اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کون سی قسم کا بین البراعظمی میزائل تھا اور یہ کس راستے سے ہوتا ہوا بحر الکاہل میں جا کر گرا تاہم چینی سرکاری میڈیا کے مطابق بیجنگ نے ’تجربے سے قبل متعلقہ ممالک کو آگاہ کر دیا تھا۔‘

چین نے کہا ہے کہ انھوں نے ایک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا بین الاقوامی سمندری حدود (بحر الکاہل) میں تجربہ کیا ہے جس کے بعد جاپان سمیت دیگر ممالک نے اس پر احتجاج کیا ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’معمول‘ کا تجربہ تھا جس کا مقصد کسی دوسرے ملک کو ٹارگٹ کرنا نہیں تھا۔ چینی ذرائع ابلاغ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ یہ تجربہ کرنے سے قبل ’متعلقہ ممالک‘ کو متنبہ کیا گیا تھا۔ تاہم جاپان کی جانب سے بعدازاں کہا گیا کہ اسے اس میزائل تجربے کے بارے میں پہلے سے کوئی اطلاع نہیں دی گئی تھی۔ اسی طرح آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھی اسی نوعیت کی شکایت کی ہے۔
چینی وزارت دفاع کے مطابق ’معمول‘ کا یہ تجربہ سالانہ فوجی مشقوں کا حصہ تھا اور بیلسٹک میزائل متوقع طور پر سمندری علاقے میں جا کر گرا۔‘
اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ یہ کون سی قسم کا بین البراعظمی میزائل تھا اور یہ کس راستے سے ہوتا ہوا بحر الکاہل میں جا کر گرا۔
چین نے اس تجربے کا اعلان بدھ کی رات کرتے ہوئے کہا کہ طویل فاصلے تک مار کرنے والا میزائل مقامی وقت کے مطابق 08:44 بجے کیا اور اس میں ڈمی (فرضی) وارہیڈ نصب تھا، یہ میزائل پہلے سے طے شدہ مقام پر جا گرا۔ اس مقام کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ بحرالکاہل ہے۔
چین کی جانب سے کیا گیا یہ حالیہ تجربہ پورے انڈو-پیسفک خطے میں بڑھتے تناؤ کا عندیہ ہے جبکہ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ چین کی لانگ رینج جوہری صلاحیتوں میں اضافے کا مظہر ہے۔
چار دہائیوں بعد ہونے والا تجربہ اور جاپان کا نقصان کا دعویٰ
واضح رہے کہ عام طور پر چین جوہری ہتھیار لے جانے والے میزائلوں کا تجربہ مقامی سطح پر ہی کرتا ہے اور اس سے قبل ایک بین البراعظمی میزائل کا تجربہ شنکیانگ کے تکلاماکان صحرا میں کیا تھا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ سنہ 1980 کے بعد پہلی بار چین نے بین الاقوامی سمندری حدود میں بین البراعظمی میزائل کا تجربہ کیاہے۔
انڈاومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں جوہری ہتھیاروں کے ماہر انکت پانڈے نے ایکس پر لکھا کہ ’اگر میں کچھ بھول نہیں رہا تو میرے خیال میں بہت عرصے بعد ایسا ہوا ہے۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’چین کی جانب سے اسے معمول کی سالانہ مشق کا حصہ قرار دینا کافی عجیب ہے کیوں کہ وہ معمول کے مطابق یا سالانہ اس طرح کی چیز نہیں کرتے ہیں۔‘
دوسری جانب جاپان کی حکومت نے بدھ کے دن بیان جاری کیا کہ چین نے اس تجربے سے قبل اسے پیشگی اطلاع نہیں دی۔ حکومت کے ترجمان یوشیما ہایاشی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’چین کی جانب سے پیشگی اطلاع نہیں دی گئی۔‘ اس سے قبل جاپان کی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ اس کے چند بحری جہازوں کو نقصان بھی پہنچا ہے۔
جاپانی وزارت دفاع کا حوالہ دیتے ہوئے مقامی نیوز چینل ’این ایچ کے‘ نے خبر دی کہ جاپان ’چینی فوج کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات اکھٹا کرنے اور تجزیہ کرنے کا عمل جاری رکھیں گے اور ہر ممکن حفاظتی تدابیر اختیار کریں گے۔‘
چین نے یہ تجربہ کیوں کیا؟

ماضی میں چین نے ایسا تجربہ مئی 1980 میں کیا تھا جب ایک بین البراعظمی میزائل 9070 کلومیٹر طویل فاصلہ طے کرتے ہوئے بحر الکاہل میں جا گِرا تھا۔
اس تجربے کے وقت چین کے 18 بحری جہاز بھی اس مشق کا حصہ تھے اور اسے چین کی سب سے بڑی بحری مشقوں میں سے ایک مانا جاتا ہے۔
سنگاپور میں لی کوان ییو سکول آف پبلک پالیسی میں ریسرچ فیلو ڈریو تھامپسن نے ایکس پر لکھا کہ ’وقت سب کچھ ہے۔‘
انھوں نے لکھا ہے کہ ’چین نے دعویٰ کیا کہ اس تجربے کا مقصد کسی ملک کو نشانہ بنانا نہیں تھا، لیکن چین اور جاپان کے درمیان تناؤ کے علاوہ چین کی فلپائن کے ساتھ ساتھ تائیوان سے بھی چپقلش چل رہی ہے۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’یہ تجربہ ایک طاقتور سگنل ہے جس کا مقصد سب کو ڈرانا ہے۔‘
جان رج امریکی دفاعی تجزیہ کار ہیں جن کا ماننا ہے کہ ’چین ایسا تجربہ امریکہ کو پیغام دینے کے لیے کر سکتا ہے۔‘
واضح رہے کہ امریکہ اور چین کے باہمی تعلقات گذشہ ایک سال میں بہتر ہوئے یں تاہم خطے میں چین کی اپنے اثر ورسوخ کو وسعت دینے کی کوششوں کی وجہ سے تناؤ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔
خطے میں اس تناؤ کی ایک وجہ چین اور فلپائن کے بحری جہازوں کے درمیان متنازع پانیوں میں ٹکراؤ کے واقعات ہیں۔ دوسری جانب گذشتہ ماہ جاپان نے اس وقت لڑاکا طیاروں کو فضا میں بھیجا تھا جب اس نے چین کے جاسوس طیارے پر فضائی حدود کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا اور اسے ’ناقابل قبول‘ حرکت قرار دیا تھا۔
ساتھ ہی ساتھ چین کی جانب سے تائیوان پر دعوے خطے میں تناؤ کی ایک اور وجہ ہیں۔ تائیوان کی وزارت دفاع نے بدھ کے دن کہا تھا کہ ’چین شدت سے میزائل داغنے سمیت دیگر مشقیں منعقد کر رہا ہے‘ اور ساتھ ہی ساتھ ’23 چینی عسکری طیارے بھی تائیوان کے گرد طویل فاصلے کی مشقوں میں مصروف‘ دکھائی دیے جانے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔
چین معمول میں بحری جہاز اور لڑاکا طیارے تائیوان کے پانیوں اور فضائی حدود میں بھیجتا رہتا ہے جسے تجزیہ کار ’گرے زون وار فیئر‘ کی حکمت عملی کا نام دیتے ہیں جس کا مقصد ہوتا ہے کہ حریف ایسی دراندازی کو معمول سمجھنے لگے۔
رواں سال جولائی میں چین نے تائیوان کو اسلحہ کی فروخت کے ردعمل میں امریکہ سے جوہری اسلحہ سے متعلق مذاکرات معطل کر دیے تھے۔
گذشتہ سال شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پینٹاگون کا تخمینہ ہے کہ چین کے پاس 500 سے زیادہ فعال جوہری وار ہیڈز موجود ہیں جن میں سے 350 بین البراعظمی میزائل یا ’آئی سی بی ایم‘ ہیں۔
اس رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ چین کے پاس موجود وار ہیڈز کی تعداد 2030 تک ایک ہزار ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب امریکہ اور روس دونوں کے پاس پانچ، پانچ ہزار وار ہیڈز ہیں۔
’آئی سی بی ایم‘ میزائل ٹیکنالوجی کیا ہے؟

اسلام آباد کی ایئر یونیورسٹی میں ایروسپیس اینڈ سٹریٹجک سٹڈیز کے سربراہڈاکٹر عادل سلطان نے بی بی سی کو بتایا کہ آئی سی بی ایم ایسے میزائل ہوتے ہیں جن کی رینج بین البراعظمی ہوتی ہے یعنی یہ اس صلاحیت کا اظہار ہیں کہچین اس میزائل پر متعدد وار ہیڈز نصب کر کے امریکہ تک جوہری حملہ کر سکتا ہے۔
ان کے مطابق دنیا میں معاشی اور دفاعی طور پر مضبوط ممالک کے پاس یہ ٹیکنالوجی موجود ہے۔ ان کی رائے میں شمالی کوریا اپنی اس صلاحیت سے امریکہ کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتا ہے اور اس سے آگے وہ نہیں بڑھنے کا سوچ رہا۔ پاکستان کے پاس بھی میزائل ٹیکنالوجی ہے مگر اسلام آباد کا مؤقف یہ ہے کہ اس کا ہدف صرف انڈیا ہے اور وہ اس سے بڑھ کر طویل رینج کی میزائل ٹیکنالوجی میں کسی قسم کی دلچسپی نہیں رکھتا ہے۔
اُن کے مطابق انڈیا اپنا حریف چین کو کہتا ہے مگر ساتھ یہ دعویٰ بھی کرتا ہے کہ اس کے میزائل کی رینج دس ہزار کلومیٹر تک بنتی ہے جبکہ چین کے لیے اسے اتنے طویل رینج کے میزائل کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی۔
سینٹر فار انٹرنیشنل سٹریٹجک سٹڈیز کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ڈاکٹر عاصمہ شاکر خواجہ نے بی بی سی کو بتایا کہ چین کے اس میزائل تجربے کے عالمی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ان کے مطابق اس میزائل کی رینج امریکہ کی سرزمین تک ہے، جس کا مطلب ہے کہ چین یہ واضح پیغام دینا چاہتا ہے کہ اگر امریکہ نے اس کے محاصرے کی کوششوں کو ترک نہ کیا اور اس کے خلاف اتحاد بنائے اور خطرات پیدا کیے تو پھر چین کے پاس بھرپور جواب دینے کی صلاحیت موجود ہے۔
عادل سلطان کے مطابق اس وقت ہم ایک اور 2.0 سرد جنگ کے دور سے گزر رہے ہیں جہاں حریف ممالک کی ایک دوسرے کے ساتھ تجارت بھی ہے اور ساتھ ساتھ وہ ایک دوسرے کو ذہن میں رکھ کر اپنی سیاسی، معاشی اور دفاعی طاقت میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔
چین اورانڈیا اور چین اور امریکہ کے تجارتی حجم پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عاصمہ شاکر کہتی ہیں کہ امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی کے مفکرین کی جو ایک نئی ’تھیوری‘ سامنے آئی ہے اس سے یہ تو یہ بات پتا چلتی ہے کہ ایک دوسرے پر اس طرح کا انحصار جنگ کے امکانات کو کم کر دیتا ہے۔
تاہم ان کے مطابق اس طرح کے تجربات کا تعلق ’ڈیٹرینس‘ اور ’تھریٹ‘ پر ہوتا ہے۔
پاکستان کے دفاعی ماہرین چین کے اس تجربے کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر عاصمہ شاکر کی رائے میں امریکہ نے چین کے نزدیک ایئربیسز قائم کیے جس سے چین میں تفتیش کی لہر دوڑ گئی۔ ان کے مطابق اب وہ امریکہ کو یہ سگنل دینا چاہتا ہے کہ چین بھی اپنے دفاع کے لیے ہمہ تن تیار ہے۔ ان کے مطابق چین نے چونکہ چار دہائیوں تک اس میزائل کا تجربہ نہیں کیا تو عین ممکن ہے کہ اب وہ اپنی ٹیکنالوجی کی صلاحیت کو آزمانا چاہتا ہو۔
ان کے مطابق عالمی سیاست کی بنیاد ہی طاقت پر ہے تو یہ چین کی طرف سے یہ تجربہ اپنا سکہ جمانے، اپنی صلاحیت منوانے اور استعداد کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی عزائم کا بھی مظہر ہے۔ ڈاکٹر عادل سلطان کے مطابق چین کا ابتدا میں تو نیوکلئیر کی طرف زیادہ رجحان یا توجہ نہیں رہی ہے مگر اب ایک معاشی طاقت بننے کے بعد وہ اس طرف بھی اپنی توجہ مرکوز کر رہا ہے اور عالمی سیاست پر گہری نظر بھی رکھے ہوئے ہے کہ کیسے اس کے مفاد کے خلاف اتحاد بن رہے ہیں اور فوجی مشقیں جاری ہیں۔
عادل سلطان کے مطابق چین یہ پیغام دے رہا ہے کہ اگر اسے مجبور کیا گیا اور ایک طرف دھکیلا گیا تو پھر وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔ ان کے مطابق اگرچہ جنگ کے امکانات کم ہیں مگر تائیوان اس وقت چین کے لیے ریڈ لائن کی حیثیت رکھتا ہے۔
چین کے اس تجربے کا جنوبی ایشیائی طاقتوں کے لیے کیا مطلب ہے؟

ڈاکٹر عادل سلطان کے مطابق امریکہ ہمیشہ سے پاکستان پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ چین سے دوری اختیار کرے تاہم یہ پاکستان کے لیے ممکن نہیں ہے کیونکہ چین پاکستان کا پڑوسی ملک ہے اور دونوں کے ایک دوسرے کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کو مختلف صورتوں میں اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑ رہی ہے جسے پالیسی ساز خوب سمجھتے ہیں۔
ان کے مطابق دوسری طرف امریکہ نے انڈیا کے ساتھ تعاون اور امداد کا حجم بڑھا دیا ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس خطے میں نئی دہلی بیجنگ کے خلاف کھڑی ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق انڈیا کے امریکہ سے امداد اور قربت کے بھی پاکستان پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہو رہے ہیں۔
ڈاکٹر عاصمہ شاکر کا کہنا ہے کہ انڈیا نے اپنے اگنی 5 کا تجربہ بھی کیا ہے جو اس کا ایسا میزائل ہے جسے آئی بی سی ایم کہا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق اس تجربے سے پاکستان پر براہ راست اثر پڑا ہے اور اس سے پاکستان کے تحفظات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان کی رائے میں عالمی سطح پر بننے والے اتحادوں کی اہمیت تو ضرور ہوتی ہے مگر کوئی ملک کبھی کسی دوسرے ملک کے لیے میدان جنگ ممیں نہیں اترتا ہے۔