امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے انڈین مصنوعات پر 50 فیصد ٹیرف عائد کرنے کے اعلان کے بعد انڈین برآمد کنندگان صورتحال سے نمٹنے کے لیے متبادل راستے تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔ٹرمپ نے اعلان کیا ہے کہ اگر انڈیا روس سے تیل خریدنا جاری رکھتا ہے تو وہ نئی درآمدی محصولات کو 25 فیصد سے بڑھا کر 50 فیصد کر دیں گے، تاکہ روس کی فوجی کارروائی کے لیے مالی وسائل روکے جا سکیں۔ایلارا سکیورٹیز کی ماہر معیشت گریما کپور کا کہنا ہے کہ ’ 50 فیصد ٹیرف کی صورت میں، انڈیا سے کوئی بھی پروڈکٹ عالمی مقابلے کا سامنا نہیں کر سکے گی۔‘
انڈیا، جو دنیا میں خام تیل درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شامل ہے، کو 27 اگست تک متبادل ذرائع تلاش کرنا ہوں گے تاکہ اپنی تقریباً ایک تہائی تیل کی موجودہ درآمد کو روس کے علاوہ کسی اور ذریعے سے حاصل کیا جا سکے۔
اگرچہ انڈیا عالمی برآمدات میں بڑی طاقت نہیں، لیکن اس نے 2024 میں امریکہ کو تقریباً 87 ارب ڈالر کی اشیاء برآمد کیں۔اب 50 فیصد ٹیرف سے کم منافع والے شعبے جیسے کہ زیورات، ٹیکسٹائل اور سمندری خوراک بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں۔گلوبل ٹریڈ ریسرچ انیشی ایٹو کے مطابق، 2025 میں ملبوسات جیسے شعبوں میں امریکی مارکیٹ کی فروخت میں 60 فیصد کمی کا خدشہ ہے۔برآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ وہ مقررہ ڈیڈ لائن سے پہلے جتنے آرڈر مکمل کر سکتے ہیں، کر رہے ہیں۔کری ایٹو گروپ کے چیئرمین وجے کمار اگروال نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’جو کچھ بھی ہم 27 اگست سے پہلے بھیج سکتے ہیں، ہم بھیج رہے ہیں۔‘ان کی کمپنی، جو ممبئی میں قائم ہے، امریکہ کے لیے 80 فیصد مصنوعات برآمد کرتی ہے۔
انڈیا کی بڑی ملبوسات ساز کمپنیوں میں سے کچھ اپنے امریکی آرڈرز دوسرے ممالک میں منتقل کرنے پر غور کر رہی ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
لیکن اگروال نے خبردار کیا کہ یہ صرف ایک وقتی اقدام ہے۔
’اگر یہ مسئلہ حل نہ ہوا تو بڑی افراتفری ہوگی۔ مجھے اپنے 15 سے 16 ہزار ملازمین کے مستقبل کی فکر ہے۔ یہ بہت ہی تاریک صورتحال ہے… بہت بڑا کاروباری نقصان ہو گا۔‘پیداوار کی منتقلی پر غوریہ مسئلہ خارجہ پالیسی اور جیو پولیٹکس سے جڑا ہوا ہے، جس پر کاروباری اداروں کا کوئی اثر نہیں۔ٹرمپ جمعہ کو ولادیمیر پوتن سے ملاقات کرنے والے ہیں، جو روس کے یوکرین پر حملے کے بعد دونوں رہنماؤں کی پہلی بالمشافہ ملاقات ہو گی۔انڈیا، جس کے ماسکو سے طویل مدتی تعلقات ہیں، ایک نازک پوزیشن میں ہے۔ ٹرمپ کی دھمکی کے بعد، وزیر اعظم نریندر مودی نے پوتن اور یوکرینی صدر زیلنسکی دونوں سے بات کی اور تنازع کے پرامن حل پر زور دیا۔ادھر، ٹیرف کا اثر انڈیا میں پہلے ہی محسوس کیا جا رہا ہے۔بعض امریکی خریداروں نے نئے آرڈرز روک دیے ہیں، جس سے اربوں ڈالر کے کاروبار اور لاکھوں افراد کی روزی روٹی کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔انڈیا کی بڑی ملبوسات ساز کمپنیوں میں سے کچھ اپنے امریکی آرڈرز دوسرے ممالک میں منتقل کرنے پر غور کر رہی ہیں۔پرل گلوبل انڈسٹریز نے انڈین میڈیا کو بتایا ہے کہ اس کے کچھ امریکی خریداروں نے آرڈر ویتنام یا بنگلہ دیش جیسے کم ٹیرف والے ممالک میں مکمل کرنے کو کہا ہے، جہاں کمپنی کے پیداواری یونٹ پہلے سے موجود ہیں۔جبکہ گوکلداس ایکسپورٹس نے بلومبرگ کو بتایا کہ وہ ایتھوپیا اور کینیا میں اپنی پیداوار بڑھا سکتی ہے، جہاں صرف 10 فیصد ٹیرف لاگو ہوتا ہے۔’ہر چیز جمود کا شکار ہے‘ریٹنگ ایجنسی موڈی نے خبردار کیا ہے کہ انڈیا کے لیے یہ بہت زیادہ ٹیرف کا فرق حالیہ برسوں میں حاصل کی گئی سرمایہ کاری میں پیشرفت کو الٹا بھی سکتا ہے۔
انڈیا کی زیورات اور جواہرات کی صنعت نے گزشتہ سال 10 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کی تھیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کی زیورات اور جواہرات کی صنعت نے گزشتہ سال 10 ارب ڈالر سے زائد کی برآمدات کی تھیں اور یہ سیکٹر لاکھوں لوگوں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔
ڈی ناوین چندرا ایکسپورٹس کے اجیش مہتا نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’اب کچھ نہیں ہو رہا، سب کچھ رُک گیا ہے، نئے آرڈرز ملتوی کر دیے گئے ہیں۔ ہم اندازہ لگاتے ہیں کہ 1.5 سے 2 لاکھ کارکن متاثر ہوں گے۔‘مہنگی اور غیر ضروری اشیاء خاص طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ ’ 10 فیصد ٹیرف قابلِ برداشت تھا، 25 فیصد نہیں، اور 50 فیصد کا تو سوال ہی نہیں۔ ہم لگژری مصنوعات فروخت کرتے ہیں، جب قیمت ایک حد سے بڑھ جائے تو گاہک پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔‘سمندری خوراک کے برآمد کنندگان بھی امریکی خریداروں سے آرڈرز مؤخر کیے جانے کے بعد متبادل مارکیٹیں تلاش کر رہے ہیں۔بیبی میرین گروپ کے شریک پارٹنر الیکس نینن نے کہا کہ ’ہم اپنی مارکیٹس کو متنوع بنا رہے ہیں۔ امریکہ اس وقت مکمل طور پر باہر ہو چکا ہے۔ ہم اپنی مصنوعات کو چین، جاپان جیسے متبادل بازاروں میں لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں… روس بھی ایک بڑی مارکیٹ ہے جس پر ہم غور کر رہے ہیں۔‘تاہم نینن کا کہنا تھا کہ ’آپ اچانک ایک نئی مارکیٹ تخلیق نہیں کر سکتے۔‘