کیرن سیکٹر: ’رات کو ہمارے ہاں بجلی ہوتی نہیں اور ایل او سی کے پار ایک منٹ کے لیے بھی نہیں جاتی‘

کشممیر میں پہاڑوں سے گھرا ہوا یہ خطہ انڈیا اور پاکستان کی سرحدوں کو الگ کرتا ہے اور ایل او سی سے ملحقہ کیرن اور آس پاس کے علاقوں کے لوگ کئی سال سے ان دونوں ممالک کی دشمنی کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔
ایل او سی کے آر پار لوگ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں
BBC
ایل او سی کے آر پار لوگ ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں

دریا کے اُس پار پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے ایک گاؤں سے ایک شخص بلند آواز میں کہتا ہے ’ہمیں وراٹ کوہلی دے دو۔۔۔‘ تو انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے گاؤں کیرن کے 23 سالہ طفیل احمد بھٹ اُتنی ہی بلند آواز میں جواب دیتے ہیں ’ہم نہیں دے سکتے۔‘

سرحد پار ہونے والی اس بظاہر سادہ سی گفتگو کو جو چیز خاص بناتی ہے، وہ یہ علاقہ ہے جو انڈیا اور پاکستان کے درمیان لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے دونوں طرف انتہائی قریب واقع ہے۔

یہاں لوگوں کو اپنی بات ایک دوسرے تک پہنچانے کے لیے کسی ذریعے کی ضرورت نہیں بلکہ انھیں صرف اپنی آواز کو بلند کرنا ہوتا ہے مگر یہ ’خاص‘ خطہ اکثر غیر مستحکم رہتا ہے۔ پہاڑوں سے گھرا ہوا یہ علاقہ انڈیا اور پاکستان کی سرحدوں کو تقسیم کرتا ہے۔

ایل او سی یعنی لائن آف کنٹرول سے ملحقہ کیرن اور آس پاس کے علاقوں کے لوگ کئی سال سے ان دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ تعلقات کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔

سنہ2021 میں انڈیا نے کہا تھا کہ ماضی میں سرحدی علاقے میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کے 594 واقعات ہوئے ہیں جن میں فائرنگ، مارٹر گولے داغنا اور حتیٰ کہ توپ خانے کا بھی استعمال کیا گیا۔

انڈین حکومت کا دعویٰ ہے کہ رواں سال اس طرح کے واقعات میں چار انڈین فوجی بھی مارے گئے تھے۔

ان اعدادوشمار کی بنیاد پر پاکستان نے انڈین حکومت پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ انڈین حکومت یہ اعداد و شمار اور فوجیوں کی ہلاکت اپنے طور پر تیار کر کے پیش کر رہی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔

ایل او سی کے دونوں جانب رہنے والے درجنوں لوگ گذشتہ کئی برس سے جاری اس تنازع میں زخمی اور ہلاک ہو چکے ہیں تاہم دونوں ممالک کی فوجوں کے درمیان سنہ 2021 میں ہونے والے معاہدے کے بعد سنہ 2022 سے ستمبر 2024 کے درمیان جنگ بندی کی صرف دو خلاف ورزیاں ہی ہوئی ہیں۔

ایل او سی کا علاقہ
BBC

سرحدی علاقوں میں کیسی تبدیلیاں آ رہی ہیں؟

اس علاقے کے حکام اور لوگوں کے درجنوں انٹرویوز کی بنیاد پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ سنہ 2021 کے بعد سے سرحد کے دونوں اطراف پُرتشدد کارروائیوں میں کمی ہوئی اور اس کے باعث یہاں کے لوگوں کی زندگیاں بدل رہی ہیں۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے کیرن سے تعلق رکھنے والے طفیل ایل او سی سے چند سو میٹر کے فاصلے پر سیاحوں کے لیے قیام گاہ چلاتے ہیں۔

اُن کے گھر کی چھت پر آج بھی گولیوں کے واضح نشانات ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں اب سیاحوں کے لیے بہت سی قیام گاہ کُھلنے کے لیے تیار ہیں۔‘

وہ اس کا سہرا انڈین حکومت کو دیتے ہیں جس نے گذشتہ کچھ برس میں سرحدی علاقوں میں سیاحت پر زور دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ہمارے لیے بہت فائدہ مند ہے۔ اس سے پہلے کسی کے پاس تعمیرات میں سرمایہ کاری کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔‘

ادریس احمد خان کیرن میں دُکان چلاتے ہیں۔ اُن کے مطابق ماضی میں اِس علاقے کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’صرف مودی انتظامیہ نے ہمارے لیے کام کیا۔ پچھلے کچھ سال میں ہمیں سڑکیں ملیں، ہمیں بجلی ملی۔‘

ناہید (بائیں) اور ثانیہ جو کلکٹر بننا چاہتی ہیں
BBC
کیرن کی رہائشی ناہید (بائیں) اور ثانیہ (دائیں)

’ہر کوئی حکومت سے خوش نہیں‘

تاہم ادریس احمد خان کی طرح ہر کوئی حکومت سے خوش نہیں۔ ایک سابق پولیس اہلکار اور مقامی رہائشی عبدالقدیر بھٹ کہتے ہیں کہ ’یہاں ہمیشہ بجلی غائب رہتی ہے، اگر آپ رات کو دیکھیں تو ایل او سی کے اس پار ہمارے پڑوسی علاقے میں ایک سیکنڈ کے لیے بھی بجلی نہیں جاتی۔ سڑکوں کو دیکھیں۔ اگر یہ تمام سہولیات وہ فراہم کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں کر سکتے۔‘

مقامی حکام کا کہنا ہے کہ سرحدی علاقوں کی ترقی کے لیے جامع کوششیں کی جا رہی ہیں۔

مقامی حکام کے مطابق ضلع کپواڑہ میں واقع کیرن میں سنہ 2021-22 کے دوران 2217 چھوٹے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام مکمل کیا گیا۔ اگلے سال یہ تعداد بڑھ کر 4061 ہوئی اور 2023-24 میں یہ 3453 ہو گئی۔

انڈین حکومت کی طرف سے گذشتہ سال کے جاری کردہ اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گذشتہ چند برس میں جموں و کشمیر میں سب سے زیادہ نئی سڑکیں بنائی گئی ہیں۔

دیگر سرحدی ریاستوں کے مقابلے میں منظور شدہ بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں جموں و کشمیر کا سب سے زیادہ حصہ ہے۔

کیرن سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر تنگدھار میں اِن منصوبوں کے باوجود لوگوں کے خدشات دور نہیں ہوئے۔

گاؤں کے سربراہ محمد رفیق شیخ نے ہمیں بتایا کہ اُن کے علاقے کو تمام موسمی حالات کے عین مطابق ہموار راستوں اور رابطوں کی ضرورت ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمارے نوجوانوں کو امتحان دینے کے لیے باہر جانا پڑتا ہے، ہمارے ہاں ایسے بہت سے مواقعآتے ہیں جب برف باری کی وجہ سے سڑکیں بند ہو جاتی ہیں اور ہمارے نوجوان روزگار کے مواقع سے محروم رہتے ہیں۔‘

طفیل سیاحوں کے لیے ہوم سٹے چلاتے ہیں
BBC
طفیل سیاحوں کے لیے قیام گاہ چلاتے ہیں

نوجوانوں کے مستقبل پر تشویش

اس علاقے میں ہم نے جن لوگوں سے بات کی انھوں نے نوجوانوں کے لیے روزگار کا مسئلہ اٹھایا۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ پہاڑی علاقوں میں بڑے پیمانے پر کاشتکاری پر پابندی ہے اور اُن کے پاس کافی روزگار کے مواقع نہیں۔

اس سے ایک دوسری صورتحال پیدا ہو رہی ہے۔

محمد رفیق شیخ بتاتے ہیں کہ ’ہمارا روزگار فوج کی طرف سے دیے جانے والے پورٹرز (قلی) کے کام پر مبنی ہے اور اس بات کی حد ہے کہ کتنے لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے۔ ہم نے نوجوانوں میں منشیات کے استعمال کو بھی دیکھا۔ ہم نے ان کو راہ راست پر لانے کی بہت کوشش کی لیکن معاملہ ابھی بھی جُوں کا تُوں ہے۔‘

اس علاقے میں گذشتہ چند سال میں شدت پسندی کے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے اب بھی یہاں سکیورٹی فورسز تعینات ہیں۔ اس لیے یہاں تک پہنچنا آسان نہیں۔ کسی بھی شخص کو اس علاقے میں آنے سے پہلے سرکاری اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اجازت نہ ملنے پر سکیورٹی فورسز شناختی دستاویزات چیک کرتی ہیں۔ ہماری گاڑی اور دیگر سامان کو بھی بار بار چیک کیا گیا۔

محمد رفیق
BBC
محمد رفیق شیخ نے بتایا کہ اُن کے علاقے کو تمام موسمی حالات کے عین مطابق ہموار راستوں اور رابطوں کی ضرورت ہے

روزگار، بجلی اور موبائل نیٹ ورک کا مسئلہ

مقامی لوگوں نے صحت کی سہولیات کی کمی اور غریبوں کے لیے ناکافی راشن کا مسئلہ بھی اٹھایا۔ ناہیدہ پروین سے ہماری ملاقات سیماڑی گاؤں میں ہوئی۔ وہ گریجویٹ ہیں اور ٹیچر بننا چاہتی ہیں۔

جب ہم نے اُن سے پوچھا کہ حکومت سے اُن کی کیا توقعات ہیں تو انھوں نے کہا کہ ’میں حکومت سے درخواست کرتی ہوں کہ یہاں پرائیویٹ سکول شروع کرنے کی سہولت فراہم کی جائے۔ اس وقت یہاں ایک بھی پرائیویٹ سکول نہیں۔ یہاں کوئی سرکاری نوکری نہیں۔ اگر سکول کھلیں گے تو ہم جیسے پڑھی لکھی لڑکیاں وہاں پڑھائیں گی۔‘

ایک اور مقامی عبدالعزیز لون کہتے ہیں کہ ’ہم سب جانتے ہیں کہ ہر گھر کو ایک سربراہ کی ضرورت ہے اور اس وقت کوئی کشمیر کے لیے کھڑا نہیں۔‘

تنگدھار سے 100 کلومیٹر دور شمال مشرقی علاقے میں ایل او سی کے قریب واقع وادی ماچل ہمارا آخری پڑاؤ تھا۔

اس گاؤں میں حکومت کی طرف سے بم شیلٹر بنائے گئے ہیں۔ ہم ایک پناہ گاہ میں گئے۔ کنکریٹ سے بنی اس پناہ گاہ کے دروازوں کو زنگ لگ گیا تھا لیکن وہاں کام ہو رہا تھا۔

ایک مقامی شخص نے کہا کہ ’اس گاؤں میں تقریباً ایک ہزار لوگ رہتے ہیں لیکن اس شیلٹر میں بمشکل 100 لوگ پناہ لے سکتے ہیں۔‘

یہاں حال ہی میں بجلی آئی ہے۔

عبدالعزیز
BBC
عبدالعزیز لون کہتے ہیں کہ ہر گھر کو سربراہ کی ضرورت ہے اور اس وقت کوئی کشمیر کے لیے نہیں کھڑا

ماچل میں آٹھویں کلاس میں پڑھنے والی ثانیہ کہتی ہیں کہ بجلی کی سہولت آنے کی وجہ سے وہ رات گئے زیادہ دیر تک پڑھ سکتی ہیں۔ ثانیہ کہتی ہیں کہ وہ آئی اے ایس (انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس) آفیسر بننا چاہتی ہیں۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان غیر مستحکم تعلقات کی وجہ سے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ انھیں خدشہ ہے کہ جنگ بندی کی خلاف ورزی کے واقعات دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں۔

یہاں کے ایک استاد عبدالحمید شیخ کہتے ہیں کہ ’ہم میں سے کوئی بھی اُن دنوں کو نہیں بھولا۔ ہم امید اور دعا کرتے ہیں کہ امن قائم ہو۔‘

کیرن اور سیماڑی کے نوجوانوں نے بھی موبائل نیٹ ورک کی کمی پر تشویش کا اظہار کیا۔

طفیل کہتے ہیں کہ ’میرے ہوم سٹے کو بُک کرنے کے لیے ہماری ویب سائٹ ہے۔ میرے پاس یوٹیوبرز اور بلاگرز کے حوالے ہیں لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ لوگوں کے لیے مجھ تک پہنچنے کے لیے کوئی موبائل نیٹ ورک نہیں۔‘

ناہیدہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں اپنے فون پر نیٹ ورک حاصل کرنے کے لیے ایک گھنٹہ پیدل چلنا پڑتا ہے، کیا آپ میرا پیغام حکام تک پہنچا سکتے ہیں کہ انھیں اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘

اضافی رپورٹنگ: وقار احمد شاہ


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US