پاکستان میں الیکٹرک بائیکس پر اربوں روپے کی سبسڈی دینے کا منصوبہ کیا ہے اور اس سے خریداروں کو کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟

پاکستان میں الیکٹرک وہیکل پالیسی کا مسودہ پیش کیے جانے کے بعد ہنڈا نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے پہلی بار پاکستان میں الیکٹرک بائیکس متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔ اس پالیسی میں الیکٹرک بائیکس، سکوٹرز اور تھری وہیلرز کے لیے خصوصی سبسڈی کی تجویز دی گئی ہے۔ مگر حکومت صارفین کو الیکٹرک بائیکس کی جانب کیوں راغب کرنا چاہتی ہے۔
الیکٹرک سکوٹی
Getty Images
’پاکستان میں 10 چینی کمپنیاں الیکٹرک سکوٹرز اور بائیکس اسمبل کر رہی ہیں جن کی ماہانہ سیلز یا فروخت 50 ہزار یونٹس سے زیادہ نہیں ہے‘

پاکستان میں سالانہ لگ بھگ 15 لاکھ بائیکس یعنی موٹر سائکلیں فروخت ہوتی ہیں اور کئی برسوں سے اس صنعت پر ملک کی سب سے بڑی موٹر سائیکل بنانے والی کمپنی ’ایٹلس ہنڈا‘ کی اجارہ داری قائم رہی ہے۔

مگر اب پاکستان میں الیکٹرک وہیکل پالیسی کا مسودہ پیش کیے جانے کے بعد ہنڈا نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے پہلی بار ملک میں رواں برس کے دوران الیکٹرک بائیکس متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔

بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔

الیکٹرک وہیکل پالیسی میں الیکٹرک بائیکس، سکوٹرز اور تھری وہیلرز کے لیے خصوصی سبسڈی کی تجویز دی گئی ہے۔

معاون خصوصی برائے صنعت و پیداوار ہارون اختر نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اس پالیسی کی اصولی منظوری دے چکے ہیں۔ ہارون اختر کے مطابق انھیں امید ہے کہ اگلے ایک ماہ میں یہ پالیسی کابینہ سے بھی منظور ہو جائے گی۔

اگرچہ ملک میں موٹر سائیکل کو ’عام آدمی کی سواری‘ سمجھا جاتا ہے مگر الیکٹرک بائیکس میں عوامی دلچسپی اُتار چڑھاؤ کا شکار رہی ہے۔

پاکستان میں موٹر سائیکل اسمبلرز کی ایسوسی ایشن کے سربراہ صابر شیخ کے مطابق ملک میں اس وقت کم از کم 10 چینی کمپنیاں الیکٹرک سکوٹرز اور بائیکس اسمبل کر رہی ہیں جن کی ماہانہ سیلز یا فروخت 50 ہزار سے زیادہ نہیں ہے۔

الیکٹرک بائیکس پر کتنی سبسڈی دینے کی تجویز ہے؟

الیکٹرک بائیکس
Getty Images
پاکستان میں الیکٹرک وہیکلز کے چارجنگ سٹیشنز کا نہ ہونے کی وجہ سے بھی صارفین ای ویز خریدنے میں ہچکچاتے ہیں

حال ہی میں متعارف کرائی گئی الیکٹرک وہیکل پالیسی میں یہ اندازہ لگایا گیا کہ پیٹرول سے چلنے والی بائیکس کے مقابلے ای ویز (الیکٹرک بائیکس) 100 فیصد تک زیادہ مہنگی ہیں۔ قیمتوں میں موجود اسی تفاوت کو ختم کرنے کے لیے کم آمدنی والے طبقے کے لیے ٹو اور تھری وہیلرز کے لیے ایک کاسٹ شیئرنگ سبسڈی دینے کی تجویز ہے۔

وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت اور پیداوار ہارون اختر نے بتایا ہے کہ اس پالیسی کے تحت الیکٹرک بائیکس اور سکوٹرز کے خریداروں کو 50 ہزار روپے کی سبسڈی اور بینک سے بلا سود قرض مل سکیں گے۔

بی بی سی کو دیے ایک انٹرویو میں انھوں نے تسلیم کیا کہ لوگوں کے لیے خود سے ای ویز (الیکٹرک وہیکلز) کو اپنانا مشکل ہو گا اور اس میں طویل وقت لگے گا۔ انھوں نے مختلف ممالک کی مثالیں دیں جہاں ای ویز کے لیے خصوصی مراعات دی گئی ہیں۔

ہارون اختر نے بتایا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ سنہ 2030 تک الیکٹرک وہیکلز کی تعداد کُل تعداد کا 30 فیصد ہو جائے۔۔۔ سبسڈی دیے بغیر ہم الیکٹرک وہیکلز کی طرف منتقل نہیں ہو پائیں گے۔‘

اُن کے بقول خریداروں کو بینک فنانسنگ کے لیے بلاسود قرض دیا جائے گا جس کا خرچ بھی حکومت برداشت کرے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ تجویز یہ ہے کہ ابتدا میں خریداروں کو صرف 20 فیصد ادائیگی کرنا ہو گا اور اس میں سے بھی 50 ہزار حکومت پاکستان ادا کر رہی ہو گی، بقیہ 80 فیصد ادائیگی دو سال کی مدت میں کرنا ہو گی۔

وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے بتایا کہ منصوبے کے مطابق اگلے پانچ برسوں کے دوران 22 لاکھ سے زیادہ بائیکس کو سبسڈائز کیا جائے گا جس پر حکومت 100 ارب روپے سے زیادہ خرچ کرے گی۔

پاکستان کے مالی سال 2025–26 کے بجٹ میں الیکٹرک وہیکل سکیم کے لیے نو ارب روپے کی سبسڈی مختص کی گئی ہے۔ ہارون اختر خان کے مطابق اس سبڈی کے ذریعے 116,053 الیکٹرک بائیکس اور3,171 الیکٹرک رکشوں کی فراہمی ممکن بنائی جائے گی۔

اس کے علاوہ اُن کے مطابق 20 ارب روپے کی رقم چارجنگ سٹیشنز کو سبسڈائز کرنے کے لیے مختص کی گئی ہے۔

انھوں نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’کوئی بھی چارجنگ سٹیشن پر سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہ رہا جب تک ملک میں الیکٹرک وہیکلز کی تعداد نہیں بڑھ جاتی۔ اور صارفین الیکٹرک وہیکلز نہیں لینا چاہ رہے کیونکہ چارجنگ سٹیشن نہیں لگ رہے ہیں۔۔۔ اس لیے ہم نے چارجنگ سٹیشنز کو بھی سبسڈائز کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم قریب ہر 50 کلومیٹر کے فاصلے پر چارجنگ سٹیشن دیکھنا چاہتے ہیں۔‘

تو اس سے خریداروں کو کتنا فائدہ ہو گا؟ اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ’ابھی ایک پیٹرول موٹر سائیکل کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپے ہے، اگر وہ الیکٹرک خریدتا ہے تو اسے ڈھائی لاکھ روپے کی پڑتی ہے۔ یعنی ‌ڈھائی لاکھ روپے والے دو وہیلر کی قیمت دو لاکھ روپے تک آ سکتی ہے، جس کی پھر بلا سود بینک فنانسنگ ہو سکے گی۔‘

ہارون اختر نے تھری وہیلرز پر بھی مجوزہ سبسڈی کے بارے میں بھی بتایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک رکشہ پورا دن چلتا ہے اور اس میں قیمت کا فرق زیادہ ہے، آئس انجن پر نیا رکشہ چار لاکھ کا جبکہ الیکٹرک کی قیمت دگنی ہے۔ وہاں سبسڈی چار لاکھ روپے کی ہو گی جبکہ بلا سود قرض دیا جائے گا۔

انھوں نے بتایا کہ اسی طرح چھوٹی الیکٹرک گاڑیوں کے لیے بھی سبسڈی پلان کی گئی ہے۔

کیا اس سے خریداروں کو فائدہ ہو گا؟

لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز (لمز) کے پروفیسر نوید ارشد پاکستان میں گاڑیوں، خاص طور پر الیکٹرک وہیکلز کی صنعت پر گہری نظر رکھتے ہیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ سبسڈی دینا اس لیے ضروری ہے تاکہ الیکٹرک بائیکس کی قیمتوں میں کمی لائی جا سکے۔ ’پہلے یہ منصوبہ تھا کہ حکومت اپنے بجٹ سے سبسڈی دے مگر چونکہ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں ہے، اس لیے پھر سبسڈی کے پیسے اکٹھے کرنے کے لیے کاربن لیوی عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘

مگر وہ کہتے ہیں کہ اس سبسڈی کو سلسلہ وار ختم کیا جائے گا اور پانچ سال تک کوشش کی جائے گی کہ یہ ٹیکنالوجی مین سٹریم ہو جائے۔

مگر پیٹرول کے مقابلے کم لاگت کے باوجود ان مہنگی الیکٹرک بائیکس میں لوگوں کی دلچسپی پر اب بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔

پاکستان میں موٹر سائیکل اسمبلرز کی ایسوسی ایشن کے چیئرمین صابر شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ ملک میں عموماً لوگ 70 سی سی کی موٹر سائیکل خریدتے ہیں جس کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپے تھی اور چینی کمپنیوں کی قیمت لوگوں کی قوت خرید کے قریب قریب یعنی ایک لاکھ 10 ہزار روپے تک تھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ’لوگ ای وی سکوٹرز خرید نہیں پا رہے تھے کیونکہ ان میں صرف بیٹری کی قیمت ایک لاکھ کے قریب ہوتی ہے۔‘

صابر شیخ کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ مہینوں کے دوران پنجاب کے بڑے اور چھوٹے شہروں میں ای وی سکوٹرز کی فروخت بڑھی ہے۔ کیونکہ لوگ فلیٹس کی بجائے گھروں میں رہتے ہیں، اسی لیے اُن کے لیے چارجنگ اور پارکنگ آسان ہوتی ہے جبکہ وہاں فاصلے بھی کم ہیں اور سڑکیں بھی قدرے بہتر ہیں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ انھیں توقع تھی کہ سب سے زیادہ ای وی سکوٹرز کراچی میں فروخت ہوں گے مگر گذشتہ دو برسوں کے دوران ایسا نہیں ہوا۔ اُن کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ اکثر اپارٹمنٹس میں رہتے ہیں جہاں چارجنگ کا مناسب انفراسٹرکچر موجود نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مشکل کو بھی حل کرنے کے لیے بعض کمپنیاں جیسے ایٹلس ہنڈا بیٹری سویپنگ ٹیکنالوجی پر کام کر رہی ہیں۔ اس کے ذریعے آپ بیٹری کو چارجنگ کے لیے سکوٹر سے نکال کر اوپر اپنے فلیٹ تک لے جا سکتے ہیں یا دوسری چارج شدہ بیٹری سے تبدیل کر سکتے ہیں۔

مگر یہ مزید مہنگی ہے اور ’ایک بیٹری کی لاگت ہی دو ڈھائی لاکھ روپے ہے۔‘

ان کی رائے ہے کہ پاکستان میں قوت خرید محدود ہونے کی وجہ سے اگلے برسوں کے دوران گریفین بیٹریاں ہی موزوں رہیں گی۔

24 جون کو ایٹلس ہنڈا نے اعلان کیا ہے کہ حکومتِ پاکستان کی نیشنل الیکٹرک وہیکل پالیسی کے تحت کمپنی رواں مالی سال کے دوران الیکٹرک سکوٹر متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

ایٹلس ہنڈا پاکستان کا سب سے بڑا موٹر سائیکل مینوفیکچرر ہے جس کے پاس سالانہ 15 لاکھ یونٹس بنانے کی صلاحیت ہے۔

اب جبکہ ایٹلس ہنڈا بھی الیکٹرک بائیک کی مارکیٹ میں آ رہا ہے تو ہم نے صابر شیخ سے پوچھا کہ پاکستان میں بائیکس کے مارکیٹ لیڈر کو ای وی کے شعبے میں آنے میں اتنی دیر کیوں لگی؟

انھوں نے بتایا کہ ہنڈا ایک جاپانی کمپنی ہے مگر ای ویز میں پاکستان یا دنیا بھر میں چین سے زیادہ تر ٹیکنالوجی آئی ہے۔ ’جاپانی اس میں چین سے پیچھے ہیں۔ ایٹلس ہنڈا جو ماڈل متعارف کرائے گا وہ بھی چین میں ان کے پارٹنرز کے ساتھ مل کر بنایا جائے گا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts