سانگھڑ میں صحافی کی موت اور لاش کا دوبارہ پوسٹ مارٹم : خاور حسین کے ’موبائل کی سِم آخری وقت تک استعمال میں تھی‘

پاکستان کے صوبہ سندھ کی پولیس کا کہنا ہے کہ سانگھڑ میں ڈان نیون سے وابستہ صحافی خاور حسین کی موت کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہے۔ سنیچر کی شب خاور حسین کی لاش سانگھڑ میں ایک ریستوران کے باہر کھڑی انھی کی گاڑی سے برآمد ہوئی تھی۔

پاکستان کے صوبہ سندھ میں حکام کا کہنا ہے کہ سانگھڑ میں ہلاک ہونے والے ڈان نیوز سے وابستہ صحافی خاور حسین کی لاش کا حیدرآباد میں دوبارہ پوسٹ مارٹم کیا گیا ہے۔

پولیس سرجن ڈاکٹر وسیم نے بی بی سی اردو کے نامہ نگار ریاض سہیل کو بتایا کہ ’خاور کے جسم پر ظاہری طور پر تشدد کے نشانات نہیں پائے گئے ہیں بلکہ ان کے جسم پر صرف ایک گولی کا نشان تھا۔‘

ڈاکٹر وسیم کا کہنا تھا کہ ’ان کے جسم کے اعضا سے پانچ نمونے لیے گئے ہیں اور ان کا کیمیائی تجزیہ کروایا جائے گا۔‘

خیال رہے سنیچر کی شب کراچی کے رہائشی خاور حسین کی لاش سانگھڑ میں ایک ریستوران کے باہر کھڑی انھی کیگاڑی سے برآمد ہوئی تھی۔

اس سے قبل سانگھڑ پولیس کے ایس ایس پی اور تحقیقاتی کمیٹی کے رکن عابد بلوچ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’ہم نے ابتدائی پوسٹ مارٹم اور فرانزک کروا لیا ہے۔‘

ان کے مطابق گاڑی سے پستول اور اس کے خول برآمد کیے گئے ہیں جبکہ خاور حسین کی اہلیہ شازیہ بلوچ کی مدعیت میں باقاعدہ ایف آئی آر جلد درج کر لی جائے گی۔

خاور کی موت کی تحقیقات کے بارے میں عابد بلوچ نے کہا کہ ’فی الحال کوئی چیز حتمی نہیں، جو بھی حقائق ہوں گے وہ سامنے لائیں گے۔‘

دوسری جانب خاور کے والد، والدہ اور بھائی گذشتہ شب امریکہ سے وطن واپس پہنچے ہیں۔ ان کے بھائی اعجاز حسین نے صحافیوں کو بتایا کہ خاور کی ہلاکت کی خبر ان کے لیے ’قیامت جیسی‘ تھی۔

’اس کی کسی سے ذاتی دشمنی نہیں تھی اور پیشہ وارانہ طور پر بھی وہ ایسی جارحانہ زبان استعمال نہیں کرتا تھا کہ نوبت قتل تک پہنچ جائے۔‘

سندھ کے وزیرِداخلہ ضیا لنجار نے اس مقدمے میں ایڈیشنل آئی جی آزاد خان کی سربراہی میں ایک تین رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔ کمیٹی کے باقی دو ارکان میں ڈی آئی جی عرفان بلوچ ایس پی عابد بلوچ شامل ہیں۔

وزیر داخلہ کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی پراسرار موت کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے گی اور سات روز میں اپنی رپورٹ محکمہ داخلہ سندھ کو پیش کرے گی۔

تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ آزاد خان کا کہنا ہے کہ خاور کے موبائل کی سِم ’آخری وقت تک استعمال میں تھی لیکن وہ تاحال پولیس کو نہیں ملی ہے۔‘

سانگھڑ میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے جائے وقوع اور گاڑی کا معائنہ کیا ہے اورعینی شاہدین سے بھی گفتگو کی ہے۔

ڈی آئی جی آزاد خان کے مطابق صحافی کا فون فرانزک تجزیے کے لیے محکمہ انسدادِ دہشتگردی کو بھیج دیا گیا ہے، جبکہ ریستوران کے باہر اور سانگھڑ ٹول پلازہ پر نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج کا بھی معائنہ کیا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دیکھا جائے گا کہ کہیں کوئی خاور کے ساتھ تو نہیں تھا۔‘

ڈی آئی جی آزاد خان کا مزید کہنا تھا کہ خاور کے خاندان سے بھی بات کی جائے گی اور وہ بھی تفتیش کا حصہ ہوں گے۔

خاور حسین کی بیوی اور بہنوئی کے بیانات

ابتدائی رپورٹ کے مطابق سانگھڑ میں ہوٹل کے مینیجر نے پولیس کو خاور حسین کی لاش کے بارے میں گذشتہ رات دس بج کر 45 منٹ پر اطلاع دی تھی۔

خاور حسین کی بیوہ ڈاکٹر شازیہ بلوچ نے سندھی میں اپنے ابتدائی بیان میں سانگھڑ پولیس کو بتایا ہے کہ ان کے شوہر خاور حسین کا ’کسی نامعلوم شخص نے کسی نامعلوم وجہ سے قتل کیا ہے۔‘

انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انھیں خاور حسین کی موت کے بارے میں خاندان کے ایک فرد سے معلوم ہوا تھا۔

خاور حسین کے بہنوئی محسن اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ 21 جولائی 2024 کو سانگھڑ میں ان کی دکان پر ایک ڈکیتی کا واقعہ پیش آیا اور مزاحمت میں ایک ڈاکو کی ہلاکت ہوئی تھی۔

ان کے مطابق اس مقدمے میں ان کے بھائی کو جیل ہو گئی جبکہ ان کے والد کا کاروبار ٹھپ ہو گیا اور وہ گھر آ گئے۔

محسن کے دعوے کے مطابق جب انھوں نے دوبارہ چند ماہ بعد عدالتی اجازت سے کاروبار شروع کیا تو ’ہجوم اکٹھا ہوا اور ہمارا کاروبار بند کرا دیا۔‘ ان کے مطابق چار لوگوں نے پیٹرول ڈال کر ’ہماری دکان کو آگ لگانے کی بھی کوشش کی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں انھیں اور ان کے خاندان کو دباؤ کا سامنا تھا۔

محسن کے مطابق جب انھیں یہ علم ہو گیا کہ اب سانگھڑ میں کاروبار کرنا ان کے لیے تقریباً ناممکن ہو گیا ہے تو پھر وہ کاروباری مواقع کی تلاش میں لاہور آ گئے۔ محسن کے مطابق ’چار پانچ دن قبل میری خاور سے فون پر بات ہوئی اور وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ میں اس معاملے کو سلجھانے کی کوشش کر رہا ہوں۔‘

محسن کے مطابق ’ہمارے تنازع کو حل کرنے کے لیے خاور نے سندھ کے سیاسی رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کیں مگر انھیں کوئی کامیابی نہ مل سکی۔‘

ان کے مطابق خاور نے کسی کو بتائے بغیر سانگھڑ جانے کا فیصلہ کیا۔ جب انھیں اس بات کا پتا چلا تو انھوں نے امریکہ میں مقیم خاور کی والدہ سے فون پر بات کی اور انھیں بتایا کہ ’خاور سانگھڑ چلے گئے ہیں۔‘ محسن کے مطابق ’خاور کی والدہ نے کہا کہ نہیں وہ ابھی کراچی میں ہی ہیں۔‘

محسن کے مطابق ’ایک گھنٹے بعد ہی انھیں یہ افسوسناک خبر ملی کہ میرے معاملے کو سلجھاتے سلجھاتے خاور خود اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔‘

ان کا دعویٰ ہے کہ ابھی سانگھڑ میں ’ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ خاور نے خودکشی کی ہے جو کہ حقائق سے منافی بات معلوم ہوتی ہے۔‘

ایف آئی آر کے اندراج سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ یہ سب اب خاور کے والدین اور بھائیوں کے پہنچنے پر ہی ہو گا کہ وہ کس کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج کرانا چاہتے ہیں۔

ایس ایس پی عابد بلوچ کا کہنا ہے کہ ’ہم خاور حسین کے فون ریکارڈ کا تجزیہ کروا رہے ہیں۔‘

ان کے مطابق اس پر تحقیقات ہو رہی ہیں کہ ان کا سانگھڑ جانے کا مقصد کیا تھا۔ ایک سوال کے جواب میں عابد بلوچ نے کہا پولیس کو ’خودکشی کے علاوہ خاور حسین کے قتل پر بھی شبہ ہے۔‘

’دل نہیں مانتا کہ خاور ہمارے بیچ نہیں رہے‘

خاور حسین کے اہل خانہ کے مطابق ان کا خاندان قیام پاکستان سے قبل پنجاب سے سانگھڑ آ کر آباد ہوا تھا۔

کراچی میں مقیم صحافی اور خاور حسین کے قریبی دوست سنجے سادھوانی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کا خاور سے دس برس کا قریبی تعلق تھا اور وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ان کے دوست کے ساتھ یہ کچھ ہو گیا ہے۔

سنجے کے مطابق ’میں اپنی اہلیہ سمیت رات کو خاور کے گھر پہنچا جہاں ان کی اہلیہ اور دو چھوٹے بچوں کو تسلیاں دینا شروع کیں۔ ان کے مطابق ’خاور کی اہلیہ یہ خبر سنتے ہیں بے ہوش ہو گئیں۔‘

سنجے سادھوانی کے مطابق خاور کے والدین اور بھائی امریکہ منتقل ہو گئے تھے جبکہ سانگھڑ میں یہاں ان کی آبائی زمینیں ہیں جن کی نگرانی خاور کے ذمے تھیں۔

ان کے مطابق خاور کی نہ کسی سے دشمنی تھی اور نہ وہ کسی ذہنی تناؤ میں نظر آتے تھے۔ سنجے کے مطابق انھوں نے کچھ عرصے قبل سکھر، لاہور، اسلام آباد اور مری کا نو دن کا دورہ کیا جس میں دیگر دوستوں کے علاوہ خاور بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ان کے مطابق خاور اس دورے سے بھی خوب لطف اندوز ہوئے۔

حماد بلغاری بھی خاور حسین کے کولیگ اور قریبی دوستوں میں سے ایک ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’خاور نے سخت محنت کے بعد اپنے شعبے میں اپنی ایک پہچان بنائی۔‘ حماد کے مطابق وہ بہت ہنس مکھ اور خوش مزاج انسان تھے جو ’ہر ایک کو خوش رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔‘

حماد کے مطابق ’بظاہر خاور بہت پرسکون زندگی گزار رہے تھے۔ وہ محفل میں جان ڈالنے والے تھے اورشعر و شاعری سے بھی انھیں خاصا شغف تھا۔‘

اسلام آباد میں جیو نیوز سے وابستہ صحافی اویس یوسفزئی نے خاور حسین کے ساتھ ترکی کا دورہ کیا تھا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’خاور حسین اتنا ہنس مکھ، ملنسار اور خوش مزاج تھا کہ آج بھی ان کا ہنستا مسکراتا چہرہ سامنے آ رہا ہے اور دل یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ خاور اب ہمارے درمیان نہیں رہا۔‘

اویس پوچھتے ہیں کہ ’اسے کسی سے لڑنا تو آتا ہی نہیں تھا، پھر اس کی کسی سے کیا دشمنی ہو سکتی ہے؟‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US