پاکستان کا کم و بیش ہر دوسرا نوجوان بہتر مستبقل اور اچھے روزگار کی تلاش میں بیرون ملک جانے کا خواہش مند ہے۔ لیکن یک مشت بڑی رقم کا انتظام کرکے بیرون ملک جانے کے اخراجات پورے کرنا ہی ان نوجوانوں کے راستے کی بڑی رکاوٹ بنتا ہے۔
بہت سے دیہی علاقوں میں تو نوجوان والدین کو اپنی زمین بیچنے پر مجبور کرکے لاکھوں روپے ایجنٹوں کو دے کر غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک روانہ ہوتے ہیں اور ان میں کچھ کامیاب، کچھ ناکام ہو جاتے ہیں اور کچھ تو حادثات کی بھینٹ چڑھ کر جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔کئی تعلیم یافتہ یا ہنرمند نوجوان ایسے بھی ہوتے ہیں جو بیرون ملک جا کر اچھی ملازمت کے ذریعے اپنے خاندان کا سہارا بننا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس نہ زمین ہوتی ہے کہ اسے فروخت کرکے اتبدائی اخراجات پورے کر سکیں اور نہ ہی کوئی اور وسائل جو ویزا فیس، ہوائی ٹکٹ، پیشہ ورانہ تربیت اور ابتدائی رہائش جیسے اخراجات کے لیے استعمال کیے جا سکیں۔تاہم اب ایسے نوجوانوں کے لیے آسانی پیدا ہونے کا امکان ہے کیونکہ حکومت پاکستان نے اس مسئلے کو سامنے رکھتے ہوئے وزیرِاعظم یوتھ پروگرام کے تحت نوجوانوں کو بلاسود قرض دینے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ وہ بیرون ملک جا کر باعزت روزگار حاصل کر سکیں۔یہ بلاسود قرضہ سکیم ’وزیرِاعظم یوتھ بزنس اینڈ ایگریکلچر لون سکیم‘ کا ایک مخصوص حصہ ہے جو خاص طور پر ان نوجوانوں کے لیے ہے جن کے پاس کسی مستند غیرملکی آجر کی طرف سے تصدیق شدہ ملازمت کی پیشکش موجود ہو۔ سرکاری تفصیلات کے مطابق اس سکیم کے تحت امیدواروں کو 10 لاکھ روپے تک کا بلاسود قرض فراہم کیا جائے گا جس سے وہ ملازمت کے لیے درکار لازمی اخراجات بآسانی پورے کر سکیں گے۔اس سکیم کے لیے 18 سے 45 برس تک کے وہ پاکستانی شہری اہل ہیں جن کے پاس قومی شناختی کارڈ اور بیرون ملک آجر کی جانب سے تصدیق شدہ آفر لیٹر یا ویزا کی منظوری موجود ہو۔زیادہ تر یہ ملازمتیں حکومت کے رجسٹرڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کے ذریعے فراہم کی جاتی ہیں تاکہ شفافیت کو یقینی بنایا جا سکے اور نوجوان کسی دھوکہ دہی سے محفوظ رہیں۔درخواست کے لیے ضروری ہے کہ امیدوار اپنے خاندان کے کسی قریبی فرد جیسے والد، والدہ، بھائی یا بیوی کو شریک درخواست دہندہ یعنی ضامن کے طور پر شامل کرے تاکہ قرض کی واپسی کے معاملے میں کسی مشکل کی صورت میں ضمانت دی جا سکے۔
وزیراعظم قرض سکیم کے لیے 18 سے 45 برس تک کے پاکستانی شہری اہل ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
درخواست دینے سے پہلے قومی شناختی کارڈ، پاسپورٹ، آفر لیٹر، ویزا کی منظوری اور اگر کسی پیشہ ورانہ تربیت کی شرط ہو تو اس کا سند جیسی لازمی دستاویزات تیار کرنا ضروری ہیں۔
اگر آجر نے کسی پیشہ ورانہ تربیت کی شرط رکھی ہو تو اس کا سند بھی ضروری ہے۔ اسی طرح اگر ملازمت کسی رجسٹرڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹر کے ذریعے حاصل کی گئی ہے تو اس کا لائسنس نمبر اور رجسٹریشن کی تفصیل دینا بھی لازمی ہے تاکہ درخواست کا عمل شفاف اور درست بنیادوں پر مکمل ہو سکے۔اس کے بعد امیدوار وزیرِاعظم یوتھ پروگرام کی سرکاری ویب سائٹ پر آن لائن فارم پُر کرتا ہے جس میں ذاتی معلومات، ملازمت کی تفصیل، شریک درخواست دہندہ کی معلومات اور مطلوبہ مالی معاونت کی وضاحت درج کرنا ضروری ہے۔ قرض آٹھ سال تک واپس کرنے کی سہولتدرخواست بینک تک پہنچنے کے بعد نیشنل بینک آف پاکستان اور دیگر شراکت دار بینک اس کا جائزہ لیتے ہیں اور اگر سب کچھ درست ہو تو قرض کی منظوری دے دی جاتی ہے۔قرض کی رقم براہِ راست امیدوار، متعلقہ تربیتی ادارے یا اوورسیز ایجنسی کو منتقل کی جاتی ہے تاکہ رقم اصل مقصد کے لیے ہی استعمال ہو۔ قرض کی واپسی پانچ سے آٹھ برس میں آسان ماہانہ اقساط کے ذریعے کی جاتی ہے جبکہ اکثر درخواست دہندگان کو بیرون ملک جا کر ملازمت کے آغاز کے بعد قسطوں کی ادائیگی شروع کرنے کے لیے رعایتی مدت (گریس پیریڈ) بھی دیا جاتا ہے، تاکہ وہ مالی طور پر سنبھل سکیں اور آسانی سے قرض لوٹا سکیں۔
وزارت اوورسیز نے وزیراعظم کو بیرون ملک بھجوانے کے لیے قرضہ سکیم شروع کرنے کی سفارش کی تھی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
آن لائن اور مینول طریقے سے درخواست وصولی
درخواست دینے کا طریقہ کار آن لائن ہے لیکن نیشنل بینک آف پاکستان، بینک آف پنجاب اور دیگر شراکت دار بینکوں کی شاخوں پر بھی درخواستیں وصول کی جاتی ہیں۔اس سکیم کے حوالے سے وزیراعظم یوتھ پروگرام کے چیئرمین رانا مشہود احمد خان کا کہنا ہے کہ ’اس سکیم کا مقصد صرف مالی مدد نہیں بلکہ نوجوانوں کو عالمی منڈی تک رسائی دینے، باوقار روزگار کا موقع دینے اور ملک کے لیے قیمتی زرمبادلہ بھیجنے کی ایک جامع کوشش ہے۔ ہمارا مقصد نوجوانوں کو خودمختار بنانا ہے تاکہ وہ اپنی اور ملک کی تقدیر بدل سکیں۔‘روزگار کے حوالے سے عالمی منڈی میں اگرچہ ہر سال لاکھوں پاکستانی ملازمتیں حاصل کرتے ہیں لیکن اب بھی یہ تعداد پاکستان کی آبادی اور نوجوانوں کی تعداد کے لحاظ سے کم ہے۔ حکومت ترسیلات زر کو بڑھانے کے لیے مزید ممالک میں پاکستانی نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع کی تلاش میں رہتی ہے لیکن وسائل کی کمی کے باعث بیش تر نوجوان مقامی سطح پر ہی ملازمت حاصل کرکے کمائی شروع کر دیتے ہیں اور بیرون ملک جانے کی حسرت دل میں دبا دیتے ہیں۔اسی وجہ سے وزارت اوورسیز نے وزیراعظم کو بیرون ملک بھجوانے کے لیے قرضہ سکیم شروع کرنے کی سفارش کی تھی۔ اس حوالے سے وزارتِ اوورسیز پاکستانیز کے حکام کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کے بیرون ملک جانے کی سب سے بڑی رکاوٹ مالی وسائل کی کمی تھی اور یہ سکیم ان کے لیے باعزت اور محفوظ متبادل فراہم کر رہی ہے تاکہ وہ غیر رسمی اور غیرقانونی قرض دینے والوں کے چنگل میں نہ پھنسیں۔ اس سے بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے روزگار کے زیادہ مواقع حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔وزارت کے حکام کا مزید کہنا ہے کہ بلاسود قرض سکیم نہ صرف بیرون ملک جانے کے خواہش مند نوجوانوں کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا موقع ہے بلکہ یہ پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے کی سمت میں بھی ایک عملی قدم ہے۔ حکومت کی نگرانی، آسان اقساط اور شفاف طریقہ کار کے ساتھ یہ سکیم ملک کے نوجوانوں کو عالمی سطح پر بااختیار بنانے کی بھرپور کوشش ہے۔
عالمی منڈی میں اگرچہ ہر سال لاکھوں پاکستانی ملازمتیں حاصل کرتے ہیں (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وزیرِاعظم یوتھ پروگرام کے تحت اب تک مختلف شعبوں میں مجموعی طور پر 186 ارب روپے سے زائد کے قرضے جاری کیے جا چکے ہیں۔ اس مخصوص سکیم کے لیے ہزاروں نوجوانوں نے درخواستیں جمع کروائی ہیں اور متعدد کی منظوری کا عمل بھی جاری ہے۔
وزیر اعظم یوتھ سکیم کے حکام کا کہنا ہے کہ حکومت کی کوشش ہے کہ رجسٹرڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز اور غیرملکی سفارت خانوں کے تعاون سے ملازمتوں کی تصدیق کے عمل کو مزید تیز کیا جائے، اس کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کو زبان کی مہارت اور پیشہ ورانہ تربیت کے کورسز فراہم کیے جائیں تاکہ وہ بین الاقوامی مارکیٹ میں زیادہ اچھے طریقے سے مسابقت کرنے کے قابل ہو سکیں۔