یوکرین کے متنازع اور طویل اگلے محاذوں پر لوگوں کا شکار کیا جا رہا ہے اور عسکری ساز و سامان کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ ہر کام کی ویڈیو بنائی جا رہی ہے، ان کی انٹری کی جا رہی اور ان نقصانات کی گنتی بھی کی جا رہی ہے۔
یوکرین کی ہر عسکری کامیابی کی ویڈیو بنائی جاتی ہے تاکہ کیئو میں بیٹھے تجزیہ کار اس کی تصدیق کر سکیںیوکرین میں ایسی تصاویر روزانہ آتی ہیں اور کبھی کبھی ان کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔
یوکرین کے متنازع اور طویل اگلے محاذوں پر لوگوں کا شکار کیا جا رہا ہے اور عسکری ساز و سامان کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ ہر کام کی ویڈیو بنائی جا رہی ہے، ان کی انٹری کی جا رہی اور ان نقصانات کی گنتی بھی کی جا رہی ہے۔
اس کھیل کا کچھ اس طرح استعمال کیا جا رہا کہ یوکرین فوج اپنے طاقتور حریف کے خلاف ہر حربہ استمال کر رہی ہے۔
اس سکیم کا تجربہ گذشتہ برس کیا گیا تھا اور اسے ’آرمی آف ڈرونز: بونس‘ یا ’ای پوائنٹس‘ کا نام دیا گیا تھا۔ اس کھیل میں یوکرین کے فوجی یونٹس ہر روسی فوجی اہلکار کو ہلاک یا ان کے ساز و سامان کو تباہ کر کے پوائنٹس جیت سکے ہیں۔
یہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے کال آف ڈیوٹی گیم یا پھر 1970 کی دہائی میں کسی گیم شو میں ہوا کرتا تھا۔
بریو ون نامی ادارے میں حکومتی اور عسکری ماہرین شامل ہیں۔ ان کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’جتنا بڑا اور تعزویراتی طور پر اہم ہدف ہوگا اتنے ہی زیادہ پوائنٹس ایک یونٹ کو ملیں گے۔‘
’مثال کے طور پر اگر دشمن کا ایک راکٹ لانچ سسٹم تباہ کرنے کے 50 پوائنٹس، ٹینک تباہ کرنے کے 40 اور صرف نقصان پہنچانے کے 20 پوائنٹس۔‘
یعنی کہ ایسا کہا جا سکتا ہے کی یوکرین نے روس کے ساتھ جنگ کو اب ایک گیم کی شکل دے دی ہے۔
ہر چیز کی ویڈیو بنائی جاتی ہے جس کا کیئو میں تجزیہ کیا جاتا ہے اور پھر عسکری ترجیحات کو مدِنظر رکھتے ہوئے پوائنٹس دیے جاتے ہیں۔
ای پوائنٹس سکیم کے پیچھے جن کا دماغ ہے وہ یوکرین کے ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے وزیر میخائلو فیدوروو ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’یہاں سب سے پہلی اہم بات یہ ہے کہ معیاری ڈیٹا حاصل کیا جائے، اسے ریاضی کے عمل سے گزارا جائے اور پھر یہ سمجھا جائے کے اپنے وسائل کو مزید موثر طریقے سے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘
بی بی سی کے نمائندے پال ایڈمز یوکرین کے وزیر برائے ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے ساتھلیکن ساڑھے تین برس کی تھکا دینے والی جنگ کے بعد یہ سکیم ایک اور کام میں بھی آر ہی ہے۔
میخالو کہتے ہیں کہ ’یہ حوصلہ افزائی کا بھی معاملہ ہے۔ جب میں ہم پوائنٹس میں تبدیلی لاتے ہیں تو لوگوں کے حوصلوں میں بھی تبدیلی نظر آتی ہے۔‘
میخالو کے دفتر میں میں بڑی بڑی سکرینیں آویزاں ہیں جس میں یوکرینی ڈرونز سے لی جانے والی براہ راست ویڈیوز چل رہی ہیں۔ یہ ویڈیوز جنگ کے اگلے محاذوں کی ہیں۔
یہ تمام ڈرونز مل کر یوکرین کی جنگ کی عجیب منظر کشی کر رہے ہوتے ہیں۔ ڈرون کمانڈرز کا دعویٰ ہے کہ 70 فیصد روسی فوجی اہلکاروں کے زخمی یا ہلاک ہونے کے ذمہ دار آسمان پر اُڑنے والے یہ روبوٹس ہی ہیں۔
روسی حملے کے بعد سے ہی سوشل میڈیا پر ڈرون سے بنائی گئی ویڈیوز گردش کر رہی ہیں اور ان ویڈیوز میں اکثر میٹل گانوں کا استعمال ہوتا ہے۔
ان ویڈیوز میں اکثر ٹینک کے گولے کی آواز آ رہی ہوتی ہے۔ کوئی تنہا فوجی اہلکار اپنی بندوق یا لکڑی کے ذریعے ڈرون کو گِرانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔
یہ مناظر دیکھنے میں خوفناک لگتے ہیں۔ ہر ویڈیو میں اپنے حریف کی موت کا جشن منایا جا رہا ہوتا ہے یا پھر ڈرون پھٹنے کی صورت میں کیمرہ دھندلا پڑ جاتا ہے۔
اس سب کے باوجود بھی یوکرینی فوجی یونٹ اطمینان سے کام کرتے ہیں کیونکہ انھیں معلوم ہے کہ ان کی ہر کامیابی پر انھیں انعام ملے گا۔
بریو ون مارکیٹ پلیس جہاں سے یوکرین فوجی یونٹس پوائنٹس کے عوض عسکری ساز و سامان حاصل کر سکتے ہیں۔بی بی بی نے یوکرینی فوج کے ایک درجن سے زیادہ یونٹس سے یہ جاننے کے لیے بات کی ہے کہ اگلے محاذوں پر لڑنے والے فوجی اہلکاروں کے ای سکیم کے بارے میں کیا تاثرات ہیں۔ ان کا ردِعمل مُلا جُلا تھا۔
یوکرین کی 108 ڈیفینس بریگیڈ سے تعلق رکھنے والے دلادیمیر کہتے ہیں کہ ’اس سکیم کے بارے میں اور میرے ساتھی عمومی طور پر مثبت سوچ رکھتے ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا وقت ہے جب اگلے محازوں پر لڑنے والے یونٹس روسی دفاعی سامان اور ڈرونز کو راکھ بنا رہے اس وقت یہ ای سکیم کے پوائنٹس کافی مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔
’یہ اپنے نقصان کی بھرپائی کا طریقہ ہے، ہم دشمنوں پر کاری سے کاری ضربیں لگا رہے ہیں۔‘
یوکرین کے شمال مشرقی علاقت میں لڑنے والی 22ویں میکنائزڈ بریگیڈ کے پاس اس ای سکیم سسٹم کو سمجھنے کے لیے تین مہینے تھے۔
اس یونٹ کے ایک فوجی اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب ہمیں معلوم ہوگیا کہ یہ سسٹم کام کیسے کرتا ہے اس کے بعد ہمیں یہ بہتر لگنے لگا۔‘
’ہمارے لڑکے اب بہت تھک چکے ہیں اور کسی بھی چیز سے ان کی حوصلہ افزائی نہیں ہو پاتی لیکن اس سسٹم سے مدد تو مل رہی ہے۔ اس پروگرام کے تحت ہمیں ڈرونز ملتے ہیں اور لڑکوں کو انعامات۔ یہ حوصلہ افزائی کرنے کا اچھا طریقہ ہے۔‘
لیکن کچھ ایسے یوکرینی فوجی بھی ہیں جو کہ اس سسٹم سے خوش نہیں ہیں۔
تقریباً ساڑھے تین برس کی سخت جنگ کے بعد اب یوکرینی فوجی تھکے ہوئے نظر آتے ہیںاپنے کال سائن سنیک کے نام سے مشہور ایک یوکرینی فوجی کہتے ہیں کہ: ’حوصلہ افزائی نہ ہونے کا بنیادی مسئلہ ای سکیم سے حل نہیں ہوگا۔‘
’پوائنٹس فوج سے بھاگنے والے لوگوں کو نہیں روک سکتے ہیں۔‘
دیمترو نامی ایک فوجی نے ہمیں ایک لمبا سا جواب بھیجا جس میں ان کا کہنا تھا کہ یوکرین کے فوجی یونٹ زیادہ تر وقت ایک دوسرے کی کامیابی اپنے نام کرنے کی کوششوں میں گزارتے ہیں یا پھر اکثر جان بوجھ کر تباہ شدہ روسی گاڑی کو ایک مرتبہ بھی اپنا نشانہ بناتے ہیں تاکہ انھیں زیادہ پوائنٹس مل سکیں۔
دیمترو کے نزدیک ای سکیم کا تصور ہی اخلاقی طور پر بُرا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ سسٹم ہماری بےکار دماغی عادت کا نتیجہ جس کے تحت ہم ہر چیز کو منافع میں بدلنا چاہتے ہیں، یہاں تک کہ اپنی موت کو بھی۔‘
لیکن یہ ای پوائنٹ سکیم بالکل ویسی ہی ہے جیسے یوکرین کا جنگ لڑنے کا طریقہ: تخلیقی، کسی باقاعدہ حکمت عملی سے مخلتف جہاں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کر کے خود سے بڑے حریف کے خلاف لڑا جا رہا ہے۔
میخالو کہتے ہیں کہ اس سکیم میں اب 90 سے 95 فیصد فوجی یونٹس حصہ لے رہے ہیں اور اس سے ہمیں انتہائی فائدہ مند ڈیٹا مل رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں اب معیاری معلومات مل رہی ہے اور ہم اس پر انحصار کر کے ہی فیصلے لیتے ہیں۔‘
’ڈیٹا کو مدِ نظر رکھ کر ہم فیصلوں میں تبدیلی لا سکتے ہیں لیکن اس کی بنیاد ہمیشہ سے ہی عسکری حکمت عملی رہی ہے۔‘
یوکرینی وزیر کے مطابق ڈرون ویڈیوز سے انھیں جنگی فیصلے لینے میں مدد ملتی ہےکیئو میں ایک دفتر میں ہماری ملاقاتیں کچھ ایسے تجزیہ کاروں سے ہوئی جو کہ ڈرون سے بنائی گئی ہر ویڈیو کا معائنہ کرتے ہیں، کسی ہدف کو نشانہ بنائے جانے کی تصدیق کرتے ہیں اور فوجی یونٹس کو پوائنٹس دیتے ہیں۔
ہمیں ان کے اصل نام بتانے یا ان کے کام کا مقام ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دیگئی ہے۔
ولودیا کہتی ہیں کہ ’یہاں دو کٹیگریز ہیں: صرف نشانہ بنانا اور تباہ کرنا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں چیزوں کے پوائنٹس مختلف ہیں۔‘
ہمیں یہ معلوم ہوا کہ کسی روسی فوجی کو قتل کرنے سے زیادہ پوائٹنس اس کے سرینڈر پر ملتے ہیں کیونکہ کسی بھی جنگی کا استعمال مستقبل میں کسی معاہدے کے وقت کیا جا سکتا ہے۔
ولودیا کہتی ہیں کہ ’ایک روسی فوجی کو ہلاک کرنے کا ایک پوائنٹ ہے لیکن ایک فوجی کو زندہ پکڑنے کے پوائنٹس 10 ہیں۔‘
ولودیا کی ٹیم روزنہ ہزاروں ویڈیوز میں روسی فوج کے نقصانات کی تصدیق کرتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’سب سے زیادہ مشکل کام آرٹلری کے سامان کو نشانہ بنانا ہوتا ہے‘ اور اس دوران انھوں نے ہمیں ایک ویڈیو میں درختوں کے بیچ چھپی ایک لحیم شحیم گن بھی دکھائی۔
’روسی کھدائی کرنے اور چھپنے میں ماہر ہیں۔‘
لیکن جیسے جیسے روس کی جنگی حکمت عملی تبدیل ہو رہی ہے ویسے ویسے ای سکیم کا پوائنٹ سسٹم بھی بدل رہا ہے۔
روس نے اب اس جنگ میں چھوٹے فوجی دستوں یا موٹر بائکس پر گشت کرنے والے اہلکاروں کا استعمال بڑھا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب کسی ایک فوجی کو قتل کرنے یا گرفتار کرنے پر کسی ٹینک یا بکتر بند گاڑی کو تباہ کرنے سے زیادہ پوائنٹس ملتے ہیں۔
بریو ون کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پہلے کسی دشمن فوجی کو مارنے کے دو پوائنٹس ملتے تھے لیکن اب ایک دشمن کو مارنے کے چھ پوائنٹس ہیں۔‘
یہاں دشمن کے ڈرون آپریٹرز کو ڈرونز سے زیادہ قیمتی تصور کیا جاتا ہے۔
پوائنٹس کے سسٹم کو بھی یوکرین میں مزید بہتر بنایا جا رہا ہے۔
اب تک یونٹس کو اپنے پوائنٹس کو نقد رقم میں تبدیل کرنے کی اجازت تھی اور زیادہ تر یونٹس ان پیسوں کا استعمال ساز و سامان خریدنے کے لیے کرتے تھے۔
اب یوکرینی فوجی ایک آئن لائن بازار سے 1600 سے زیادہ مصنوعات ان پوائنٹس کے عوض خرید سکتے ہیں اور ظاہر سی بات ہے اس کا خرچہ یوکرین کی وزارتِ دفاع ہی اُٹھاتی ہے۔
اس آن لائن بازار کو بریو مارکیٹ کا نام دیا گیا ہے جو کہ روایتی مارکیٹ پلیس جیسی ہی ہے۔ یوکرینی فوجی یہ امید کرتے ہیں کہ انھیں اس مارکیٹ سے ضرورت کا عسکری سامان فوری طور پر مل جایا کرے، جیسے کہ بغیر ڈرائیور کے چلنے والی گاڑیاں تاکہ زخمیوں کو جلدی ہسپتال پہنچایا جا سکے۔
قتل کے پوائنٹس، جنگ کا ایمازون۔ کچھ لوگوں کو شاید یہ سننے میں بُرا لگے لیکن یہ جنگ ہے اور یوکرین اسے لڑنے کے لیے پُرعزم ہے، وہ بھی ایک موثر طریقے سے۔