اگرچہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس شخص کا نام نہیں لیا جنھیں وہ ’قومی سلامتی کے لیے خطرہ‘ سمجھتے ہیں مگر سننے اور دیکھنے والے پریس کانفرنس کی ابتدا سے ہی جان چکے تھے کہ یہ تمام گفتگو سابق وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں ہو رہی ہے۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈی جی لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے اس سے پہلے کبھی کئی پریس کانفرنس کی ہیں مگر ان میں کئی موضوعات زیرِ بحث آتے تھے جیسے نو مئی کے حملوں پر احتساب، شدت پسندی کے واقعات یا انڈیا کے خلاف مئی کی لڑائی کے بعد بریفننگ مگر جمعے کی پریس کانفرنس واضح طور پر ایک ہی شخص کے بارے میں تھی۔
انھوں نے اس شخص کو ’ریاست مخالف‘ کہا اور اس کے بارے میں مختلف اصلاحات استعمال کیں، جیسے ’اپنی ذات کا قیدی‘، ’خود پسند‘ اور ’ذہن کے فریب کا شکار شخص‘۔ حتیٰ کہ ترجمان پاکستانی فوج نے یہ بھی کہا کہ اس شخص میں کسی ’ذہنی مریض‘ کی علامات بھی پائی جاتی ہیں۔
اگرچہ اس سب کے باوجود انھوں نے اس شخص کا نام نہیں لیا مگر سننے اور دیکھنے والے پریس کانفرنس کی ابتدا سے ہی جان چکے تھے کہ یہ تمام گفتگو سابق وزیر اعظم عمران خان کے بارے میں ہو رہی ہے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے عمران خان کے بارے میں کیا کہا؟
اس بارے میں کوئی ابہام نہیں کہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری دراصل عمران خان کا نام لیے بغیر انھی کی بات کر رہے ہیں۔ جیسے انھوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کی جیل میں اپنے اہل خانہ اور وکلا سے ملاقاتوں کا مقصد ’ریاست مخالف بیانیہ‘ پھیلانا ہے۔
پریس کانفرنس کے دوران نہ صرف عمران خان کی بہنوں کے انڈین ٹی وی چینلز کو دیے گئے انٹرویو چلائے گئے بلکہ ایک سلائیڈ میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ عمران خان سے منسوب ایکس اکاؤنٹ پر شیئر کیے جانے والے پیغامات ’انڈین اور افغان اکاؤنٹس‘ کی طرف سے پھیلائے جاتے ہیں۔
ترجمان پاکستانی فوج نے کہا کہ ’اگر کوئی اپنی ذات، ذہن کے فریب یا خود پسندی کی سوچ کے لیے مسلح افواج اور اس کی قیادت پر حملہ آور ہوتا ہے تو ہم بھی سختی سے اس کا مقابلہ کریں گے۔ اس پر کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس کی مایوسی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں نہیں تو کچھ نہیں۔۔۔ اب سیاست ختم ہو چکی ہے، اب اس کا بیانیہ پاکستان کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بن چکا ہے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے عمران خان سے ہونے والی وکلا اور خاندان کی ملاقاتوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جب کوئی اس شخص سے ملتا ہے تو آئین، قانون اور رولز کو بالائے طاق رکھ کر وہ ریاست پاکستان کے خلاف بیانیہ دیتا ہے، خاص کر مسلح افواج اور اس کی قیادت کے خلاف۔‘
’اس کی سیاست کی تعریف یہ ہے کہ اگر میں اقتدار میں ہوں تو جمہوریت ہے، اقتدار میں نہیں تو آمریت ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آپ کی سیاسی شعبدہ بازی کا وقت ختم ہو چکا۔‘
ترجمان نے دعویٰ کیا کہ عمران خان نے لوگوں کو خیبر پختونخوا میں سکیورٹی آپریشن کے خلاف بھڑکایا اور وہ مسلسل شدت پسندوں سے بات چیت کا مطالبہ کرتے ہیں جو ’ہمارے بچوں کو شہید کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان میں اب ’جھوٹ اور فریب کا کاروبار مزید نہیں چلے گا۔ اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ اس بیانیے کو چلایا جائے اور اس کی سہولت کاری کی جائے۔‘
اس سب کے باوجود جب ان سے ایک صحافی کی طرف سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ عمران خان کی جماعت تحریک انصاف پر پابندی کا مطالبہ کر رہے ہیں؟
تو اس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’فوج ریاست کا ایک ادارہ ہے اور ہمارا کام اپنا نقطہ نظر دینا ہے۔ ہم اس لیے کھلے عام اس پر بات کر رہے ہیں کیونکہ فوج سے متعلق ان کی باتیں بھی کھلے عام قومی، بین الاقوامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر کی جاتی ہیں۔‘
’ہمارا کام ہے آپ کو بتانا کہ ہم اس پر کیا محسوس کرتے ہیں۔ ریاست ہم سے بالاتر ہے۔ یہ ان کا فیصلہ ہے۔ آپ ان سے پوچھیں کہ وہ کیا کریں گے۔‘
’انھوں نے آپ کو پستی کی طرف دھکیل لیا‘
پاکستانی سوشل میڈیا پر آج کئی لوگ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس پر تبصرے کر رہے ہیں اور اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں۔ کسی نے اس پریس کانفرنس کو ’جارحانہ‘ قرار دیا تو بعض کی رائے ہے کہ اس کا لہجہ اور پیغام واضح تھا۔
برطانیہ میں مقیم تحریک انصاف کے رہنما زلفی بخاری کا کہنا تھا کہ ’ہارڈ سٹیٹ کی چمڑی بہت باریک ہے۔ یہ بہت بے بنیاد اور احمقانہ پریس کانفرنس تھی۔ سبھی کے وقت کا ضیاع۔ مختصر یہ کہ سورج تلے ہر چیز کے بارے میں بات کریں، سوائے ہمارے۔‘
پی ٹی آئی رہنما شاہد خٹک نے طنز کیا کہ ’پریس کانفرنس کا موضوع: عمران خان۔۔۔ پریس کانفرنس کا اختتام: ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔‘
صحافی طلعت حسین نے لکھا کہ ’یہ تصور یا قیاس کرنے کے لیے بچا ہی نہیں کہ آنے والے دنوں میں عمران خان اور ان کی پارٹی کے ساتھ کیا ہو گا۔۔۔ مسلم لیگ ن اور پی پی پی بطور جماعت کیا کریں گی؟ شہباز شریف کی حکومت کیا کرے گی؟ یہ ان کے لیے ہمارے ساتھ ہو یا ہمارے خلاف ہو کے فیصلے کا لمحہ ہے جو نیوٹرل ہیں۔‘
صحافی ریاض الحق نے کہا کہ یہ پریس کانفرنس ’نامناسب تھی۔ حکومت سے کوئی آپ کی طرف سے ایسا کر سکتا تھا لیکن یہ ادارے کے لیے مناسب نہیں کہ اس طرح کھل کر ایسے لب و لہجے کے ساتھ بات کی جائے۔‘
’وہ چاہتے تھے کہ آپ کو اشتعال دلائیں اور انھوں نے آپ کو پھنسا لیا اور ایسی پستی کی طرف دھکیلا۔‘
ایکس پر کئی صارفین نے پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر کے لہجے اور الفاظ کے چناؤ پر بات کی۔ جیسے مرتضی علی شاہ نے ٹویٹ میں وہ کلپ شیئر کیا جس میں وہ کہتے ہیں کہ ’آگے چلیں، میں ان کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔‘
اس وقت سکرین پر تحریک انصاف کے رہنما مرزا شہزاد اکبر کا ایک وی لاگ چل رہا تھا۔
سماجی کارکن اور تاریخ دان عمار علی جان نے لکھا کہ ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ ’تنقید کو قومی سلامتی کا خطرہ تصور کر لیا جاتا ہے۔‘
تجزیہ کار مبشر زیدی نے لکھا کہ ’عمران خان سے پہلے فاطمہ جناح، باچا خان، اکبر بگٹی، بے نظیر، نواز شریف کو بھی ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ ایک بار پھر وہی غلطی دہرائی جا رہی ہے۔‘
مگر صحافی سرل المائیڈا نے تبصرہ کیا کہ ’وہ ایک چیز کے بارے میں صحیح ہیں۔۔۔ آپ ہر وقت ہر کسی کو بے وقوف نہیں بنا سکتے۔‘
جبکہ مریانا بابر نے یاد دلایا کہ ایک سابق ڈی جی آئی ایس پی آر یہ کہہ چکے ہیں کہ ’جو بات کی جاتی ہے اسے جی ایچ کیو کی طرف سے منظور کیا گیا ہوتا ہے۔‘