بلوچستان میں خاتون اور مرد کے قتل کی وائرل ویڈیو: ’واقعہ عید سے ایک دن پہلے ہوا، ایک ملزم گرفتار ہو چکا ہے،‘ وزیرِ اعلیٰ

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ سرفراز بگٹی نے سوشل میڈیا پر خاتون اور مرد کے قتل کی وائرل ویڈیو کے بارے میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ ’عید سے ایک دن پہلے کی ہے اور اس سلسلے میں ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘
قتل، بندوق
Getty Images
علامتی تصویر

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے وزیرِ اعلیٰ سرفراز بگٹی نے سوشل میڈیا پر خاتون اور مرد کے قتل کی وائرل ویڈیو کے بارے میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ ’عید سے ایک دن پہلے کی ہے اور اس سلسلے میں ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘

سوشل میڈیا پر کل سے وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں بظاہر چند مسلح افراد ایک مرد اور خاتون کو گولیاں مار کر قتل کر رہے ہیں۔

اگرچہ بی بی سی اس ویڈیو کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے اور نہ ہی اس میں موجود افراد کی شناخت کی تصدیق ہو سکی ہے تاہم وزیر اعلیٰ بلوچستان کے مطابق انھوں نے کل ہی اس وائرل ہونے والی ویڈیو کا نوٹس لیا تھا جس کے بعد ’مقتولین کی شناخت ہو چکی ہے اور اب قانون اپنا راستہ لے گا۔‘

بلوچستان حکومت کے ترجمان شاہد رند نے اس سے قبل ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ایسی سفاکانہ حرکات ناقابل برداشت ہیں، مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘

کوئٹہ کے ڈپٹی کمشنر میجر ریٹائرڈ مہراللہ بادینی نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس ویڈیو کے بارے میں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ ویڈیو گذشتہ روز منظرِعام پر آئی تھی جس کا وزیر اعلیٰ نے نوٹس لے کر اس بارے میں تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ ’ابھی ابتدائی طور پر یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ ویڈیو پرانی ہے۔ اس علاقے کا تعین کیا جا رہا ہے اور یہ دیکھا جا رہا ہے کہ آیا یہ کوئٹہ کا علاقہ مارواڑ ہے یا ضلع مستونگ میں دشت کا علاقہ ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ضلع کوئٹہ میں پولیس حکام اس بارے میں تحقیقات کررہے ہیں جبکہ مستونگ میں لیویز فورس کے حکام بھی اس بارے میں تحقیقات کررہے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ حکومت نے اس واقعے کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور اس واقعے کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔

https://twitter.com/PakSarfrazbugti/status/1946928844923195709

ویڈیو میں کیا ہے؟

اس ویڈیو میں تمام لوگ براہوی زبان میں بات کر رہے ہیں اور ان کا لہجہ وہی ہے جو کہ کوئٹہ اور مستونگ کے مختلف علاقوں میں بولا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا بشمول ایکس پر اس ویڈیو کو درجنوں افراد نے شیئر کیا ہے اور اسے لاکھوں مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔

ویڈیو بظاہر کسی پہاڑی مقام پر بنائی گئی ہے جہاں کچی سڑک کے اردگرد ویرانہ ہے۔ شروعات میں متعدد ویگو ڈالے اور جیپیں دیکھی جا سکتی ہیں جن کے باہر دن کی روشنی میں کئی افراد موجود ہیں۔

بظاہر یہ افراد سرخ لباس اور گندمی چادر میں ملبوس ایک خاتون کو گاڑیوں سے کچھ دور کھڑا ہونے کا کہتے ہیں۔ اس دوران خاتون براہوی زبان میں کہتی ہیں کہ ’صرف گولی کی اجازت ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔‘

جس کے بعد وہاں پر موجود مرد یہ کہتے ہیں کہ ہاں صرف گولی مارنے کی اجازت ہے۔

اس مکالمے کے بعد وہاں پر موجود مرد یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ’قرآن مجید ان کے ہاتھ سے لے لو‘۔ یہ واضح نہیں ہے کہ قرآن خاتون کے ہاتھ میں تھا یا مرد کے جبکہ اس کے ساتھ بعض لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’خاموشی خاموشی۔‘ اس کے ساتھ ایک مرد گالیاں بھی دیتا سنائی دیتا ہے۔

خاتون اس کے بعد کوئی مزاحمت نہیں کرتیں بلکہ خاموشی سے گاڑیوں سے دور کھڑی ہو جاتی ہیں۔

اس بات چیت کے بعد ویڈیو میں چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا جاتی ہے جبکہ اس کے بعد ایک، ایک کر کے چند گولیاں چلائی جاتی ہیں۔

ویڈیو میں یہ معلوم نہیں ہو رہا ہے کہ پہلے مرد کو گولی ماری گئی یا خاتون کو تاہم پہلے مرحلے کی گولیاں چلانے کے بعد یہ آواز سنائی دی جاتی ہے کہ 'اُس کو مار دو'، جس پر بہت زیادہ گولیاں چلانے کی آواز آتی ہے۔

اس دوران ایک شخص کسی ویڈیو بنانے والے پر ناراضگی کا اظہار بھی کرتا سنائی دیتا ہے جس کے بعد خاتون پر کوئی شخص دوبارہ چند گولیاں چلاتا ہے۔

ترجمان بلوچستان حکومت کا مزید کہنا تھا کہ کہ ’ویڈیو میں دکھائی گئی بربریت انسانیت سوز ہے۔ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘

ادھر سوشل میڈیا پر بعض صارفین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ نام نہاد غیرت کے نام پر قتل کا واقعہ ہو سکتا ہے تاہم پولیس نے اب تک مقتولین اور ملزمان کی شناخت یا جائے وقوعہ کے مقام کی تصدیق نہیں کی ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts