ظہور رحمان: بشونئی میں متعدد افراد کی جانیں بچانے والے استاد جنھیں پانی بہا لے گیا

محمد اعجاز بشنوئی گاوں کے ان خوش قسمت لوگوں میں سے ایک ہیں جو جمعے کی صبح آنے والے سیلابی ریلے میں زندہ بچنے میں کامیاب رہے۔ لیکن ان سمیت متعدد افراد کی جان بچانے والے مقامی استاد ظہور رحمان خود بعد میں اسی ریلے کی نظر ہو گئے۔

محمد اعجاز بشونئی گاوں کے ان خوش قسمت لوگوں میں سے ایک ہیں جو جمعے کی صبح آنے والے سیلابی ریلے میں زندہ بچنے میں کامیاب رہے۔ لیکن ان سمیت متعدد افراد کی جان بچانے والے مقامی استاد ظہور رحمان خود بعد میں اسی ریلے کی نذر ہو گئے۔

نوجوان ظہور رحمان بشونئی سے چند کلومیٹر دور ایک سکول میں بطور استاد کام کرتے تھے جبکہ فلاحی تنظیم الخدمت میں بطور رضاکار بھی شامل تھے۔

اس دن وہ سکول جانے کے لیے گھر سے نکلنے والے تھے جب بشونئی میں اچانک تیز سیلابی ریلا آیا جس کے ساتھ آنے والے بڑے پتھروں نے تباہی مچا دی۔

بی بی سی نے مقامی افراد سے بات چیت کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ظہور رحمان نے کیسے لوگوں کی زندگی بچائی اور ان کے ساتھ کیا ہوا۔

واضح رہے کہ خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب شروع ہونے والی بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث مختلف حادثات میں اب تک تین سو سے زیادہ افراد ہلاکہوئے ہیں۔

این ڈی ایم اے کے مطابق سب سے زیادہ متاثرہ ضلع بونیر میں 225 افراد ہلاک ہوئے ہیں جہاں کا بشونئی گاؤں بھی شدید متاثر ہوا، تاہم بونیر میں 120 افراد زخمی اور 100 سے زیادہ تاحال لاپتہ ہیں۔

ضلع بونیر
BBC
خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب شروع ہونے والی بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث مختلف حادثات میں اب تک 350 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں

’میں جا رہا ہوں، تم لوگ پانی میں نہیں آنا‘

یہ الفاظضلع بونیر کی تحصیل پیر بابا کے گاؤں بشونئیکے رہائشی ظہور رحمن نے پانی میں بہہ جانے اور نظروں سے اوجھل ہونے سے پہلے اپنے تین پڑوسی بھائیوں اور علاقے کے ان لوگوں سے کہے تھے جو ان کو بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔

چند ہی لمحے پہلے ظہور نے بپھرے ہوئے پانی سے ان افراد کو باہر نکلنے میں مدد فراہم کی تھی۔ ان میں محمد اشفاق، محمدطلحہ اور محمدحماد تین بھائی بھی شامل تھے۔

ظہور رحمنپیشے کے لحاظ سے استاد اور اپنے علاقے میں الخدمت فاؤنڈیشن اور جماعت اسلامی کے مشہور رہنما تھے۔

جمعےکو وہ معمول کے مطابق اپنے گاؤں سے پانچ کلومیٹر دور واقع سکول جانے کے لیے نکلے لیکن بارش کے بعد انھوں نے سکول نہ جانے کا فیصلہ کیا۔

ظہور نے گاؤں کے بیچ بہنے والے نالے، جس میں پانیں صرف بارش ہی کے وقت آتا تھا، میں پانی کی رفتار دیکھ کر اپنی اہلیہ، بھابھی، بھتیجی اور بھتیجوں سے ہوشیار رہنے کو کہا۔

تھوڑی دیر بعد پانی میں آتا ملبہ دیکھ کر وہ چونک گئے۔

ان کی اہلیہ نے اپنے رشتہ داروں کو بتایا کہ ’ظہور نے کہا کہ خطرہ ہے اور ہمارے مکانکے علاوہ کئی مکانخطرے کا شکار ہیں۔ قریب ہی ایک مضبوط اور بڑا مکان ہے، تمام خواتین اور بچوں کو اس گھر میں منتقل کرنا ہوگا۔‘

ظہور نے فی الفوراپنے پڑوس میں واقع خواتین اور بچوں کو محمد اشفاق نامی شخص کے گھر کی چھت پر منتقل کرنا شروع کردیا تھا۔

مگر اس سے پہلے انھوں نے اپنے گھر سے 100 میٹر دوری کے فاصلے پر رہنے والے محمد اعجاز اور ان کے بھتیجوں کو بھی پانی میں ڈوبنے سے بچایا تھا۔

’میں بھتیجوں سمیت پانی میں ڈوب گیا تھا‘

محمد اعجاز کہتے ہیں کہ ’بارش ہوئی تو شروع میں تو اتنی توجہ نہیں دی تھی۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے پانی تیز سے تیز تر ہوتا جا رہا تھا۔ یہ پانی بہت اونچا نہیں تھا مگر اس میں ملبہ آ رہا تھااور میں نے دیکھا کہ میری دو بھتیجے پانی میں ڈوب رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ دیکھ کر میں پانی میں کود گیا، بھتیجوں کو اٹھایا اور پانی سے باہر نکلنے کی کوشش کی مگر پانی کا ریلا بہت تیز تھا اور اس پانی میں بہت زیادہ ملبہ آ رہا تھا۔‘

’مجھے ایسے لگا کہ میں بے بس ہو چکا ہوں۔ ایک قدم بھی نہیں اٹھا پا رہا تھا، مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ میں بھتیجوںسمیت پانی میں بہہ جاؤں گا۔‘

محمد اعجاز کا کہنا تھا کہ ’میں پانی سے لڑتے لڑتے ہمت ہار چکا تھا۔ کسی غیبی مدد کا منتظر تھا کہ اچانک مجھے دو مضبوط ہاتھوں نے تھاما، دیکھا تو وہ ظہور تھے۔ انھوں نے مجھے تھام کر باہر نکلنے میں مدد دی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ میں نے دیکھا کہ ’ظہور بھی پانی سے نکل گئے ہیں اور وہ اس گھر کی طرف جا رہا تھا جہاں پر وہعورتوں اور بچوں کوپہچنے کی ہدایات دے رہے تھے اور انھوں نے خود اٹھا کر کئی بچوں کو وہاں تک پہنچایا تھا۔‘

ضلع بونیر
BBC

ظہور رحمن خود پانی میں بہہ گئے

16 سالہ محمد اشفاق کہتے ہیں کہ ’ظہور رحمن اور ہمارے کچھ پڑوسیوں کے مکان کمزور تھے۔‘

’اس لیے ظہور نے اپنے اہل خانہ اور دیگر خواتین اور بچوں کو ہمارے گھر کی چھت پر منتقل کرنا شروع کردیا تھا۔ وہ دو، دو، تین بچوں کو اٹھا کر منتقل کررہے تھے۔ ہر کوئی افراتفری کا شکار تھا۔ کم ہی لوگ کسی دوسرے پر توجہ دے رہے تھے۔اگرچہ یہ پانی اونچا نہیں تھا مگر بہت تیز تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں اور میرے دیگر دو بھائی اپنے گھر کے باہر تھے۔ اس وقت پانی ہمارے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھا مگر چند ہی لمحوں میں پانی ہمارے گھر کے بالکل سامنے پہنچ گیا تھا اور اس کے ساتھ ملبہ تھا۔ میںنے اس پانی سے نکلنے کی کوشش کی اور اپنے بھائیوں کو آوازیں دیں کہ وہ بھی پانی سے نکلیں، یہ بہت تیز ہورہا تھا۔‘

محمد اشفاق کا کہنا تھا کہ ’میں اور میرے بھائی پانی سے نکل نہیں پا رہے تھے اور پانی میں بڑے پتھر آنا شروع ہوگئے تھے۔ مجھے اپنی موت بالکل سامنے نظر آ رہی تھی کہ یک دم کسی نے مجھے تھاما اور بڑے آرام سے اٹھا کر پانی سے باہر نکال دیا اور یہی کام میرے دوسرے بھائیوں کے ساتھ کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ظہور رحمن مضبوط جسم کے مالک تھے اور جس طرح انھوں نے مجھے اور میرے بھائیوں کو نکالا وہ ایک مضبوط جسم اور حوصلے والا بندہ ہی کرسکتا ہے۔‘

’مجھے یاد ہے کہ انھوں نے کئی بچوں کو ہمارے گھر کی چھت پر پہنچایا تھا۔‘

محمد طلحہ کا کہنا تھا کہ ’اس کے بعد میںظہور رحمن کو دیکھا کہ ایک مہمان کا موٹر سائیکل پانی میں بہہ رہا ہے تو انھوں نے اس کو پکڑ کر باہر نکالا کہ مہمان کے موٹر سائیکل کو نقصان نہیں ہونا چاہیے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’موٹر سائیکل نکالتے ہی ایک بڑا پتھر آیا جو پہلے ان کی ایک ٹانگ پر لگا اور پھر دوسری ٹانگ پر۔ اس موقع پر ہم تینوں بھائی اور کچھ اور لوگ آگے بڑھے کہ ان کی مدد کریں تو انھوں نے ہاتھ اٹھا کر ہلایا اور زور سے کہا کہ ’میں جا رہا ہوں تم لوگ پانی میں نہیں آنا۔‘

بعد میں ان کی لاش دو کلومیٹر دور سے ملی تھی۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US