"ہماری پہلی ملاقات نہ ریڈیو پر ہوئی، نہ ٹی وی پر۔ میں اور نیرہ نور اپنے اپنے کالج کی نمائندگی کرتے ہوئے موسیقی کے مقابلوں میں حصہ لیتے تھے۔ وہیں پہلی بار ایک دوسرے سے ملے۔ کبھی نیشنل کالج جیتتا تھا، کبھی الحمرا کالج۔ ایک دن اس نے بیگم اختر کا کلاسیکل گیت ’چھا رہی کالی گھٹا‘ گایا، اور میں دنگ رہ گیا۔ دل میں آیا، ’یہ کون لڑکی ہے جو اتنا مشکل گیت اس خوبصورتی سے گا رہی ہے؟‘ وہاں سے بات چیت کا آغاز ہوا، اور پھر ہم نے شادی کا فیصلہ کیا۔ اگر ہم ایک دوسرے کو نہ ملتے، تو زندگی شاید بہت ادھوری ہوتی، کیونکہ ہم کسی اور کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔"
یہ دل چھو لینے والے جذبات اداکار شہریار زیدی نے حال ہی میں پی ٹی وی ہوم کے پروگرام میں شیئر کیے، جس کی میزبانی سندس جمیل نے کی۔
موسیقی، محبت اور ہم آہنگی سے بھرپور یہ کہانی پاکستان کے مشہور اداکار اور گلوکار کی زندگی کا وہ گوشہ ہے جسے شائقین نے کم ہی جانا۔ نیرہ نور اور شہریار زیدی کی جوڑی ایک زمانے میں نہ صرف فنی دنیا میں اپنی پہچان رکھتی تھی بلکہ ذاتی زندگی میں بھی ایک مثال بنی۔
شہریار زیدی نے پروگرام میں بتایا کہ وہ دونوں کیسے موسیقی کے مقابلوں کے ذریعے قریب آئے، اور پھر ایک دن ان کا دل نیرہ نور کے گائے ہوئے ایک کلاسیکل نغمے پر ایسا آیا کہ بس بات آگے بڑھتی چلی گئی۔ گیت کی گونج نے دو دلوں کو ملا دیا، اور یوں ایک خوبصورت زندگی کا آغاز ہوا۔
شہریار زیدی اور نیرہ نور کے دو بیٹے، جعفر زیدی اور نادِ علی، آج بھی موسیقی کے میدان میں اپنی والدہ کے ورثے کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ نیرہ نور، جو چند برس قبل کینسر کے باعث دنیا سے رخصت ہوئیں، آج بھی پاکستانی موسیقی کی تاریخ میں ایک سنہری باب کی مانند یاد کی جاتی ہیں۔
یہ واقعہ نہ صرف ایک محبت بھری داستان ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ موسیقی صرف سروں کی ہم آہنگی نہیں، بلکہ دلوں کو جوڑنے والی ایک طاقتور زبان بھی ہے۔