صوبہ خیبر پختونخوا کا ضلع سوات اپنے قدرتی مناظر کی وجہ سے سیاحوں کے لیے کشش رکھتا ہے جسے پاکستان کا سوئٹزرلینڈ بھی کہا جاتا ہے۔
برف پوش پہاڑ، جنگلات، دریا اور جھیلیں دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں مگر سیلاب نے نہ صرف اس وادی کی رونقیں کم کر دی ہیں بلکہ اب یہاں خوف کی فضا بھی قائم ہے۔
ہر سال آنے والے سیلاب کے بعد ایک نئی بحث چھڑ جاتی ہے۔ انتظامیہ اسے موسمیاتی تبدیلی (کلائمیٹ چینج) کا نام دیتی ہے مگر دریائے سوات میں ایسے خوفناک سیلاب کے آنے کی وجوہات کیا ہیں؟
سوات میں ماحولیاتی تبدیلی کا اثر یا وجہ کچھ اور؟
سوات بائی پاس کے قریب 27 جون کو 13 سیاحوں کے ڈوب جانے کے واقعے کے بعد کئی سوالات نے جنم لیا جن میں بروقت ریسکیو نہ کیے جانے کے علاوہ پانی کے تیز بہاؤ کے حوالے سے بھی سوالات پیدا ہوئے۔
تاہم اس واقعے کے بعد سوات کی انتظامیہ نے ایک جانب تجاوزات کو اس کی بڑی وجہ قرار دے کر تعمیرات کے خلاف آپریشن شروع کیا ہے تو دوسری جانب حکومت نے دریا کنارے غیرقانونی مائننگ کو سیلاب کی وجہ قرار دیا ہے۔
دریا کے کنارے مائننگ کیوں کی جاتی ہے؟
مائن اونرز ایسوسی ایشن کے عہدیدار اصغر علی نے بتایا کہ ’دریا کے کنارے بڑے پیمانے پر کانیں نہیں تاہم زیادہ تر کان کن سونے کے لیے مائننگ کرتے ہیں یا پھر تعمیراتی صنعت کے لیے پتھر، ریت اور بجری نکالنے کے لیے مائننگ کی جاتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’دریائے سوات کان کنی کے لیے بہترین سمجھا جاتا ہے اسی لیے یہاں جگہ جگہ کرشنگ پلانٹ نظر آئیں گے۔ کرشنگ پلانٹ کے لیے ریور بیڈ پر گہری خندقیں کھودی جاتی ہیں جن میں جب دریا کا پانی شامل ہوتا ہے تو یہ کنویں بن جاتے ہیں۔‘
انہوں نے انکشاف کیا کہ ریور بیڈ سے ٹنوں کے حساب سے ریت اور بجری نکال کر فروخت کی جاتی ہے۔
کان کن اصغر علی کے مطابق دریا کی ریت میں شامل پلیسر گولڈ کو نکالنے کے لیے بڑے پیمانے پر غیرقانونی مائننگ ہوتی ہے۔ پلیسر گولڈ کے لیے چترال سے لے کر نوشہرہ تک دریاؤں کے کناروں پر مشینری لگا کر مائننگ کی جا رہی ہے جس سے ریور بیڈ بری طرح متاثر ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پلیسر گولڈ کی تلاش میں مقامی لوگ بھی حصہ لیتے ہیں بلکہ یہ کچھ خاندانوں کے روزگار کا ذریعہ بن چکا ہے اور انتظامیہ پلیسر گولڈ کے لیے ہونے والی مائننگ روکنے میں ناکام نظر آ رہی ہے۔‘
اصغر علی کا کہنا تھا کہ ’حکومت اگر قانونی طریقے سے مائننگ کروائے تو مقامی لوگوں اور حکومت کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔‘
دریائے کی قریبی آبادی کے بہت سے لوگوں کا روزگار پلیسر گولڈ نکالنے سے وابستہ ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
’ایس او پیز کے مطابق کان کنی کی جائے تو ماحول کو بھی خطرہ لاحق نہیں ہوگا یعنی مائننگ سے پانی کی سطح اور بہاؤ متاثر نہ ہو اور سب سے اہم پانی کے راستے میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔‘
مائننگ سے دریا کا بہاؤ متاثر ہوا
محکمہ آب پاشی کے ریٹائرڈ انجینئر شیر زمان نے اس معاملے پر مؤقف اپنایا کہ ’دریائے سوات میں بغیر منصوبہ بندی کے کان کنی کی گئی ہے جس نے دریا کے قدرتی بہاؤ کو متاثر کیا ہے۔ دریا کے کناروں کو ریور بیڈز کہا جاتا ہے جو قدرتی طور پر دریا کے بہاؤ کو کنٹرول کرتے ہیں مگر ریور بیڈز کی کھدائی سے کنارے اب کمزور ہوچکے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مسلسل مائننگ سے ایک تو دریا اپنا رخ تبدیل کر رہا ہے، دوسرا دریا کی چوڑائی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔‘
ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ کے سابق انجینئر کے مطابق غیرقانونی مائننگ سے دریا کا بہاؤ متاثر ہوا ہے جس کے باعث اب مقامی آبادی کو بھی خطرات لاحق ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مائننگ کے بعد ملبہ دریا میں گرا دیا جاتا ہے جو ایک بڑی آفت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ بارش کے بعد جب پانی کا بہاؤ بڑھ جاتا ہے تو ملبے اور پتھر دریا کا رخ موڑ دیتے ہیں۔‘
شیر زمان کا ماننا ہے کہ ’سیلاب سے ہونے والی تباہی کی بڑی وجہ مائننگ ہی ہے جس سے لوگ غافل ہیں اور انتظامیہ بھی اس معاملے میں سنجیدہ نہیں۔‘
کیا انتظامیہ کی جانب سے مائننگ کی اجازت ہے؟
سوات کے مقامی صحافی شہزاد نوید نے بتایا کہ ’دریا کے کنارے مائننگ معمول کے مطابق ہوتی رہتی ہے۔ حالیہ سیلاب سے پہلے کچھ لوگوں کو لائسنس دیے گئے تھے جن کو 50 سے 60 فٹ کے اندر مائننگ کی اجازت ملی مگر ان لوگوں نے لائسنس کا غلط استعمال کر کے مختلف جگہوں پر مائننگ کی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مائنز کے ٹھیکیداروں نے جگہ جگہ کھدائی کرکے دریا کا حلیہ بگاڑ دیا ہے اور کئی مقامات پر دریا کا رخ ہی موڑ دیا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’سیلاب سے ہونے والی تباہی سے پہلے سوات کے دریاؤں میں رات کے اندھیرے میں غیرقانونی مائننگ ہوتی تھی۔‘
دریائے سوات سے بڑے پیمانے پر ریت اور بجری نکال کر فروخت کی جاتی ہے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
انتظامیہ کا مؤقف
ضلعی انتظامیہ سوات کا کہنا ہے کہ دریاؤں کے کنارے کسی بھی قسم کی مائننگ پر دفعہ 144 کے تحت پابندی ہے جس کی خلاف ورزی پر کارروائی کی جا رہی ہے۔‘
انتظامیہ کے مطابق مائننگ کے الزام میں 20 سے زائد افراد کے خلاف مقدمات درج کر کے گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے جبکہ مشینری بھی قبضے میں لی گئی۔
ضلعی انتظامیہ نے ایریگیشن ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مل کر تجاوزات کے خلاف بھی گرینڈ آپریشن شروع کیا ہے جس میں اب تک 70 سے زائد عمارتیں مسمار کی گئی ہیں۔
ترجمان ضلعی انتظامیہ سوات کے مطابق گزشتہ دو دنوں میں 3 مختلف مقامات پر غیرقانونی کھدائی روک کر کارروائی کی گئی۔
پہلی کارروائی اسسٹنٹ کمشنر خوازہ خیلہ نے کی۔ کارروائی کے دوران ایک ایکسویٹر مشین کو موقع پر ضبط کر لیا گیا جبکہ متعدد گاڑیوں میں بھری گئی ریت و بجری کو وہیں متعلقہ مقامات پر واپس اَن لوڈ کر دیا گیا۔
انتظامیہ کی جانب سے تحصیل بحرین میں دریائے سوات میں کھدائی کرنے والوں کے خلاف آپریشن کیا گیا۔ کارروائی کے دوران غیرقانونی کھدائی میں ملوث افراد کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا جبکہ مشینری کو بھی قبضہ میں لیا گیا۔
ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر بحرین نے واضح کیا کہ قدرتی وسائل کا تحفظ اور قانون کی عملداری ضلعی انتظامیہ کی اولین ترجیح ہے۔ دریا کنارے کھدائی سے نہ صرف علاقے کی قدرتی خوبصورتی متاثر ہوتی ہے بلکہ ماحولیاتی نظام کو بھی شدید نقصان پہنچتا ہے۔
انہوں نے خبردار کیا ہے کہ ایسی غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی جاری رہے گی۔
یاد رہے کہ دو سال قبل کالام میں سیلاب کی تباہی کے بعد دریا کے کنارے تعمیر ہوٹلوں کو ذمہ دار قرار دے کر کارروائی کا آغاز کیا گیا تاہم وقت گزرنے کے ساتھ پھر سے تجاوزات کی بھرمار ہو گئی۔