میری بیٹی 5 بچوں کی ماں تھی اور۔۔ غیرت کے نام پر قتل کی گئی عورت کی مبینہ ماں کا قرآن ہاتھ میں لے کر بیان ! ویڈیو میں کیا مطالبہ کردیا؟

image

”قرآن کی قسم! ہم نے کوئی ناحق قتل نہیں کیا“

”میں گل جان، بانو کی ماں، ہاتھ میں قرآن اٹھا کر سچ بول رہی ہوں۔ میری بیٹی پانچ بچوں کی ماں تھی، سب سے بڑا بیٹا نور احمد 18 سال کا ہے، باسط 16، فاطمہ 12، صادقہ 9 اور ذاکر 6 سال کا ہے۔ وہ گھر سے احسان اللہ کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ ہمیں بلوچی غیرت اور رسم و رواج کا سامنا تھا۔ اس نے ہمارے خاندان کی عزت پامال کی، ہم نے فیصلہ کیا کہ اسے سزا ملنی چاہیے۔ نہ ہم نے ناحق خون بہایا، نہ کسی بےگناہ کو مارا۔ احسان اللہ ویڈیوز بنا کر ہمیں دھمکیاں دیتا تھا، ہمارے بیٹوں کو گولی مارنے کی باتیں کرتا تھا۔ ہم نے اسے مارا، لیکن انصاف کے تحت، روایت کے تحت۔ یہ کوئی لاوارث قتل نہیں تھا۔ ہمارے خلاف کارروائیاں بند ہونی چاہییں، ہمارے لوگ، ہمارے سردار بےقصور ہیں۔ فیصلہ عدالت میں نہیں ہوا، قبیلے کی روایت میں ہوا۔“

بلوچستان کے علاقے ڈیگاری میں پیش آنے والے ہولناک قتل کیس نے ایک نیا رخ اس وقت اختیار کیا جب مقتولہ بانو کی مبینہ ماں کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی۔ ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے میں کرب، جس کے ساتھ وہ اپنی بیٹی کے قتل کو 'عزت کا بدلہ' اور 'روایت کی پاسداری' قرار دیتی ہے۔

ویڈیو میں وہ براہوی زبان میں کہتی ہیں کہ اُن کی بیٹی نے ایک پڑوسی نوجوان کے ساتھ بھاگ کر، پورے خاندان کو رسوا کیا۔ اس ’جرم‘ کے بعد اُن کے پاس قبیلہ، جرگہ اور بلوچی اقدار کے مطابق صرف ایک راستہ بچا، موت کی سزا۔

احسان اللہ، مقتول لڑکا، مبینہ طور پر ویڈیوز کے ذریعے بانو کے خاندان کو مسلسل اشتعال دلاتا رہا۔ کبھی مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے، تو کبھی گولیاں دکھاتے ہوئے وہ کہتا تھا کہ ”میں سمالانی قبیلے کا شیر ہوں، میرے پاس آنا ہے تو جگر لاؤ“۔ مقتولہ کے بھائیوں کو وہ قتل کی دھمکیاں دیتا، ان کی تصاویر پر نشانے باندھنے کی بات کرتا۔ یہ سب کچھ، بانو کی والدہ کے مطابق، بغاوت اور بےعزتی کی انتہا تھی، جس کا فیصلہ گھر یا عدالت میں نہیں بلکہ قبیلے کی ’عدالت‘ یعنی جرگے نے دیا۔

قاتلانہ ویڈیو اور ’غیرت‘ کی آگ

واضح رہے کہ یہ قتل کوئی خفیہ کارروائی نہ تھی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ قتل کرنے والے 15 افراد تین گاڑیوں میں بانو اور احسان اللہ کو سنجیدی کے میدان میں لے گئے، گولیاں برسائیں، ویڈیو بنائی اور 35 دن بعد سوشل میڈیا پر جاری کر دی۔ ویڈیو کی سفاکی نے ہر ذی شعور کو ہلا دیا، مگر بانو کی ماں اب بھی اس فیصلے کو جائز قرار دے رہی ہیں۔

قانون بمقابلہ روایت: سردار کی صفائی

جس جرگے کا ذکر بانو کی ماں کر رہی ہیں، اس کے حوالے سے سردار شیرباز خان ساتکزئی نے بی بی سی سے گفتگو میں واضح انکار کیا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ان کی سربراہی میں کوئی جرگہ نہیں ہوا، گاؤں کے کچھ افراد نے از خود یہ قدم اٹھایا۔ لیکن متاثرہ خاندان کی خاتون سردار کو بےقصور قرار دیتے ہوئے اُن کی رہائی کا مطالبہ کر رہی ہے۔

ریاست کی نظر میں جرم، قبائلی نظر میں انصاف؟

پولیس کی تفتیش کے مطابق یہ واقعہ عید الاضحیٰ سے تین دن قبل پیش آیا۔ ایف آئی آر کے مطابق قتل کا حکم قبائلی سردار نے دیا اور واقعہ دانستہ طور پر ویڈیو میں محفوظ کیا گیا۔ قانون نے دہشتگردی، قتل اور دیگر سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ اب تک 20 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے، جن میں سے 11 کی باقاعدہ گرفتاری ظاہر کی گئی ہے۔

سوشل میڈیا، انسانی حقوق تنظیموں اور شہری حلقوں میں اس واقعے نے غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔


Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts Follow