حالیہ عرصے میں انڈیا اپنے بہت سے پڑوسیوں کے ساتھ تنازعات کی زد میں رہا ہے۔ جیسے مالدیپ کے صدر محمد معیزو نے ’انڈیا آؤٹ‘ کے نعرے پر الیکشن جیتا تھا۔ بعض مبصرین کی رائے ہے کہ انڈیا کو اس امید میں نہیں رہنا چاہیے کہ ’پڑوسی ممالک کی حکومتیں ہمیشہ اس کی خارجہ پالیسی سے متفق ہوں گی۔‘
بنگلہ دیش، سری لنکا اور مالدیپ کے سربراہان حکومت (محمد یونس، ڈسانائیکے، محمد معیزو)انڈیا نے پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف کے کشمیر پر دیے گئے بیان کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے جواب دیا ہے۔ اس سے قبل ایران کے رہبر اعلی علی خامنہ ای کے کشمیر سے متعلق بیان کی بھی سخت الفاظ میں مذمت کی گئی تھی۔
ایسے میں جہاں انڈیا کی خارجہ پالیسی کا بدلتا رُخ نظر آ رہا ہے وہیں بہت سے ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا نے 'نیبر ہُڈ فرسٹ' کی بات تو کہی ہے لیکن اپنی اس پالیسی پر زیادہ کام نہیں کیا ہے۔
چنانچہ اگر دیکھا جائے تو جہاں چین اور پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات ایک عرصے سے کشیدہ رہے ہیں وہیں اس کے تعلقات نیپال سے بھی متزلزل نظر آئے ہیں۔ مالدیپ اور سری لنکا میں بھی تبدیلی کے رجحان نظر آ رہے ہیں جبکہ بنگلہ دیش، جو سب سے قریبی اتحادی تھا، کی صورتحال اچانک اور یکسر بدل گئی ہے۔
بنگلہ دیش کی حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس نے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کی ہے۔
جو بائیڈن کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک پریس نوٹ میں دونوں رہنماؤں کے درمیان پائی جانے والی گرمجوشی کو اجاگر کیا گیا ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ اسے بنگلہ دیش کی تعمیر نو کے لیے 'مزید کوششیں' کرنا ہوں گی۔
اگست میں ہونے والے مظاہروں کے بعد بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کو ملک چھوڑ کر انڈیا آنا پڑا۔ اس کے بعد بنگلہ دیش میں ایک عبوری حکومت وجود میں آئی ہے۔
محمد یونس اس حکومت کے سربراہ ہیں۔ نیویارک میں یونس اور بائیڈن کے درمیان گرمجوشی نریندر مودی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث ہو سکتی ہے۔
مودی حکومت بدلے ہوئے حالات میں بنگلہ دیش کی نئی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
بنگلہ دیش انڈیا کے ان پڑوسی ممالک میں سے ایک ہے جہاں حالیہ برسوں میں اقتدار میں تبدیلیاں آئی ہیں۔ پڑوسی ممالک میں اقتدار کی ان تبدیلیوں کی وجہ سے ان کے ساتھ انڈیا کے تعلقات غیر مستحکم ہو گئے ہیں۔
گذشتہ ہفتے سری لنکا نے بائیں بازو کے نظریات کی جانب جھکاؤ رکھنے والی انورا کمارا ڈسانائیکے کو صدر منتخب کیا۔ سنہ 2023 میں نیپال، سنہ 2021 میں میانمار، 2023 میں مالدیپ اور 2021 میں افغانستان میں بھی اقتدار کی تبدیلی ہوئی ہے۔
دوسری جانب ایک عرصے سے چین اور پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات کشیدہ ہیں۔
نریندر مودی کے سنہ 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد ان کی حکومت نے 'پڑوسی پہلے' کی پالیسی شروع کی تھی۔ اس پالیسی کا مقصد پڑوسی ممالک کے ساتھ انڈیا کے تعلقات کو بہتر بنانا تھا۔
انڈیا کے پڑوس میں حالیہ حکومتی تبدیلیاں انڈیا کی نئی پالیسی کے اثرات کا جانچ ثابت ہوئی ہیں۔
مالدیپ کے صدر محمد معیزو نے ’انڈیا آؤٹ‘ کے نعرے سے انتخابی کامیابی حاصل کی تھی لیکن اب ان کے موقف میں تبدیلی نظر آ رہی ہےپڑوسیوں کے ساتھ تعلقات میں تنازعات
حالیہ دنوں میں انڈیا کے اپنے بہت سے پڑوسیوں کے ساتھ تنازعات سامنے آئے ہیں۔ مالدیپ کے منتخب ہونے والے صدر محمد معیزو نے ’انڈیا آؤٹ‘ کے نعرے پر الیکشن جیتا تھا۔
اس کے بعد معیزو نے کئی دہائیوں سے چلی آ رہی مالدیپ کی روایت کو بھی توڑا۔ اس روایت کے تحت مالدیپ میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ہر صدر نے پہلے انڈیا کا دورہ کیا تھا لیکن معیزو نے اپنے پہلے دورے کے لیے ترکی کا انتخاب کیا۔
روں سال کے شروع میں چین کے دورے کے بعد، معیزو نے انڈیا سے کہا کہ وہ مالدیپ میں موجود انڈین فوجیوں کو واپس بلائے۔
انڈیا نے اس کی درخواست مان لی اور اپنی فوجیں واپس بلا لیں۔ لیکن جولائی میں محمد معیزو کے رویے میں ہلکی سی تبدیلی دیکھی گئی۔
اور انھوں نے انڈیا کو اپنا 'قریبی اتحادی' قرار دیتے ہوئے معاشی مدد مانگی۔
اسی طرح سنہ 2020 میں انڈیا اور نیپال کے تعلقات میں بھی تلخی آئی تھی۔ اس وقت نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی نے کہا تھا کہ انڈیا، نیپال کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔
لیکن سنہ 2024 میں جب اولی ایک بار پھر نیپال کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں تو اب یہ دیکھا جا رہا ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات آہستہ آہستہ استوار ہو رہے ہیں۔
اولی اور مودی نے گذشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے دوران دو طرفہ بات چیت کی تھی۔ دونوں ممالک نے اس بات چیت کو مثبت قرار دیا ہے۔
پی ایم مودی نے کہا ہے کہ انڈیا اور نیپال کے درمیان تعلقات بہت مضبوط ہیں اور وہ ان تعلقات کو مزید رفتار دینے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
انڈیا نے تاحال طالبان کو افغانستان کی جائز حکومت تسلیم نہیں کیا ہے۔ تاہم انڈیا ان 15 ممالک کی فہرست میں شامل ہے جن کی افغانستان میں سفارتی موجودگی ہے۔
محمد یونس کے اقتدار میں آنے کے بعد انڈیا بیک فٹ پر تھا۔ شیخ حسینہ کی حکومت کے ساتھ انڈیا کے بہت اچھے تعلقات تھے۔
لیکن جب بنگلہ دیش میں حسینہ کے خلاف مظاہرے شروع ہوئے تو وہاں کے لوگ انڈیا کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔
پی ایم مودی اور یونس دونوں نے مل کر کام کرنے کی خواہش ظاہر کی ہے لیکن اس کی سمت کیا ہوگی فی الحال یہ طے نہیں ہے۔
بنگلہ دیش میں سیخ حسینہ کو اس وقت ملک چھوڑنا پڑا جب عوام نے ان کے خلاف بغاوت کر دینیبرہڈ فرسٹ پالیسی کتنی موثر ہے؟
کئی ماہرین کا خیال ہے کہ امریکہ اور روس جیسے بڑے ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے انڈیا نے اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو ترجیح نہیں دی۔
انگریزی روزنامے 'دی ہندو' کی سینیئر صحافی اور سفارتی ایڈیٹر سوہاسینی حیدر کہتی ہیں: ’اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات انڈیا کے لیے کبھی بھی آسان نہیں رہے۔ گذشتہ 10 سالوں میں حکومت نے نیبر ہڈ فرسٹ کی بات کی لیکن اس پر کوئی عمل نہیں ہوا۔
’اس لیے انڈیا کو یہ امید نہیں رکھنی چاہیے کہ یہ ممالک اس کے بارے میں اچھا محسوس کریں گے۔'
سوہاسنی حیدر نے مزید کہا: ’انڈیا کو اس امید میں نہیں رہنا چاہیے کہ پڑوسی ممالک کی حکومتیں ہمیشہ اس کی خارجہ پالیسی سے متفق ہوں گی۔ انڈیا اپنی خارجہ پالیسی کو پڑوسیوں پر مسلط نہیں کر سکتا۔ حکومت اپنے مسلسل بدلتے پڑوس سے یہ سبق سیکھ رہی ہے۔'
لیکن وینا سیکری، جو بنگلہ دیش میں ہندوستان کی ہائی کمشنر تھیں، کہتی ہیں کہ ملک کی 'پڑوسی پہلے' کی پالیسی کافی فعال ہے۔
وینا سیکری کہتی ہیں: ’یہ پالیسی بہت ہی جوابدہ اور لچکدار ہے۔ ہم (انڈیا) کسی بھی صورت حال کو ایڈجسٹ کر سکتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال یہ ہے کہ انڈیا نے مالدیپ میں معیزو کی 'انڈیا آؤٹ' پالیسی سے کیسے نمٹا۔ آہستہ آہستہ رشتہ درست ہوتا گیا۔
'جب سری لنکا کو ایک بڑے معاشی بحران کا سامنا تھا تو انڈیا نے مالی مدد فراہم کی تھی۔ بنگلہ دیش میں بھی انڈین حکومت نے کہا ہے کہ وہ عبوری حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتی ہے۔'
انھوں نے کہا: ’یہ نیبر ہڈ فرسٹ پالیسی کے تیار اور پختہ ہونے کی بڑی علامت ہے، اس کا گذشتہ چند سالوں میں تجربہ کیا گیا ہے اور اس نے اس امتحان کو پاس کیا ہے۔‘
ڈسانائیکے حال ہی میں سری لنکا کے نئے صدر منتخب ہوئے ہیںملکی پالیسی اور جمہوریت
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ انڈیا کے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کئی وجوہات کی وجہ سے متاثر ہوتے ہیں۔ ان میں ان ممالک میں ہونے والی اندرونی تبدیلیاں اور ان کی جمہوریت شامل ہے۔
دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پروفیسر سوورن سنگھ کہتے ہیں: ’اس میں کوئی شک نہیں کہ ان ممالک میں اقتدار کی تبدیلی نے انڈیا کی خارجہ پالیسی کے چیلنجوں میں اضافہ کیا ہے۔
'لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ان تبدیلیوں کی وجہ انڈیا نہیں۔ پڑوسی ممالک میں تبدیلی کی وجہ ان کی ملکی پالیسیاں ہیں۔'
سوورن سنگھ کہتے ہیں کہ امریکہ کے صرف دو بڑے پڑوسی ہیں: میکسیکو اور کینیڈا۔ لیکن پاکستان کے علاوہ انڈیا کئی چھوٹے ممالک سے گھرا ہوا ہے۔
سوورن سنگھ کہتے ہیں: 'اس سے 'سمال سٹیٹ سنڈروم' کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ اس میں پڑوسیوں کو لگتا ہے کہ انڈیا انھیں آنکھیں دکھا رہا ہے۔ جیسے جیسے ان چھوٹے ممالک میں جمہوریت مضبوط ہوگی، وہ انڈیا کے سامنے مضبوطی سے کھڑے ہوں گے۔ ان ممالک کی شناخت کا حصہ بنیں۔'
مثال کے طور پر بھوٹان اور انڈیا کے درمیان تعلقات ہمیشہ بہترین رہے ہیں لیکن جب وہاں انتخابات ہوتے ہیں تو انڈیا مخالف نعرے لگائے جاتے ہیں۔
نیپال، بنگلہ دیش اور مالدیپ جیسے تمام چھوٹے ممالک نے چین اور انڈیا دونوں سے 'برابر فاصلے' کی پالیسی اپنائی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ان تمام ممالک کو ان دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کے لیے جس توازن کو برقرار رکھنا ضروری ہے وہ اکثر انھیں قرض، خوراک اور پانی جیسے بنیادی وسائل کی کمی جیسے مشکل حالات میں دھکیل دیتا ہے۔
لیکن توازن کی یہ کوشش ان چھوٹے ممالک کو انڈیا اور چین کے ساتھ سودے بازی کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔
انڈیا اپنے کسی بھی پڑوسی ملک کی گھریلو تبدیلیوں پر اثر انداز نہیں ہو سکتا لیکن بنگلہ دیش جیسے کچھ معاملات میں انڈیا میں دور اندیشی کا فقدان نظر آیا ہے۔
سوہاسینی حیدر کہتی ہیں: ’پڑوس میں حکومت کی ناموافق تبدیلیاں ظاہر کرتی ہیں کہ مودی حکومت صرف دو طرفہ بات چیت کے ذریعے علاقائی جغرافیائی سیاست میں تبدیلیاں نہیں لا سکتی۔
'انڈیا امریکہ جیسے عالمی کھلاڑیوں سے بات کرتا رہتا ہے لیکن اسے اپنے پڑوس پر بھی توجہ دینی چاہیے۔'
بنگلہ دیش میں صورتحال خاصی سنگین تھی کیونکہ انڈیا کے ہائی کمیشن کے علاوہ ملک میں چار قونصل خانے بھی ہیں۔ اس کے باوجود انڈیا وہاں کے حالات کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکا۔
سوہاسینی حیدر کے مطابق: ’بنگلہ دیش میں، انڈیا صرف ایک فریق سے رابطے میں رہا اور ملک کے اندر کی مخالفت کو نظر انداز کیا گیا۔ اب انڈیا اس غلطی کی قیمت ادا کر رہا ہے۔'
مز حیدر کا کہنا ہے کہ اس کے برعکس انڈیا نے سری لنکا کے سیاسی حالات کو بہتر طریقے سے سنبھالا کیونکہ پی ایم مودی نے صدر بننے سے پہلے ہی انورا ڈسانائیکے کو انڈیا آنے کی دعوت دی تھی۔
وہ کہتی ہیں: 'لیکن کئی پڑوسی ممالک میں انڈیا کے پروجیکٹ بھی ہیں، جیسے سری لنکا میں اڈانی کا پروجیکٹ۔ انڈیا کو سمجھنا ہوگا کہ اگر وہ اس طرح کے منصوبے کی حمایت کرتا ہے تو اس کے اپنے نتائج ہوں گے۔'
اسی طرح انڈیا کا ایران اور افغانستان میں بھی پروجیکٹ ہے اور سب انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
بنگلہ دیش کی نئی حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونسآگے کا راستہ
مبصرین کا کہنا ہے کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے انڈیا کو بہت صبر کرنا ہو گا۔
وینا سیکری کہتی ہیں: ’میں کہوں گی کہ پڑوسی ممالک کے ساتھ انڈیا کے تعلقات مثبت ہیں اور ہماری خارجہ پالیسی کسی بھی صورت حال میں ان سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔'
انھوں نے مزید کہا: 'دنیا بھر میں حکومتیں بدلتی رہتی ہیں لیکن ہمیں ایسا جواب دینا ہوگا جس سے انڈیا کی ساکھ بچی رہے۔ ہماری خارجہ پالیسی کو ان تبدیلیوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔'
سوہاسینی حیدر کا کہنا ہے کہ انڈیا کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ انڈیا کی گھریلو پالیسیاں پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بھی متاثر کرتی ہیں۔
وہ کہتی ہیں: 'انڈیا کو پڑوس میں ایک رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے – خیالات اور خواہشات کی رہنمائی کرنے والے ملک کے طور پر۔ لہذا، سی اے اے (شہریت کا متنازع قانون) جیسی انڈیا کی پالیسیاں اس کے پڑوسیوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔
'جب سی اے اے کا اعلان کیا گیا تو بنگلہ دیش میں بھی مظاہرے ہوئے۔ اگرچہ شیخ حسینہ کی حکومت نے سی اے اے کو قبول کر لیا، لیکن اس سے انڈیا کی شبیہ متاثر ہوئی کیونکہ بنگلہ دیش کے لوگوں میں سی اے اے کی مخالفت تھی۔'
انھوں نے مزید کہا: 'صرف اقتدار میں رہنے والوں سے رابطے میں رہنا کافی نہیں، ہمیں ان ممالک کے عام لوگوں کے دل بھی جیتنے ہوں گے۔'
پروفیسر سوورن سنگھ کے مطابق بنیادی منتر صبر ہے۔
وہ کہتے ہیں: 'انڈیا نے نیپال میں اولی اور بنگلہ دیش میں یونس کے معاملے میں بہت صبر کا مظاہرہ کیا ہے۔ انڈیا نے ہنگامہ خیز حالات میں بھی تحمل سے کام لیا ہے۔ انڈیا جانتا ہے کہ پڑوسیوں کے ساتھ اس کے خراب تعلقات اسے نقصان پہنچا سکتے ہیں کیونکہ ایسی صورت حال میں چین کو اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا موقع مل جاتا ہے۔'