گہرے رنگ کی لِپ سٹک لگانے پر مبینہ طور پر خاتون سرکاری افسر کا تبادلہ: ’اگر لپ سٹک تبادلے کا سبب ہے تو یہ ظلم ہے‘

خواتین کے عالمی دن کے مقوع پر انڈیا کی ریاست چنئی میں ایک فیشن شو کے دوران گاڑھے رنگ کی لپ سٹک لگانے پر خاتون اہلکار کا تبادلہ ایک خاتون افسر نے ہی کیا۔

انڈیا کے شہر چنئی کے میونسپل کارپورپشن میں تعینات ایک خاتون اہلکار ایس بی مادھوی نے الزام عائد کیا ہے کہ کارپوریشن کی خاتون مئیر نے گہرے رنگ کی لپ سٹک لگانے کی وجہ سے اُن کا تبادلہ کر دیا ہے۔

مادھوی کا دعویٰ ہے کہ اُن کا تبادلہ اس لیے کیا گیا کیونکہ انھوں نے مبینہ طور پر لپ سٹک نہ لگانے کے حکم کو ماننے سے انکار کیا تھا اور اِس کے بارے سوالات کیے تھے۔ تاہم چنئی میونسپل کارپوریشن کی میئر پریا نے بی بی سی بات کرتے ہوئے مادھوی کے الزام کو مسترد کیا ہے۔

مادھوی نے میئر پریا راؤ کے سیکریڑی شیو شنکر کی طرف سے جاری کیے گئے ایک میمو کے جواب میں انھیں لکھا ہے کہ ’آپ نے مجھ سے کہا کہ میں لپ سٹک کا استعمال نہ کروں لیکن میں نے آپ کا حکم نہ مانتے ہوئے اِس کا استعمال کیا۔ اگر یہ جرم ہے تو مجھے کوئی سرکاری حکم نامہ دکھایا جائے کہ جس میں سرکاری ملازمین کو لپ سٹک لگانے سے روکا گیا ہو۔۔۔‘

اُن کے اس جواب کے کچھ ہی دیر بعد اُن کا چنئی کے میئر کے دفتر سے 70 کلومیٹر دور منالی نام کے ایک میونسپل زون میں تبادلہ کر دیا گیا۔

یاد رہے کہ شیو شنکر کی جانب سے مادھوی کو بھیجے گئے میمو میں لپ سٹک کا ذکر نہیں کیا تھا۔ اس میں مادھوی پر ’ڈیوٹی کرنے میں غفلت برتنے، کام کرنے کے اوقات میں دفتر نہ آنے اور سیںئر افسروں کے احکامات نہ ماننے‘ جیسے الزامات لگائے گئے ہیں۔

مادھوی نے اِس کے جواب میں اُن کو لکھا تھا کہ وہ اُن پر لگائے جانے والے اِن الزامات کا ثبوت پیش کریں۔

مادھوی کا کہنا ہے ’جس دن میئر کے دفتر سے انھیں میمو دیا گیا ہے وہ اُس دن کام پر 30 منٹ تاخیر سے پہنچی تھیں کیونکہ باتھ روم میں پھسل جانے سے اُن کے پیر میں چوٹ لگ گئی تھی اور مرہم پٹی کے لیے ہسپتال جانے کی وجہ سے آفس دس کے بجائے ساڑھے دس بجے پہنچی تھیں۔‘

تبادلے کے بعد وہ گذشتہ ایک مہینے سے اپنے نئے دفتر پہنچنے کے لیے روزانہ ستر کلومیٹر کا سفر کرتی ہیں۔ مادھوی کا کہنا ہے کہ ’اُن کا تبادلہ صرف اور صرف اس وجہ سے اتنی دور کیا گیا ہے کیونکہ انھوں نے انتظامیہ سے سوال کرنے کی ہمت کی تھی۔‘

چنئی میونسپل کارپوریشن کی میئر پریا نے بی بی سی بات کرتے ہوئے مادھوی کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ پریا نے کہا کہ ’انھیں دفتر ہمیشہ دیر سے پہنچنے اور بار بار کی وارننگ کے باوجود اس پر عمل نہ کرنے کے سبب یہاں سے ٹرانسفر کیا گیا ہے۔‘

50 سالہ مادھوی چنئی میونسپل کارپوریشن میں گذشتہ 15 برس سے ملازم تھیں۔ دو برس قبل مادھوی کو دفعہ دار یا فرسٹ سیکریٹری کے عہدے پر اُس وقت مقرر کیا گیا جب پریا مئیر کے عہدے کے لیے منتخب ہوئی تھیں۔

میئر نے کہا تھا کہ وہ دفعہ دار کے عہدے پر ایک خاتون کو مقرر کرنا چاہتی ہیں۔ چنئی میونسپل کارپوریشن ’ریپن ہاؤس‘ نام کی عمارت میں واقع ہے۔ مادھوی نے بی بی سی کو بتایا کہ 8 مارچ کو یومِ خواتین کے موقع پر ریپن ہاؤس میںایک ’فیشن شو‘ کا اہتمام کیا گیا تھا اور اِسی پروگرام کے بعد لپ سٹک لگانا ایک مسئلہ بن کر سامنے آیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہر سال یومِ خواتین کے موقع پر فیشن شو کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ خواتین اس میں سٹیج پر ’کیٹ واک‘ کرتی ہیں۔ تاہم اس مرتبہ ہونے والے اس فیشن شو کی مہمانِ خصوصی مئیر تھیں۔‘

’فیشن شو کے دوران جب میں نے کیٹ واک کی تو پریا پروگرام کے بیچ میں ہی اٹھ کر وہاں سے چلی گئيں۔ اس کے بعد انھوں نے مجھے اکیلے میں بلایا اور مجھ سے پوچھا کہ میں نے کیٹ واک کیوں کی اور پھر کچھ نہیں کہا۔‘

مادھوی کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد کئی دنوں تک میئر کے ذاتی معاون شیو شنکر نے دفتر میں سبھی لپ سٹک لگانے والی خواتین کو فون کر کے انھیں وارننگ دی کہ وہ دفتر میں گہرے رنگ کی لپ سٹک لگا کر آنے سے باز رہیں۔

مادھوی کا کہنا ہے کہ ’میرے جسم پر صرف میرا اختیار ہے۔ ہاں اگر میں اپنا کام اچھی طرح نہیں کر رہی تو میرے خلاف کارروائی کی جائے تو میں اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کروں گی اور انتظامیہ کی جانب سے ملنے والے احکامات پر عمل کروں گی۔‘

مئیر کی جانب سے موصول ہونے والے خط کے جواب میں مادھوی نے سوال کیا کہ ’ایک عورت کیا پہنے گی؟ یا وہ (مئیر) کون ہیں یہ بتانے والی کہ مجھے کس رنگ کی لپ سٹک لگانی ہے۔‘

ان کے مطابق اُسی روز ان کا تبادلہ 70 کلو میٹر دور ایک دوسرے آفس میں کر دیا گیا۔ انھیں اتنی دور منتقل کیے جانے کے سوال پر بھی تنازع پیدا ہو گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر اس خبر کے پھیلتے ہی بہت سے لوگوں نے اس واقعے پر تبصرہ کیا ہے۔

ڈاکٹر مارٹن نامی ایک صارف نے مغیر پریا راجن کو ٹیگ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’اگر لپ سٹک تبادلے کا سبب ہے تو یہ ظلم ہے۔ آپ نے مئیر کے عہدے، انسانی مساوات اور ڈی ایم کے سماجی انصاف کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے۔ بہتر ہو گا کہ آپ مستعفی ہو جائیں۔‘

آدی نام کے ایک اور صارف نے حکمراں ڈی ایم پر طنز کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’یہ اس حکومت کا گورننس ماڈل ہے جس میں یومِ خواتین کے موقع پر ایک خاتون دوسری سے صرف اس وجہ سے خوفزدہ دکھائی دیتی ہیں کہ انھوں نے لپ سٹک لگا رکھی ہے اور نہ صرف یہ بلکہ اسی وجہ سے انھیں سزا کے طور پر 70 کلومیٹر دور بھیج دیا گیا ہے۔‘

ناگراجن کرشنا نے اپنے ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’میئر پریا کو لگا کہ دفعہ دار (مادھوی) اُن کے لیے مسابقت پیدا کر سکتی ہیں۔ اگر انھوں نے انھیں دوسرے زون میں بھیج دیا ہے تو مئیر کا بھی کسی اور زون میں تبادلہ کر دینا چاہیے یا انھیں مستعٰفی ہو جانا چاہیے۔‘

اسی بارے میں


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US