سرفراز بگٹی نے 16ویں نیشنل ورکشاپ بلوچستان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے ماضی کی حقیقت اور صوبے کی سیاسی تاریخ کو سمجھنا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے بارے میں ملک کے دیگر حصوں میں پائے جانے والے تصورات گمراہ کن اور زمینی حقائق سے مختلف ہیں۔
سرفراز بگٹی نے نوجوانوں کو قریب لانے اور ان کے تحفظات دور کرنے کو حکومت کی ترجیح قرار دیا تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ریاست سے بغاوت کرنے اور بے گناہوں کو قتل کرنے والوں سے آئین سے باہر کوئی بات ممکن نہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ چاہے وہ قوم پرستی کے نام پر ہو یا مذہب کے دہشت گردی ہر حال میں ناقابل قبول ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شورش کی اصل وجہ ترقیاتی تفاوت یا بیروزگاری نہیں بلکہ کچھ عناصر کی علیحدگی پسند سوچ ہے جو بلوچ شناخت کی بنیاد پر ریاستی وحدت کو چیلنج کر رہی ہے۔
سرفراز بگٹی نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو پوری قوم کی جنگ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ صرف بلوچستان کی نہیں بلکہ پاکستان کی سالمیت کا مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ قلات میں محدود کارروائی کو پورے بلوچستان کا آپریشن قرار دینا تاریخی غلطی تھی۔
وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ بلوچستان میں امن و امان کے قیام کے لیے صوبائی ایکشن پلان ترتیب دیا گیا ہے جس کے تحت ریسپانس میکنزم کو مؤثر بنایا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گرد کسی بھی علاقے پر دیرپا قبضہ نہیں کر سکتے ان کا اصل ہدف صرف خوف پھیلانا ہوتا ہے۔
مسنگ پرسنز کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اس مسئلے پر جامع قانون سازی ہو چکی ہے اور سیکیورٹی فورسز حساس علاقوں میں کام کر رہی ہیں جہاں دشمن اور دوست کی شناخت کرنا مشکل ہوتا ہے۔
گورننس میں اصلاحات کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ صحت اور تعلیم کے شعبوں میں 99.99 فیصد بھرتیاں میرٹ پر کی گئی ہیں جبکہ طلبہ کو قومی اور بین الاقوامی اسکالرشپس فراہم کی جا رہی ہیں۔ کرپشن کے خاتمے کے لیے اینٹی کرپشن اداروں اور سی ایم آئی ٹی کو مؤثر بنایا گیا ہے۔
حالیہ دنوں مرد و خاتون کے بہیمانہ قتل پر وزیر اعلیٰ نے بتایا کہ حکومت نے اس کیس میں از خود ایف آئی آر درج کی ہے کیونکہ ورثاء کی جانب سے کوئی سامنے نہیں آیا۔ انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت مظلوموں کے ساتھ کھڑی ہے اور انصاف کی مکمل فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔