انڈین حکومت نے سپریم کورٹ میں میریٹل ریپ یعنی ’شوہر کے ہاتھوں ریپ‘ کو جرم قرار دیے جانے اور اس پر کڑی سزاؤں کی درخواست کی مخالفت کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان معاملوں میں ریپ مخالف قوانین کا استعمال ’ضرورت سے زیادہ سخت‘ ہوگا۔

انڈین حکومت نے سپریم کورٹ میں میریٹل ریپ یعنی ’شوہر کے ہاتھوں ریپ‘ کو جرم قرار دیے جانے اور اس پر کڑی سزاؤں کی درخواست کی مخالفت کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان معاملوں میں ریپ مخالف قوانین کا استعمال ’ضرورت سے زیادہ سخت‘ ہوگا۔
وفاقی وزارت داخلہ نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ’مرد کو اپنی بیوی سے زبردستی جنسی تعلقات قائم کرنے کا کوئی بنیادی حق تو نہیں ہے لیکن شادی شدہ خواتین کو جنسی تشدد سے بچانے کے لیے پہلے ہی متعدد قوانین موجود ہیں۔‘
سپریم کورٹ جن درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے ان میں برطانوی دور کے قانون میں ترمیم کی درخواست کی گئی ہے۔ اس قانون میں کہا گیا تھا کہ ’شادی کے دوران ریپ کے الزام میں مرد کے خلاف مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔‘
انڈیا میں شادی کے دوران تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ ایک حالیہ سرکاری سروے کے مطابق ہر 25 میں سے ایک عورت کو اپنے شوہر کی طرف سے جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
برطانیہ سمیت 100 سے زائد ممالک میں میریٹل ریپ کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے۔ برطانیہ نے سنہ 1991 میں اسے جرم قرار دیا تھا۔
لیکن انڈیا، پاکستان، افغانستان اور سعودی سمیت ان تین درجن ممالک میں شامل ہے جہاں یہ قانون اب بھی موجود ہے۔

انڈیا میں حالیہ برسوں میں اس معاملے پر متعدد درخواستیں دائر کی گئی ہیں جن میں تعزیرات ہند کی دفعہ 375 کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جو کہ 1860 سے موجود ہے۔
اس قانون کے مطابق بعض صورتوں میں سیکس کو ریپ تصور نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً جب یہ سیکس ’ایک مرد اپنی عورت کے ساتھ‘ کرے اور یہ عورت نابالغ نہ ہو۔
اس حوالے سے مہم چلانے والوں کا کہنا ہے کہ جدید دور میں ایسی دلیل ناقابل قبول ہے اور یہ کہ جبری جنسی تعلق دراصل ریپ ہے، چاہے اس کا ارتکاب کوئی بھی کرے۔
اقوام متحدہ، ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی میریٹل ریپ کو جرم قرار دینے سے انڈیا کے انکار پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
لیکن انڈین حکومت، مذہبی گروہوں اور مردوں کے حقوق کے کارکنوں نے اس قانون میں ترمیم کرنے کے کسی بھی منصوبے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جنسی تعلقات کے لیے رضامندی شادی کے بعد لازم ہے اور بعد میں بیوی اس سے انکار نہیں کر سکتی۔
اس حوالے سے انڈیا میں عدالتوں نے متضاد فیصلے دیے ہیں۔ بعض اوقات شوہر کے خلاف ریپ کا مقدمہ چلانے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ دیگر کیسز میں ایسی درخواستوں کو مسترد کر دیا گیا ہے۔

دلی ہائی کورٹ میں ان درخواستوں پر 2022 کے فیصلے میں جج منقسم تھے جس کے بعد سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے اگست میں اس کیس کی سماعت شروع کی تھی۔
جمعرات کو سپریم کورٹ میں حکومت کی جانب سے جمع کروایا گیا 49 صفحات پر مشتمل جواب ایک ایسے ملک میں قطعاً حیران کن نہیں ہے جہاں پدرشاہی روایات کی جڑیں ہیں اور جہاں شادیوں کو مقدس سمجھا جاتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شادی ایک ’مختلف نوعیت‘ کا رشتہ ہے اور اس میں قوانین، حقوق اور ذمہ داریوں کا باقاعدہ نظام موجود ہے۔
میریٹل ریپ کو جرم قرار دینا ازدواجی تعلقات کو شدید متاثر کر سکتا ہے اور شادیوں میں دراڑ ڈال سکتا ہے۔
جواب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شادی میں ’اپنے شریک حیات سے مناسب جنسی تعلق کی مسلسل توقع رکھی جاتی تھی‘ اور حالانکہ یہ شوہر کو اپنی بیوی کو جنسی تعلق پر مجبور کرنے کا حق نہیں دیتا، لیکن میریٹل ریپ پر اینٹی ریپ قوانین کے تحت سزا ’ضرورت سے زیادہ سخت‘ اور ’غیر متناسب‘ ہو گا۔
اس میں مزید کہا گیا کہ گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی اور اپنی شریک حیات پر حملہ کرنے سے متعلق قوانین موجود ہیں جو شادی شدہ عورت کے حقوق کا تحفظ کرتے ہیں۔
وزارت داخلہ نے یہ بھی کہا کہ شادی ایک سماجی رشتہ ہے اور درخواستوں میں جو مسئلہ اٹھایا گیا ہے وہ قانونی سے زیادہ سماجی ہے اس لیے اسے پالیسی بنانے کے لیے پارلیمنٹ پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔