شیکسپیئر کے ایک معروف قول کو عام طور ہر جگہ نقل کیا جاتا ہے کہ ’نام میں کیا رکھا ہے‘ لیکن اگر انڈیا کی بات کی جائے تو آج کل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نام ہی میں سب کچھ رکھا ہے!
اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھشیکسپیئر کے ایک معروف قول کو عام طور ہر جگہ نقل کیا جاتا ہے کہ ’نام میں کیا رکھا ہے‘ لیکن اگر انڈیا کی بات کی جائے تو آج کل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نام ہی میں سب کچھ رکھا ہے!
حالیہ برسوں میں اس کی ابتدا شہروں کے نام بدلنے سے ہوئی، اس کے بعد کبھی کسی سڑک کا نام بدلا گیا، کبھی سرکاری سطح پر دکان مالکان کو کہا گیا کہ وہ اپنے نام جلی حروف میں لکھیں اور اپنے ملازمین کے نام اور پتے بھی ظاہر کریں۔
گذشتہ روز انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اُتر پردیش کے وزیر اعلیٰ نے بھی دکانوں سے متعلق ایک ایسا ہی ایک حکمنامہ جاری کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اِس کا مقصد ’کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ‘ کو روکنا ہے تاہم سماجی و سیاسی کارکنوں کی رائے ہے کہ اس تازہ ترین حکمنامے کے دور رس نتائج ہو سکتے ہیں کیونکہ انڈیا مذہب اور ذات پات کی بنیادوں پر تقسیم سماج کا مجموعہ ہے۔
اس حکمنامے میں کہا گیا ہے کہ کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والے تمام دکاندار اپنے فوڈ سینٹرز پر آپریٹرز، پروپرائٹرز اور منیجرز کا نام اور پتہ لازمی طور پر ظاہر کریں۔
اس سے قبل رواں سال جولائی کے مہینے میں ہندوؤں کے مذہبی تہوار ’کانور یاترا‘ کے دوران جب بی جے پی کی حکومت والی تین ریاستوں اتراکھنڈ، اترپردیش اور مدھیہ پردیش نے ایسا ہی ایک حکم جاری کیا تھا تو سپریم کورٹ نے اس پر روک لگا دی تھی۔
سپریم کورٹ کے جسٹس رشی کیش روئے اور جسٹس ایس وی این بھٹی پر مشتمل دو رُکنی بینچ نے اپنے حکمنامے میں لکھا تھا کہ کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنے والے دکانداروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ لکھ کر لگائیں کہ وہ کس قسم کا کھانا فروخت کر رہے ہیں لیکن انھیں دُکانوں کے باہر اپنے یا اپنے ملازمین کے نام تحریر کرنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
بہر حال گذشتہ روز اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے ریاست کی اعلی سطحی میٹنگ کے دوران یہ فیصلہ کیا ہے جسے سپریم کورٹ کے حکم کے منافی قرار دیا جا رہا ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ کے اس فیصلے کو اترپردیش کے وزیر اعلی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ایکس پر پوسٹ کیا گيا ہے۔
سوشل میڈیا پر اس حوالے سے باتیں ہو رہی ہیں۔ ایک حلقہ اسے یوگی آدتیہ ناتھ کا خوش آئند قدم بتا کر اسے پورے ملک میں نافذ کرنے کی بات کہہ رہا تو دوسرے حلقے کو تشویش ہے اور ان کا خیال ہے کہ ملاوٹ کو روکنے کے لیے دکانداروں یا ملازموں کے نام کے اظہار کی ضرورت نہیں۔
اترپردیش وزیر اعلی کا سوشل میڈیاپر ڈالا گیا حکمبہر حال یوپی سی ایم کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ ایکس پر کہا گیا ہے کہ ’کھانے پینے کی اشیاء میں تھوکنے اور پیشاب کی آمیزش کے واقعات کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے ہدایت کی ہے کہ تمام فوڈ سینٹرز پر اُن کے آپریٹرز، پروپرائٹرز اور منیجرز کا نام اور پتہ لازمی طور پر ظاہر کیا جائے۔‘
اس کے ساتھ ہی ہوٹلوں اور ریستورانوں میں سی سی ٹی وی کیمرے کی تنصیب کو لازمی قرار دیا گيا ہے جبکہ باورچیوں اور ویٹروں کو ماسک اور دستانے پہننے کی بھی ہدایت کی گئی ہے۔
ایک سرکاری بیان میں کہا گیا ہے کہ لکھنؤ میں ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا کہ ’کھانے پینے کی اشیاء میں انسانی فضلہ کی موجودگی قابل نفرت ہے‘ اور انھوں نے ان لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا جو کھانے پینے کی اشیا میں انسانی فضلہ یا گندی چیزوں کی ملاوٹ کرتے ہیں۔
’دی ہندو‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق 12 ستمبر کی ایک ویڈیو کلپ میں سہارنپور ضلع میں ایک نوجوان کو روٹیاں بناتے ہوئے اُن پر تھوکتے ہوئے دکھایا گیا۔ اس مبینہ ویڈیو کلپ کے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد اس دکان کے مالک کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
جولائی میں آنے والے حکم کے بعد ایک دکان کے باہر ہندی میں لکھا گیا تھا: پروپرائٹر: انیس احمد کی شاپاسی طرح گذشتہ ہفتے دارالحکومت دہلی سے ملحق غازی آباد ضلع میں ایک جُوس فروش کو مبینہ طور پر جوس میں پیشاب ملانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اسی طرح جون میں پولیس نے نوئیڈا میں دو افراد کو مبینہ طور پر تھوک سے آلودہ جوس فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
اس طرح کے واقعات کے پیش نظر وزیر اعلیٰ نے ریاست میں تمام ہوٹلوں، ڈھابوں، ریستورانوں اور متعلقہ اداروں کی مکمل تحقیقات، تصدیق کی ہدایات بھی دی ہیں۔
سوشل میڈیا پر عام طور اس طرح کے کام کو مسلمانوں سے منسوب کیا جا رہا ہے۔
بہر حال عوام کی صحت کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے ضرورت کے مطابق قواعد میں ترمیم کرنے کی بھی ہدایات دی گئی ہیں۔
وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے کہا: ’ڈھابوں، ریستورانوں اور کھانے پینے کے اداروں کی مکمل چھان بین کی جانی چاہیے اور ہر ملازم کی پولیس تصدیق کی جانی چاہیے اور کھانے پینے کی اشیاء کی پاکیزگی اور تقدس کو یقینی بنانے کے لیے فوڈ سیفٹی اینڈ سٹینڈرڈز ایکٹ میں بھی ضروری ترامیم کی جانی چاہیے۔‘
اس سے قبل جب دکانوں کے مالکوں کے نام ظاہر کرنے کا حکم جاری ہوا تھا تو اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اسے مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش اور مذہبی منافرت پھیلانے سے تعبیر کیا گیا تھا۔
اترپردیش میں کانگریس کے سرکردہ رہنما جنھوں نے وارانسی سے وزیر اعظم مودی کو پارلیمانی انتخابات میں چیلنج پیش کیا تھا’پہلے تو نہیں ہوتا تھا اب کیوں ہو رہا ہے؟‘
بہرحال تازہ حکم نامے کے بعد اُترپردیش میں حزب اختلاف کے رہنماؤں نے اسے اصل عوامی معاملات سے توجہ ہٹانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
یوپی کانگریس کمیٹی کے سربراہ اجے رائے نے کہا کہ ’یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت وہ کام نہیں کر پا رہی ہے جس کے لیے اسے منتخب کیا گیا تھا۔ پولیس ویریفکیشن کے نام پر اب غریب عوام کو مزید تنگ کیا جائے گا۔ چھوٹے دکانوں کے مالکان سے تعمیل کے نام پر بھتہ لیا جائے گا۔‘
انھوں نے کہا جب جی ایس ٹی آئی این میں سارے کوائف درج ہیں تو پھر کسی کے نام کو جلی حروف میں لکھنے کا کیا مطلب ہے؟
انھوں نے خبر رساں ایجنسی اے این آئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات پہلے کب سننے میں آتے تھے، یہ سب بی جے پی کے دور کی پیداوار ہے۔
انھوں نے کہا: ’ہم لوگ یہیں پلے بڑھے ہیں۔ 30-32 سال سے سیاست میں ہی۔ں پہلے کبھی ایسی چیز نہیں سنی گئی۔ پچھلے ایک سال چھ مہینے سے ایسا سننے میں آ رہا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے دور میں بھی ایسا ہو رہا ہے پہلے کبھی بھی ایسا نہیں تھا۔‘
جبکہ ریاست میں بی جے پی حکومت سے پہلے برسراقتدار رہنے والی سماج وادی پارٹی کے ترجمان عبدالحفیظ گاندھی نے کہا: ’ملاوٹ کو ختم کرنے اور خوراک کے معیار کو برقرار رکھنے کے اقدامات معاشرے کی بھلائی کے لیے ضروری ہیں۔ لیکن اس کے لیے ڈھابے اور ریستوران کے مالکان کے نام اور دیگر تفصیلات ظاہر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ کس مقصد کو پورا کرتا ہے؟‘
انھوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی اس طرح کے احکامات جاری کیے گئے تھے جس کے تحت پھل فروشوں اور ڈھابہ مالکان سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے نام ظاہر کریں اور پھر اسے سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد واپس لیا گیا تھا۔
تروپتی کے لڈو میں چربی کی ملاوٹ پر واویلہ مچا ہوا ہےسوشل میڈیا پر شور
بہت سے سوشل میڈیا ہینڈل سے ’تھوک جہاد کے خلاف یوگی حکومت کا کڑا فیصلہ‘ جیسے عنوانات کے تحت بات کر رہے ہیں۔
ستیہ گرہ انڈیا نامی ایکس ہینڈل سے یہ ٹویٹ کیا گیا کہ ’یوگی آدتیہ ناتھ نے سپریم کورٹ کو حیران کر دیا۔ حکومت نے پورے یوپی میں تمام ڈھابوں اور ریستورانوں میں مالک کے نام کی تختی آویزاں کرنا لازمی قرار دیا ہے۔ یوگی نے تھوکنے اور پیشاب کرنے جیسی غلط حرکتیں پائے جانے پر سخت کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔‘
زیڈ کامن سینس نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’آپ نے زبردستی ڈھابوں پر نام لکھوائے ہیں تاکہ معلوم ہو کہ کیا یہ مسلمان ہے۔ ان سے بچنے کے لیے ہماچل میں وہ پمفلٹ بانٹ رہے ہیں کہ مسلمانوں سے نہ خریداری نہ کریں۔ لیکن تروپتی مندر میں نان ویج کو لڈو کھلایا اور تقسیم کیا جاتا ہے۔۔۔ سخت سزا لازمی ہے۔ چراغ تلے اندھیرا۔‘
خیال رہے کہ ہندوؤں کے سبسے امیر مندر تروپتی کا لڈو پرشاد یعنی تبرک کے طور پر تقسیم کیا جاتا ہے جس میں استعمال ہونے والی گھی میں جانوروں کو چربی ملائے جانے کے شواہد ملے ہیں جس پر انڈیا میں سخت برہمی پائی جاتی ہے۔ ایسے میں اترپردیش میں دیے جانے والا نیا حکم کیا رنگ لائے گا یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہے۔