کیپٹن سوربھ کالیا کو کارگل جنگ کا پہلا’جنگی ہیرو‘ مانا جا سکتا ہے۔ وہ اس جنگ میں ہلاک ہونے والے پہلے انڈین فوجی افسر تھے۔ ان کے والدین اپنے بیٹے سے متعلق ایک قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔
کارگل جنگ کے 26 سال بعد بھی انڈین فوج کے کیپٹن سوربھ کالیا کے 78 سالہ والد این کے کالیا اپنے بیٹے کو اُس کا حق دلوانے کے لیے ایک قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ایک ایسی جنگ جس میں کیپٹن سوربھ کالیا کے والد کو گذشتہ 26 برسوں میں کوئی کامیابی تو حاصل نہیں ہوئی لیکن وہ کہتے ہیں کہ جب تک اُن کی سانسوں میں سانس ہے وہ اپنے بیٹے کے لیے لڑتے رہیں گے۔ ان کو اُمید ہے کہ وہ اپنے بیٹے کو اُس کا حق دلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
26 جولائی 1999 وہ دن تھا کہ جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان کارگل کے محاذ پر لڑی جانے والی جنگ کا اختتام ہوا تھا۔ اس جنگ کا آغاز تین مئی 1999 کو اُس وقت ہوا تھا جب انڈیا اور پاکستان کی افواج دُنیا کے بلند ترین محاذ جنگ پر آمنے سامنے آئیں تھیں۔ یہ جنگ تقریباً تین ماہ تک جاری رہی تھی۔
کیپٹن سوربھ کالیا کو کارگل جنگ کا پہلا ’جنگی ہیرو‘ مانا جاتا ہے کیونکہ انڈین فوج کے مطابق وہ اس جنگ میں مارے جانے والے پہلے انڈین فوجی افسر تھے۔
حکام کے مطابق 15 مئی 1999 کو کیپٹن سوربھ کالیا اور اُن کے پانچ سپاہیوں کو پاکستانی فوج نے حراست میں لے لیا تھا۔
انڈین فوج کا الزام ہے کہ 22 روز تک حراست میں رکھنے کے بعد اُن کی ’مسخ شدہ لاش‘ انڈیا کے حوالے کی گئی تھی۔ انڈین فوج کے مطابق یہ جنگی قیدیوں کے حوالے سے جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی تھی اور یہی وہ پہلو ہے جس کے لیے کیپٹن کالیا کے والد این کے کالیا آج بھی اپنے بیٹے کے لیے لڑ رہے ہیں۔
سنہ 2012 میں انڈیا کے دورے پر پہنچنے والے پاکستان کے اُس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے صحافیوں سے کیپٹن کالیا پر تشدد اور مسخ شدہ لاش ملنے کے حوالے سے کہا تھا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کارگل جنگ میں مارے جانے والے انڈین کیپٹن سوربھ کالیا پاکستانی گولیوں سے ہلاک ہوئے یا خراب موسم کی وجہ سے۔
کارگل جنگ میں انڈیا کے پہلے ’وار ہیرو‘
کیپٹن سوربھ کالیا کی موت کن حالات میں ہوئی یہ آج تک واضح نہیں ہو سکا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ انھیں اتنی پذیرائی نہیں مل سکی جتنی کارگل جنگ میں مارے جانے والے دوسرے انڈین فوجی افسروں کے حصے میں آئی۔
لیکن اب اُن کی وفات کے تقریباً 26 سال بعد ان کی سوانح حیات ’دی لیگیسی آف کیپٹن سوربھ کالیا‘ شائع ہوئی ہے۔ اسے’پینگوئن انڈیا‘ نے شائع کیا ہے اور اسے مشترکہ طور پرسین اور این کے کالیا نے تحریر کیا ہے۔
اس سوانح عمری میں کارگل جنگ میں ان کے کردار اور ان پر ہونے والے مبینہ مظالم کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔
جب 26 سال بعد اس کتاب کو لکھنے کی وجہ پوچھی گئی تو مسز سین نے کہا کہ ’جب یہ کیس جون 1999 میں سامنے آیا تو میں گریجویشن کر رہی تھی اور کیپٹن کالیا کے ساتھ ہونے والے ظلم کے بارے میں اخبارات میں پڑھ چکی تھی، تب مجھے اس میں دلچسپی پیدا ہوئی، میں ہمیشہ یہی سوچتی تھی کہ کیپٹن سوربھ کالیا کے خاندان پر یہ سب جان کر کیا گُزری ہو گی کہ اُن کے بیٹے کے ساتھ محاذ جنگ پر کیا ہوا تھا۔ بس یہی وہ وقت تھا کہ جب میں نے سنجیدگی سے سوربھ کالیا سے متعلق معلومات جمع کرنا شروع کیں۔‘
مسز سین نے اپنی تعلیم مکمل کی اور عملی زندگی کا آغاز کیا۔ مسز سین، جو اس وقت نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں مقیم ہیں، نے کہا کہ ’شادی کے بعد ہمارے ہاں ایک بیٹے کی پیدائش ہوئی اور اتفاق سے میرے بیٹے کی اور سوربھ کالیا کی تاریخِ پیدائش بھی ایک تھی۔‘
اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’شاید یہی وجہ تھی کہ مُجھے لگا کہ کیپٹن کالیا کی زندگی سے متعلق وہ باتیں انڈیا کے لوگوں کے سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ جس کے بارے وہ نہیں جانتے۔ کیپٹن کالیا پر اس جنگ میں کیا گُزری اور اُن کے اس جنگ میں مارے جانے کے بعد اُن کے والدین کیا کُچھ برداشت کر چُکے ہیں، بس یہی وہ سب کُچھ تھا کہ جس پر میں نے اپنے کام کا آغاز کیا۔‘
یہ کتاب ہماچل پردیش کے پالم پور ضلع میں کیپٹن کالیا کے اہلخانہ اور دوستوں کے ساتھ تقریباً ایک سال کے عرصے میں کی گئی کئی ملاقاتوں کے بعد لکھی گئی ہے، جس میں کیپٹن سوربھ کالیا کے بچپن سے لے کر کارگل جنگ کے دوران ان کی موت تک کی تفصیلات کو منظم طریقے سے جمع کیا گیا ہے۔
سوربھ کالیا کا فوجی بننے کا خواب
جب سوربھ کالیا کارگل جنگ میں ہلاک ہوئے تب اُن کی عُمر صرف 22 سال تھی۔ سوربھ کو ایک نوجوان لیفٹیننٹ کے طور پر انڈین فوج میں شامل ہوئے ابھی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔
اپنے بیٹے کی فوج میں شمولیت کی خواہش کے بارے میں اُن کے والد این کے کالیا کہتے ہیں کہ ’ہمارے خاندان میں سوربھ سے پہلے کوئی بھی فوج میں نہیں گیا تھا۔ ہمارے دور پار کے رشتہ داروں میں بھی کوئی فوجی نہیں تھا۔ لیکن تقدیر نے میرے بیٹے کو ملک کی خدمت کے لیے چُنا تھا۔‘
سوربھ کالیا کی والدہ وجے کالیا کا حوالہ دیتے ہوئے، مسز سین نے لکھا ہے کہ ’انھوں نے ڈی اے وی پالم پور میں 11ویں کلاس میں داخلہ لیا تھا اور اسی وقت ان کی استتوا سے دوستی ہو گئی۔ فوج میں شامل ہونے کی یہی دو وجوہات تھیں۔‘
سوربھ کیپٹن وکرم بترا سے متاثر تھے
سوربھ کالیا کے والد این کے کالیا اُس وقت ہمالین بائیو ریسورس ٹیکنالوجی سے بطور سینیئر سائنسدان منسلک تھے، جب کہ سوربھ کالیا کی والدہ وجے کالیا زرعی یونیورسٹی، پالم پور میں انتظامی اُمور کی نگران تھیں۔
ایسے میں والد نے سوربھ اور استتوا کو کچھ پوچھ گچھ کرنے کے لیے ایک ساتھ بٹھایا اور ان سے پوچھا کہ فوج میں شمولیت کا خیال انھیں کیسے آیا؟
این کے کالیا یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’استتوا نے مجھے بتایا تھا کہ ڈی اے وی پالم پور سے بہت سے فوجی افسر نکلے ہیں۔ دونوں بچے وکرم بترا نامی شخص سے متاثر تھے، جو ان سے دو سال سینیئر تھے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد کمیشنڈ افسر بن چکے تھے۔ سوربھ سے جب پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ وہ پہلے ڈاکٹر بننا چاہتے تھے تاکہ لوگوں کی خدمت کی جا سکے لیکن اب وہ انڈین فوج میں شمولیت اختیار کرنا چاہتے ہیں۔‘
کیپٹن وکرم بترا کی بھی کارگل جنگ میں موت ہو گئی تھی۔
’ماں ایک دن ایسا کام کروں گا کہ دنیا بھر میں مشہور ہو جاؤں گا‘
تاہم، تقدیر نے سوربھ اور استوا کے لیے مختلف راستے کو چُنا۔
سوربھ کمیشنڈ آفیسر بن گئے جب کہ استتوا کا انتخاب نہیں ہو سکا اور بعد میں انھوں نے بینک میں ملازمت کا آغاز کیا۔
سوربھ کالیا کے کمیشنڈ آفیسر بننے کے سفر میں ان کے والدین اور دوستوں کے علاوہ ان کے چھوٹے بھائی ویبھو کالیا نے بھی اہم کردار ادا کیا۔
سوربھ کالیا کی والدہ وجیا کالیا کی عُمر زیادہ ہونے کے باعث انھیں متعدد طبی مسائل کا سامنا ہے لیکن وہ فخر سے سب کو دو باتیں بتاتی ہیں۔ پہلی یہ کہ کارگل سے ٹھیک پہلے دسمبر 1998 میں جب سوربھ پالم پور میں اپنے گھر آئے تو واپسی پر ٹرین میں سوار ہونے سے پہلے انھوں نے اپنی والدہ سے کہا تھا کہ ’ماں، میں ایک دن ایسا کام کروں گا کہ میں پوری دنیا میں مشہور ہو جاؤں گا۔‘
دوسری بات یہ کہ اسی سفر کے دوران سوربھ نے اپنی ماں کے لیے ایک چیک بُک پر بھی دستخط کیے اور یہ انھیں دے دیا تاکہ جب بھی انھیں رقم کی ضرورت ہو تو وہ اپنے بیٹے کے اکاؤنٹ سے رقم نکلوا سکیں۔
کارگل میں کیا ہوا؟
اس سے پہلے کہ سوربھ 29 جون کو اپنی سالگرہ منانے اپنے خاندان کے پاس واپس آتے، مئی کے اوائل میں کارگل میں پاکستانی فوج کی جانب سے کارروائی کا آغاز کر دیا گیا اور اسی سلسلے میں لیفٹیننٹ کالیا اور ان کے پانچ سپاہیوں کو بجرنگ پوسٹ پر تعینات کر دیا گیا۔
15 مئی 1999 کو سوربھ کالیا اپنے پانچ ساتھیوں سپاہی مولا رام بدیاسر، سپاہی بھیکھا رام منڈھ، سپاہی ارجن رام بسوانبیہا، سپاہی بھنور لال باگڑیا، سپاہی نریش سنگھ سنسنوار کے ساتھ مشن پر روانہ ہوئے۔
صبح 4 بجے انھوں نے اپنا سفر شروع کیا۔ سوربھ اور اُن کے ساتھیوں نے آٹھ گھنٹے پر محیط مُشکل چڑھائی چڑھنے کے بعد بجرنگ پوسٹ پہنچنے کا ارادہ کیا۔
لیکن مشکل پہاڑ پر چڑھنے میں وقت لگا اور جب وہ بجرنگ پوسٹ پر پہنچے تو پاکستانی فوجیوں نے اونچائی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مبینہ طور پر انھیں گرفتار کر لیا۔
اس کے بعد اگلے 22 دنوں تک ان تمام افراد کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ خاندان کو سوربھ کالیا کے لاپتہ ہونے کی خبر 15 دن بعد اخبارات کے ذریعے ملی۔
31 مئی کو اخبارات میں شائع خبر کی بنیاد پر سوربھ کے والدین اپنے بیٹے کی خیریت معلوم کرنے اور خبر کی حقیقت کے بارے میں جاننے کے لیے پالم پور کے ہولٹا کینٹ پہنچے لیکن انھیں اس بارے میں کُچھ خاص پتہ نہ چل سکا۔
سوربھ کے گھر والوں نے اُس وقت کے مقامی رکن اسمبلی شانتا کمار سے رابطہ کیا اور انھوں نے اس وقت کے مرکزی وزیر دفاع جارج فرنینڈس سے بھی بات کی۔
اعلیٰ سطحی مداخلت کے بعد بھی صرف اتنا ہی پتہ چل سکا کہ لیفٹیننٹ کالیا لاپتہ ہو چکے ہیں۔
سورب کے اہلخانہ نے غیر یقینی کی اس صورتحال میں بھی اُمید کا دامن نہیں چھوڑا لیکن آٹھ جون کو ان کی اُمیدیں اُس وقت دم توڑ گئیں کہ جب سرکاری چینل دوردرشن نے اطلاع دی کہ لیفٹیننٹ کالیا اور پانچ فوجی ہلاک ہو گئے ہیں۔
پاکستانی فوج نے اعلان کیا کہ اُن کی لاشیں 9 جون کو انڈین فوج کے حوالے کر دی جائیں گی۔
کیپٹن کالیا کی لاش پہلے سرینگر، پھر دہلی اور پھر پالم پور پہنچائی گئی۔
لاش کی حالت خراب تھی چنانچہ سوربھ کے بھائی ویبھو کالیا نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے والدین کو بھائی کا آخری دیدار نہیں کرنے دیں گے۔ سارا پالم پور سوربھ کالیا کی آخری رسومات کے لیے جمع ہو گیا۔
لیکن سوربھ کالیا کی موت کیسے اور کن حالات میں ہوئی اس سوال کا جواب کبھی نہیں مل سکا۔
ایسے میں والد این کے کالیا نے انڈین فوج سے اپنے بیٹے کی پوسٹ مارٹم رپورٹ مانگ لی اور یہ رپورٹ دیکھنے کے بعد ہی انھیں اپنے بیٹے پر ہونے والے مبینہ تشدد کا علم ہوا۔ انھوں نے اسے جنگی قیدیوں کے لیے بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ جنیوا کنونشن کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے پاکستان کے خلاف عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
لیکن انڈین حکومت کی پالیسی یہ رہی ہے کہ وہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان معاملے میں کسی کی ثالثی کو قبول نہیں کرتی اور یہی وجہ ہے کہ انڈیا کی جانب سے یہ معاملہ عالمی عدالت انصاف میں نہیں لے جایا گیا۔
پاکستان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
کارگل کی جنگ تقریباً دو ماہ تک جاری رہیکیپٹن کالیا کے والد اپنے بیٹے کی موت کو ’جنگی جرم‘ قرار دیتے ہوئے انڈین سپریم کورٹ کی جانب سے پاکستان کے خلاف کارروائی کا برسوں سے انتظار کر رہے ہیں۔
تاہم سپریم کورٹ آف انڈیا میں ابھی تک اس کیس کی سماعت شروع ہی نہیں ہو سکی ہے۔
این کے کالیا کا کہنا ہے کہ ’میں یہ کیس صرف اپنے بیٹے کے لیے نہیں لڑ رہا بلکہ میں چاہتا ہوں کہ کسی بھی بچے کے والدین کو اس بات کا ڈر نہیں ہونا چاہیے کہ جنگی قیدی بننے کے بعد ان کے بیٹے کے ساتھ ایسا سلوک ہوگا کہ جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کو فوج میں بھیجنے سے بھی کترانے لگیں۔‘
کالیا خاندان نے اپنے بیٹے کی یادوں کو محفوظ رکھنے کے لیے پالم پور میں ایک میوزیم بنایا ہے۔ ہر روز ملک کے کونے کونے سے لوگ یہاں آتے ہیں۔ اس میوزیم میں کیپٹن کالیا کی ڈائری، بٹوا اور دیگر چیزیں موجود ہیں جو آخری سانس تک اُن کے پاس موجود رہیں۔
تاہم جب سوربھ کالیا کارگل میں اپنے آخری مشن کے لیے روانہ ہو رہے تھے تو انھیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ ان کی ترقی کو چُکی ہے اور وہ لیفٹیننٹ سے کیپٹن بن چُکے ہیں، مشن پر ہونے کی وجہ سے ان تک اُن کا پروموشن لیٹر نہیں پہنچ سکا۔
لیفٹیننٹ کالیا کو ان کی موت کے بعد ہی دنیا نے کیپٹن کالیا کے نام سے جانا۔
کیپٹن کالیا کی موت کے بعد انڈین حکومت نے خاندان کو ایل پی جی گیس ڈسٹری بیوٹر شپ دی اور ہماچل پردیش حکومت نے اُن کے نام سے منسوب 35 ایکڑ پر مشتمل ایک پارک سوربھ وان وہار بھی قائم کیا۔