سنہ 1949 میں جنگ سے تباہ حال چین غربت کی چکی میں پس رہا تھا۔ لیکن آج کمیونسٹ نظریات رکھنے والوں کی فتح کے 75 سال بعد یہ ملک ایک بڑی عالمی طاقت ہے۔ لیکن چین کا ’معاشی معجزہ‘ کیسے ہوا؟

سنہ 1949 میں جب ماؤ زے تنگ اقتدار میں آئے تو جنگ سے تباہ حال چین غربت کی چکی میں پس رہا تھا۔ لیکن آج کمیونسٹ نظریات رکھنے والوں کی فتح کے 75 سال بعد یہ ملک یکسر مختلف تصویر پیش کر رہا ہے: چین اس وقت ایک بڑی عالمی طاقت ہے اور دنیا کی سرکردہ معیشت بننے کے راستے پر گامزن ہے۔
لیکن چین کا ’معاشی معجزہ‘ جو تاریخ میں ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے کیسے ہوا؟
یہ ماؤزے تنگ کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک اور کمیونسٹ رہنما ڈینگ ژیاؤپنگ کی طرف سے فروغ دی گئی مہم کی وجہ سے ممکن ہو سکا۔
اس مہم کو ’اصلاح اور افتتاح‘ کا نام دیا گیا تھا اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہ پروگرام 740 ملین لوگوں کو غربت سے نکالنے میں کامیاب ہوا۔
’چینی خصوصیات کے حامل سوشلزم‘ کے نظریے کے تحت ڈینگ نے چین کے پرانے نظام کو الوداع کہا اور اقتصادی اصلاحات کے ایک نئے سلسلے کو فروغ دیا، جس میں زراعت، نجی شعبے کح خودمختاری، صنعتی جدت اور چین کو تجارت کا عالمی مرکز بنانے پر توجہ دی گئی۔
اس راستے نے ملک کو ماؤزے تنگ کے کمیونزم سے باہر نکال دیا۔ چینی صدر شی جن پنگ نے اس عمل کو ماضی کی ’زنجیروں کو توڑنے‘ سے تعبیر کیا ہے۔
چین میں صحیح معنوں میں تبدیلی کا آغاز سنہ 1978 میں ہواایک غریب ملک
چین میں صحیح معنوں میں تبدیلی کا آغاز سنہ 1978 میں ہوا۔
اس وقت چین اس ملک سے بہت مختلف تھا جس کی معیشت کا آج اکثر امریکہ یا یورپی یونین سے موازنہ کیا جاتا ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ ایک غریب ملک تھا جس کے 800 ملین سے زیادہ شہریوں کے لیے 150 بلین امریکی ڈالر کی مجموعی قومی پیداوار تھی۔ اب اگر اس کا موازنہ سنہ 2022 میں 18 ٹریلین امریکی ڈالر کی مجموعی قومی پیداوار سے کیا جائے تو اس تبدیلی کو سمجھا جا سکتا ہے۔
عوامی جمہوریہ چین کے بانی ماؤ زے تنگ 1976 میں فوت ہوئے اور ایک متنازع میراث چھوڑ گئے تھے۔
ان کے بڑے منصوبوں میں 1958 سے 1962 تک کا چار برس کا پروگرام ’گریٹ لیپ فارورڈ‘ بھی شامل تھا، جس کا مقصد تو ملک کی زرعی معیشت کو تبدیل کرنا تھا لیکن اس کی وجہ سے قحط پڑا جس میں کم از کم 10 ملین یا ایک کروڑ افراد ہلاک ہوئے جبکہ آزاد ذرائع کے مطابق یہ تعداد 45 ملین تک بنتی ہے۔
اس کے علاوہ 1966 تا 1976 تک کا ثقافتی انقلاب جو ماؤ کی ’سرمایہ داری‘ کے حامیوں کے خلاف ایک مہم تھی اس میں مختلف ذرائع کے مطابق لاکھوں افراد ہلاک ہوئے اور معیشت مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔
غربت اور بھوک کی اسی صورت حال میں چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی یعنی سی سی پی کے اس وقت کے جنرل سیکریٹری ڈینگ ژیاؤ پنگ نے نظام کی تبدیلی کی ایک تجویز پیش کی۔

نیا فارمولا
ڈینگ نے نام نہاد ’چار جدید کاری‘ کے پروگرام اور ایک ایسی معیشت کا انتخاب کیا جس میں مارکیٹ کا کردار زیادہ تھا۔ ان کے اس پروگرام کی 18 دسمبر 1978 کو سی سی پی کی مرکزی کمیٹی نے توثیق کی اور اقتصادی جدید کاری کو بنیادی ترجیح پر رکھا۔
اگلے برسوں میں ایسی تبدیلیاں عمل میں لائی گئیں جو اس وقت خواہشات پر مبنی لگ رہی تھیں مگر پارٹی کے انتہائی قدامت پسند طبقے کی مخالفت کے باوجود اس نئے پلان پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا۔
اب زرعی شعبے کی مثال لے لیں جہاں دیہی معیشت کے ماؤ کے نظام کو بتدریج ترک کر دیا گیا اور اس کے تحت پھر پیداواری صلاحیت کو بڑھانا ممکن ہو سکا اور ملک کے علاقوں کو غربت سے نکالنے کے علاوہ مزدوروں کی شہروں کی طرف نقل مکانی کی حوصلہ افزائی بھی اسی کے تحت ہوئی۔
عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سے پہلی بار ملک کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے بھی کھول دیا گیا۔
خصوصی اقتصادی زونز بنائے گئے جیسا کہ شینزین شہر، جس میں ایک ناقابل یقین تبدیلی آئی اور آج اسے اکثر ’چینی سلیکون ویلی‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
اس نئی پالیسی کے بعد پھر بیرونی دنیا نے چین کی پیداواری صلاحیت اور نئے انتظامی طریقوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔
ان تبدیلیوں نے ایک طویل عمل کے بعد بالآخر چین کو سنہ 2001 میں عالمی تجارتی تنظیم کا حصہ بنا دیا۔ یوں چین گلوبلائزیشن کی طرف بڑھا جس سے اسے معاشی عروج حاصل کرنے میں بہت مدد ملی۔
سنہ 2008 میں جب عالمی مالیاتی بحران شروع ہوا اور مغرب نے نئی منڈیوں کی تلاش شروع کی تو ایسے میں چین سب کا انتخاب بن گیا اور یوں یہ دنیا بھر کی فیکٹری میں تبدیل ہوا۔

تاہم اپنے معاشی عروج کے بعد بیجنگ اس لیبل کو ختم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے: اب وہ مینوفیکچرنگ سے بڑھ کر ایک ایسا ملک بننا چاہتا ہے کہ جو نئی تخلیق کرے اور دنیا میں حکمرانی کرے۔
ایسے بہت سے اشارے ملے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ چین پہلے سے ہی اس رستے پر چل رہا ہے۔
ایم ڈی ایس ٹرانسموڈل، جو کہ ایک ٹرانسپورٹ اکنامکس کنسلٹنسی فرم ہے، کے مطابق ملائیشیا اور بنگلا دیش اب گارمنٹس بنانے والے بڑے ممالک بن گئے ہیں جبکہ یہی کام 15 برس پہلے چین میں ہو رہا تھا۔ ویتنام نے بھی سنہ 2014 کے بعد تجارتی مینوفیکچرنگ میں بڑا نام پیدا کیا ہے۔

فضائی آلودگی اور عدم مساوات جیسے چیلنجز
اقتصادی کامیابی کے باوجود اصلاحات کے سبب چین میں منفی نتائج بھی سامنے آئے۔ جن میں اس کے بیشتر شہروں میں سنگین فضائی آلودگی اور ملک میں عدم مساوات میں بڑا اضافہ شامل ہیں۔
تاہم فضائی آلودگی اب بہت سے شہروں میں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ شکاگو یونیورسٹی میں انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق چین نے سنہ 2013 اور سنہ 2020 کے درمیان ہوا میں نقصان دہ ذرات کی مقدار میں 40 فیصد کمی کی ہے۔
مختلف ذرائع بتاتے ہیں کہ عدم مساوات جو 2000 کی دہائی میں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی، گذشتہ دہائی کے دوران اس میں بھی نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
لیکن بہت سی تبدیلیوں کے باوجود جو چیز برقرار ہے وہ ایک سیاسی نظام ہے، جس پر دنیا کے مختلف حصوں میں کثرت سے تنقید کی جاتی ہے۔
اور پچھلی دہائیوں سے ملک میں ایک جماعتی نظام حکومت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
ناقدین اس بات کی مذمت کرتے ہیں کہ انسانی حقوق کا ’جبر‘ بڑھ رہا ہے اور موجودہ صدر شی جن پنگ زیادہ طاقت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور آزادیوں پر پابندی بھی عائد کیے جا رہے ہیں۔
گذشتہ سال ستمبر میں چین کے قیام کی 74 ویں سالگرہ کے موقع پر صدر شی نے یقین دلایا تھا کہ چین کا مستقبل ’روشن‘ ہے اور اس بات پر روشنی ڈالی کہ کس طرح ملک ’تمام پہلوؤں‘ سےغربت سے خوشحالی کی طرف گامزن ہے۔
یہ تقریر بیجنگ کے ’ہال آف دی پیپل‘ سے کی گئی تھی، جہاں فوج نے سیاسی اصلاحات کے حق میں مظاہروں کو زبردستی ختم کر دیا تھا اور اس دوران ہلاکتوں کی تعداد ابھی تک غیر واضح ہے۔