ چاہتے ہیں کہ معدومیت کے شکار برفانی تیندوے کی کھالوں کے ’غیر قانونی کاروبار کو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے تو قومی سطح پر ایک پالیسی طے کرنا ہو گی۔‘

’قومی سطح پر اتفاق رائے اور مل کر ہی اس کاروبار کو ختم یا اس میں کمی لائی جا سکتی ہے۔‘

محمد اقبال جمشید کے مطابق ’ایسے اشارے تو ملتے ہیں کہ پاکستان کے دو بڑے شہر کراچی اور لاہور اس کے بڑے مراکز ہیں۔مگر یہ مراکز ان شہروں میں کہاں کہاں ہیں اور کون کون ان کی پشت پناہی کرتا ہے اور یہ نیٹ ورک کیسے چلتا ہے، اس حوالے سے کئی سوالات جواب طلب ہیں۔‘

Science Photo Library
Science Photo Library
فائل فوٹو

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ برفانی تیندوا کی کھالیں برآمد ہوئی ہوں۔ اس سے قبل گذشتہ سال بھی ایبٹ آباد سے چار کھالیں بر آمد ہوئی تھیں۔

بی بی سی ہی میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے مطابق جنگلی حیات کا غیر قانونی کاروبار جس میں برفانی تیندوا اور دیگر شامل ہیں کا بڑا مرکز ضلع مانسہرہ میں اوگئی کا علاقہ ہے۔

مدثر ریاض کہتے ہیں کہ یہ بڑا تکلیف دہ ہے کہ خطرے کا شکار برفانی تیندوا کی کھال کو فروخت کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔

’ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ اس پورے نیٹ ورک کو بے نقاب کیا جائے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts