13 نومبر 2005 کو 389 قیدی، جن میں سے اکثریت باغیوں کی تھی، جہان آباد کی اس جیل سے فرار ہو گئے۔ یہ انڈیا یا شاید ایشیا میں جیل بریک یعنی جیل سے فرار ہونے کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔
نومبر 2005 کی شام تھی جب انڈیا کے بہار شہر کے ایک صحافی کی فون کی گھنٹی بجی۔ یہ فون ایک قیدی نے کیا تھا۔
فون پر لرزتی ہوئی آواز میں اس قیدی نے بتایا کہ ’ماؤ نواز عسکریت پسندوں نے ایک جیل پر حملہ کر دیا ہے۔ لوگوں کو قتل کیا جا رہا ہے۔ میں ایک ٹوائلٹ میں چھپا ہوا ہوں۔‘ فون پر گولیوں کی گھن گرج بھی سنائی دے رہی تھی۔
وہ قیدی جہان آباد کی ایک جیل سے فون کر رہے تھے۔ یہ غربت میں پسا ہوا ایک ایسا انڈین ضلع ہے جو بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے انتہا پسندوں کا گڑھ ہے۔
نوآبادیاتی دور میں سرخ رنگ کی اینٹوں کی یہ پرانی تعمیر کی گئی جیل میں قیدیوں کی تعداد گنجائش سے کہیں زیادہ ہے۔ اس جیل کا کل رقبہ تقریباً ایک ایکڑ بنتا ہے جس میں 13 بیرکیں ہیں۔ سرکاری رپورٹس میں اس جیل کے کمروں کے لیے ’تاریک اور گندے‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
اس جیل میں 230 قیدیوں کی گنجائش ہے مگر یہاں 800 تک قیدی رکھے گئے ہیں۔
1960 کی دہائی کے آخر میں ماؤ نواز بائیں بازو کی شدت پسند تحریک مغربی بنگال کے نکسل باڑی سے شروع ہوئی جو پھر بہار سمیت انڈیا کے بڑے حصے تک پھیل گئی۔
تقریباً 60 برس سے نیکسلائٹ نام سے مشہور کمیونسٹ گوریلا جنگجوؤں نے انڈین ریاست کے خلاف لڑائی لڑی ہے اور اس پرتشدد تحریک میں کم از کم 40 ہزار لوگ مارے جا چکے ہیں۔
جہان آباد کی یہ جیل اس دور میں بہت پُرخطر ہوا کرتی تھی۔ اس میں ماؤ نوازوں کے علاوہ اونچی ذات سے تعلق رکھنے والے ان کے حریف ہندو بھی قید تھے۔
ان گروہوں کو ایک دوسرے پر ظلم ڈھانے کی پاداش میں مقدمات کا سامنا تھا۔ کئی انڈین (اور پاکستانی) جیلوں کی طرح اس جیل میں بھی کچھ قیدیوں نے محافظوں کو رشوت دے کر موبائل تک رسائی حاصل کر لی۔
اس وقت 659 قیدیوں میں سے ایک نے صحافی کو فون پر بتایا کہ ’یہ جیل باغیوں سے کچھا کھچ بھری ہوئی ہے۔ ان میں سے اکثر باہر نکل رہے ہیں۔‘
13 نومبر 2005 کو 389 قیدی، جن میں سے اکثریت باغیوں کی تھی، جہان آباد کی اس جیل سے فرار ہو گئے۔ یہ انڈیا یا شاید ایشیا میں جیل بریک یعنی جیل سے فرار ہونے کا سب سے بڑا واقعہ تھا۔
اس جیل میں فائرنگ کے دوران کم از کم دو ہلاکتیں بھی ہوئیں۔ افراتفری کے دوران پولیس کی ایک رائفل بھی لوٹ لی گئی۔ امریکہ کے دفتر خارجہ کی دہشتگردی کے موضوع پر 2005 کی ایک رپورٹ کے مطابق اس حملے میں باغیوں نے ماؤ نواز مخالف 30 قیدیوں کو اغوا بھی کیا۔
کہانی میں ایک دلچسپ موڑ اس وقت آیا جب پولیس نے کہا کہ اس جیل بریک کے ماسٹر مائنڈ دراصل باغی رہنما اجے کانو تھے جور اس وقت خود بھی اس جیل میں قید تھے۔
اس جیل میں سکیورٹی کا یہ حال تھا کہ جیل سے بیٹھ کر اجے اپنے کالعدم گروپ کے ساتھ فون پر رابطے میں تھے اورپولیس کا کہنا ہے کہ اجے انھیں فون سے پیغامات بھیج کر اندر آنے میں معاونت کر رہے تھے۔ تاہم اجے کانو نے پولیس کے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
پولیس کی وردی پہنے سینکڑوں باغیوں نے جیل کے پیچھے کم پانی والی ایک جھیل کو پار کیا۔ وہ جیل کی اونچی دیواروں سے سیڑھی لگا کر فرار ہو رہے تھے اور ساتھ فائرنگ بھی کر رہے تھے۔
اس وقت جیل میں ڈیوٹی پر مامور محافظ بے بسی کی تصویر بنے نظر آئے۔ قیدی آسانی سے چلتے ہوئے جیل سے باہر نکلے اور پھر اندھیرے میں غائب ہو گئے۔ ان قیدیوں میں سے 30 سزا یافتہ تھے جبکہ باقی سب ابھی ٹرائل کے منتظر تھے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں یہ سب قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ جیل بریک کا یہ واقعہ بہار میں نقص عامہ اور انڈیا کے متاثرہ علاقوں میں سے ایک میں ماؤ نواز باغیوں کی بڑھتی شورش کا بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مقامی صحافی راجکمار سنگھ، جنھیں وہ فون کال وصول ہوئی، کو وہ رات آج بھی یاد ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فون کال موصول ہونے کے بعد انھوں نے اپنے موٹربائیک پر رات میں ویران قصبے سے گزر کر اپنے دفتر تک پہنچنے کی کوشش کی۔
وہ یاد کرتے ہیں کہ کیسے اس رات کچھ فاصلے سے فائرنگ کی آوازیں پورے قصبے میں گونج رہی تھیں۔ جیل پر باہر سے حملہ والے باغی قریب میں واقع ایک پولیس سٹیشن پر بھی حملہ آور تھے۔
جیسے ہی راجکمار ایک مرکزی شاہراہ پر آئے تو دھیمی سٹریٹ لائٹس میں سڑک کے مناظر ہی کچھ اور تھے۔ پولیس کی وردی میں درجنوں مردوں اور خواتین نے سڑک بند کر رکھی تھی۔ لیکن وہ پولیس والے نہیں تھے۔
ایک میگا فون پر یہ اعلانات کر رہے تھے کہ وہ ’ماؤ نواز ہیں۔ ہم عوام کے نہیں بلکہ صرف حکومت کے خلاف ہیں۔ جیل بریک ہمارے احتجاج کا حصہ ہے۔‘
باغیوں نے سڑک کے ساتھ بم بھی نصب کر رکھے تھے۔ ان میں سے کچھ پھٹ گئے جس سے قریب کی دکانیں تباہ ہو گئیں اور قصبے میں خوف و ہراس پھیل گیا۔
راجکمار سنگھ نے بتایا کہ وہ آگے بڑھتے گئے اور اپنے دفتر کی چوتھی منزل تک پہنچ گئے جہاں انھیں اس قیدی کی دوسری کال موصول ہوئی۔ قیدی نے کہا کہ ’یہاں سے ہر کوئی بھاگ رہا ہے۔ ایسے میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘
راجکمار نے انھیں کہا کہ ’اگر ہر کوئی فرار ہو رہا ہے تو پھر آپ بھی ایسا ہی کیجیے۔‘
اس کے بعد راجکمار اس جیل کی طرف چلے گئے۔ انھوں نے وہاں دیکھا کہ سب دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ چاول کچن میں ہر طرف بکھرے پڑے ہیں اور وہاں کوئی جیلر یا پولیس اہلکار موجود نہیں۔
ایک کمرے میں دو زخمی پولیس اہلکار فرش پر پڑے تھے۔ راجکمار نے وہیں بڑے شرما کی خون میں لت لاش بھی دیکھی جو رنویر سینا کے رہنما تھے۔
رنویر سینا زمینداروں کا حمایت یافتہ عسکری گروہ تھا، جس کی براہ راست لڑائی ماؤ نوازوں سے تھی۔ اس کے علاوہ جیل میں کم از کم تین دیگر افراد بھی مارے گئے جن میں پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔
پولیس نے بعد میں کہا کہ انھیں باغی جاتے ہوئے گولی مار کر چلے گئے تھے۔ باغی ہاتھ سے لکھے ہوئے خون کے دھبوں والے پمفلٹس بھی اپنے پیچھے جیل میں چھوڑ گئے۔
ایک پمفلٹ پر یہ درج تھا کہ ’یہ ہماری ایک علامتی کارروائی تھی، ہم ریاست اور حکومت کو متنبہ کرنا چاہتے ہیں کہ اگر وہ انقلابیوں اور غریبوں کو گرفتار کریں گے اور انھیں جیلوں میں ڈالیں گے تو پھر ہمیں انھیں ماؤ انقلابی طریقے سے آزاد کرانا بھی آتا ہے۔‘
کچھ ماہ قبل میں 57 برس کے اجے کانو کو بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں ملا تھا، جن پر پولیس جیل توڑنے کا الزام عائد کرتی ہے۔ اس واقعے کے وقت میڈیا نے انھیں بہار کا سب سے مطلوب ملزم قرار دیا۔

پولیس کے مطابق باغی کمانڈر نے اپنے ساتھیوں کی طرف سے کلاشنکوف ملنے کے بعد جیل کا انتظام اپنے ہاتھ میں لیا۔ رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ باغی کمانڈر نے بہت مہارت سے اس ہتھیار کو استعمال کیا اور بڑے شرما کو قتل کر دیا۔
اس واقعے کے 15 ماہ بعد فروری 2007 میں اجے کانو کو ایک ریلوے پلیٹ فارم سے اس وقت گرفتار کر لیا گیا جب وہ بہار سے کولکتہ سفر کر رہے تھے۔
تقریباً دو دہائیوں کے بعد اجے کانو چھ کے علاوہ تمام مقدمات میں بری ہو گئے۔ زیادہ تر مقدمات جیل توڑنے اور بڑے شرما کے قتل سے متعلق تھے۔ ان میں سے ایک مقدمے میں تو انھوں نے سات سال جیل میں گزارے۔
اپنی وحشت والی ساکھ کے باوجود اجے کانو غیریقینی طور پر بہت باتونی ہیں۔ وہ تیز اور نپے تلے لہجے میں بات کرتے ہوئے خبروں میں آنے والے جیل توڑنے کے واقعے میں اپنے کردار کو بہت کم کر کے پیش کرتے ہیں۔
کسی دور میں وحشت کی علامت سمجھے جانے والے ان باغی رہنما کی توجہ کا مرکز اب ایک اور جنگ ہے۔۔ اب وہ سیاسی میدان میں اتر چکے ہیں اور اپسے ہوئے طبقے کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔
اجے کانو نے اپنے بچپن میں نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے کسان کے والد سے روس، چین اور انڈونیشیا میں ماؤ نواز باغیوں کی شورش کی کہانیاں سنی تھیں۔ جب وہ آٹھویں جماعت کے طالبعلم تھے تو ان کے والد کے ساتھی ان پر انقلابی سیاست میں حصہ لینے پر زور دیتے تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ ان کی بغاوت کی ابتدا بہت جلد ہوئی جب انھوں نے ایک مقامی بڑے زمیندار کے بیٹے کے خلاف فٹ بال کے ایک میچ میں گول کیا تو پھر اس کے بعد اونچی ذات سے تعلق رکھنے ہندوؤں نے ان کے گھر کا گھیراؤ کیا۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نے گھر کے اندر اپنے آپ کو بند کر دیا۔ وہ میری اور میری بہن کی تلاش میں آئے، گھر پر دھاوا بولا اور ہر چیز تباہ کر دی۔ اس طریقے سے ہی اونچی ذات والے ہندو ہمیں خوف و ہراس میں رکھتے تھے۔‘
گریجویشن کے بعد انھوں نے کسی سے مل کر مشترکہ طور پر ایک سکول کی بنیاد رکھی مگر انھیں اس عمارت کے مالک نے بے دخل کر دیا۔
اپنے گاؤں واپسی پر ان کی مقامی زمیندار کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ جب وہاں ایک مقامی بااثر آدمی کا قتل ہوا تو 23 برس کے اجے کانو کا نام بھی پولیس رپورٹ کا حصہ بنا اور یوں وہ پس منظر میں چلے گئے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس دن سے میری زندگی کا بڑا حصہ مفروری میں ہی گزر گیا۔ میں کارکنان اور کسانوں کو متحرک کرنے کے لیے جلد گھر چھوڑ کر باہر نکل آیا۔‘
ان کے مطابق انھوں نے اس تحریک میں شمولیت اختیار کی اور پھر ماؤ نواز باغی کے طور پر زیر زمین چلے گئے۔ انھوں نے بائیں بازو کی بنیاد پرست جماعت کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا میں شمولیت اختیار کی۔
ان کے مطابق ’میری جدوجہد آزادی کا حصول تھا اور یہ غریب کی آزادی تھی۔ یہ اونچی ذات والوں کے مظالم کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا تھا۔ میں نے ان لوگوں کے لیے لڑائی لڑی جنھیں ناانصافی اور بربریت کا سامنا تھا۔‘
اگست 2022 میں ان کے سر کی قیمت تین ملین روپے مقرر کی گئی تا کہ لوگ ان کی تلاش میں مدد فراہم کر سکیں۔ اجے کانو زیر زمین رہنماؤں سے ملنے کے لیے جا رہے تھے اور ان سے اپنی نئی حکمت عملی ترتیب دے رہے تھے۔
وہ پٹنہ میں اپنی منزل پر پہنچنے والے ہی تھے کہ انھیں ایک مصروف پلیٹ فارم پر گرفتار کر لیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ ’چند لمحوں میں سادہ کپڑوں میں ملبوس آدمی کار سے باہر نکلے، انھوں مجھ پر بندوقیں تان لیں اور مجھے سرینڈر کرنے کا کہا۔ میں نے مزاحمت نہیں کی اور ہار تسلیم کر لی۔‘
اگلے تین برس تک اجے کانو کو مختلف جیلوں میں منتقل کیا جاتا رہا کیونکہ پولیس کو ان کے فرار کا خطرہ تھا۔ ایک سینیئر پولیس اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اجے کانو بہت قابل ذکر شہرت کے حامل تھے۔ ’ان سب خصوصیات میں سے ایک یہ کہ وہ بہت تیز طرار تھے۔‘
اجے کانو کا کہنا ہے کہ ہر جیل میں انھوں نے بدعنوانی، چوری کردہ راشن، ناقص صحت کے نظام اور رشوت کے خلاف لڑنے کے لیے قیدیوں کی یونین بنائیں۔ ایک جیل میں انھوں نے قیدیوں سے تین دن تک بھوک ہڑتال کروائی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اس دوران جھڑپیں بھی ہوئیں۔ مگر میں نے قیدیوں کو بہتر سہولیات دینے کے مطالبات پر قائم رہا۔‘ اجے کانو نے انڈیا کی جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدیوں کی ایک تصویر کشی کی ہے اور کہا کہ جہان آباد میں تو گنجائش سے دگنا قیدی ہیں۔
ان کے مطابق ’وہاں سونے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ میری پہلی بیرک میں 180 قیدی ایک ایسی جگہ پر تھے جہاں صرف 40 قیدیوں کی گنجائش تھے۔ ہم نے وہاں رہنے کا ایک نظام وضع کیا۔‘
’ہم میں سے 50 چار گھنٹوں کے لیے سوتے تھے اور باقی بیٹھ کر اندھیرے میں انتظار کرتے اور ایک دوسرے سے باتیں کرتے۔ جب چار گھنٹے گزر جاتے تو دوسرا گروپ ان کی جگہ سو جاتا۔ اس طرح ہم نے اس جیل کے اندر اپنے شب و روز گزارے۔‘

سنہ 2005 میں اجے کانو جیل بریک کے بعد یہاں سے فرار ہو گئے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب فائرنگ شروع ہوئی تو اس وقت ہم شام کے کھانے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہر طرف بم، گولی اور افراتفری کا راج تھا۔ جیل کے اندر ماؤ نواز داخل ہو چکے تھے اور انھوں نے ہمیں سختی سے وہاں سے فرار ہونے کا کہا۔‘
ان کے مطابق ’ہر کوئی وہاں سے اندھیرے میں بھاگ رہا تھا۔ کیا ایسے میں پھر میں وہاں رہ جاتا اور مارا جاتا۔‘
بہت سے لوگ اجے کانو کے دعوؤں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایک پولیس اہلکار نے کہا کہ یہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں جتنا وہ اسے پیش کر رہے ہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ اس جیل سے فرار ہونے والے بہت سے قیدیوں کو دسمبر کے وسط تک پھر سے جیل میں لایا گیا۔ کچھ خود بخود واپس آ گئے مگر کچھ نے ایسا نہیں کیا۔ تاہم باغیوں میں سے کوئی بھی گرفتاری دینے نہیں آیا۔
جیل ٹوٹنے کے بعد انتظامیہ کی جانب سے جہان آباد اور گرد و نواح میں اعلان کیا گیا تھا کہ جیل سے فرار ہونے والے افراد تین دن میں واپس آجائیں تو ان کے خلاف جیل توڑنے کا مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا۔
اس اعلان کے ایک ہفتے کے اندر تقریباً 70 فیصد قیدی جیل واپس آ چکے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ ابھی تک مفرور ہیں۔
جب میں نے اجے کانو سے پوچھا کہ کیا انھوں نے یہ سارا پلان ترتیب دیا تھا تو یہ سن کر وہ مسکرائے۔ انھوں نے کہا کہ ’ماؤ نوازوں نے ہمیں آزاد کروایا اور یہ ازادی دلوانا ان کا کام ہے۔‘
مگر جب یہی سوال دوبارہ ان سے کیا گیا تو اجے کانو اس پر خاموش ہو گئے۔
ایک پولیس اہلکار نے ایک بار ان سے استفسار کیا کہ کیا وہ ایک بار پھر فرار ہونے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ اس پر اجے کانو نے انھیں کہا کہ ’سر کیا کوئی چور کبھی آپ کو یہ بتائے گا کہ وہ کیا چیز چوری کرنے جا رہا ہے؟‘