سوات کے علاقے خوازہ خیلہ میں ایک غیر رجسٹرڈ مدرسے میں کمسن طالبعلم کے بہیمانہ قتل اور دیگر بچوں پر تشدد کے واقعے پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے مدرسے کے ناظم سمیت 10 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس نے مدرسے سے لاٹھیاں اور زنجیریں بھی برآمد کرلی ہیں جبکہ اسسٹنٹ کمشنر خوازہ خیلہ نے مدرسے کو سرکاری طور پر سیل کر دیا ہے۔
ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر (ڈی پی او) سوات محمد عمر خان نے ایس پی انویسٹی گیشن بادشاہ حضرت خان کے ہمراہ ڈی پی او آفس سیدو شریف میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ 21 جولائی کو 12 سالہ طالبعلم فرحان ولد محمد ایاز کی تشدد زدہ لاش خوازہ خیلہ اسپتال لائی گئی۔ واقعے کے بعد مقتول کے چچا کی مدعیت میں قاری محمد عمر اُس کے بیٹے احسان اللہ، ناظم مدرسہ عبد اللہ اور بخت امین کے خلاف قتل اور چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا۔
ڈی پی او کے مطابق نامزد ملزمان عبداللہ اور بخت امین کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ دیگر مرکزی ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔
مزید انکشافات میں بتایا گیا کہ مدرسے میں دیگر بچوں پر بھی جسمانی تشدد کے شواہد ملے ہیں، جس پر 9 اساتذہ کے خلاف الگ مقدمہ درج کرکے انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتار افراد میں عمر ازدہ، محسن، گوہر علی، عبد الرحمٰن، سید رحمٰن، نور محمد، سمیع الرحمن سمیت دیگر شامل ہیں۔
مدرسے میں زیر تعلیم 160 بچوں کو ان کے والدین کے حوالے کر دیا گیا ہے جبکہ مدرسے کو غیر قانونی اور غیر رجسٹرڈ ہونے پر بند کر دیا گیا ہے۔ ڈی پی او نے کہا کہ ضلع بھر میں غیر رجسٹرڈ مدارس کی فہرست مرتب کی جا رہی ہے اور ان کے خلاف بھی سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ڈی پی او نے یہ بھی بتایا کہ گلکدہ کے ایک اور مدرسے میں بچے پر تشدد کے کیس میں دو ملزمان محمد رحمان اور عبدالسلام کو گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ قانون سے بالاتر کوئی نہیں، بچوں پر ظلم کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔