’ڈیجیٹل ریپ‘ ایک سنگین جرم ہے اور اس اصطلاح کو سنتے ہی گماں ہوتا ہے جیسے کسی سائبر یا آن لائن جنسی جرم کی بات کی جا رہی ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
وکیل دیویا کہتی ہیں کہ ’اکثر میڈیکل رپورٹ میں بتایا جاتا ہے کہ پرائیویٹ حصوں پر کوئی چوٹ نہیں آئی، جس سے کیس کمزور پڑ جاتا ہے‘انتباہ: اس مضمون میں کچھ معلومات پریشان کن ہوسکتی ہیں۔
’ڈیجیٹل ریپ‘ ایک سنگین جرم ہے مگر اس اصطلاح کو سنتے ہی گمان ہوتا ہے کہ جیسے کسی سائبر یا آن لائن جنسی جرم کی بات کی جا رہی ہے لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
انڈیا میں حالیہ برسوں میں متعدد ایسے مقدمات سامنے آئے ہیں جن میں ’ڈیجیٹل ریپ‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔
رواں مہینے 13 اگست کو اتر پردیش میں گوتم بدھ نگر کی ایک ضلعی عدالت نے ’ڈیجیٹل ریپ‘ کے ایک مقدمے میں مجرم ثابت ہونے پر ایک شخص کو عمر قید کی سزا سنائی۔
سنہ 2014 میں پردیپ کمار نامی ایک شخص پر ایک چار سالہ بچی کے ریپ کا الزام عائد ہوا تھا۔ اس مقدمے میں نئی دہلی کی ایک عدالت نے اگست 2021 میں اس شخص کو مجرم قرار دیتے ہوئے بیس سال قید کی سزا سنائی تھی۔
دہلی ہائی کورٹ نے اس مقدمے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ’ڈیجیٹل ریپ‘ کی اصطلاح کا ذکر کیا تھا۔
جسٹس امیت بنسل نے کہا تھا کہ ’اب میں سزا کے معاملے پر بات کروں گا۔ واقعے کے وقت، اپیل کنندہ نے چار سالہ بچی کے ساتھ ’ڈیجیٹل ریپ‘ کیا تھا۔‘
لاطینی زبان میں ڈیجیٹ کا مطلب ہے انگلیڈیجیٹل ریپ کیا ہے؟
لفظ ڈیجیٹل ریپ میں لفظ ’ڈیجیٹل‘ دراصل لاطینی لفظ ’ڈیجیٹس‘ سے آیا ہے۔
لاطینی زبان میں ڈیجیٹ کا مطلب ہے انگلی اور یہ انگلی ہاتھ یا پاؤں کی بھی ہو سکتی ہے۔
انڈیا میں سپریم کورٹ کی وکیل دیویا سنگھ کہتی ہیں کہ ’کسی لڑکی یا عورت کے جنسی اعضا میں اس کی رضامندی کے بغیر انگلی یا کوئی اور چیز زبردستی داخل کرنے کو ڈیجیٹل ریپ کہتے ہیں۔‘
یعنی اگر ہاتھ یا پیر یا کسی اور چیز کو جنسی تشدد کے لیے استعمال کیا جائے تو اس جرم کے مقدمے کو ’ڈیجیٹل ریپ‘ کے طور پر درج کیا جاتا ہے۔
ریپ اور ڈیجیٹل ریپ کے درمیان فرق
ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی میں جنسی جرائم کے مقدمات میں متاثرہ افراد کو انصاف کے حصول میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور ملزمان اکثر تکنیکی بنیادوں پر قانون سے بچ نکلتے تھے تاہم ملک میں سنہ 2012 میں جنسی جرائم سے متعلق قوانین میں تبدیلی کی گئی تھی۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئےوکیل دیویا سنگھ نے کہا کہ ’2013 سے پہلے اگر زبردستی جسمانی ملاپ کرنے کی کوشش کی جاتی تھی تو اسے ریپ سمجھا جاتا تھا لیکن قوانین کی تبدیلی کے بعد اندام نہانی میں انگلیاں یا دیگر چیزیں داخل کرنے کے عمل کو بھی قابلِ سزا جرم بنا دیا گیا۔‘
’فوجداری قانون ترمیمی ایکٹ 2013 کے ذریعے آئی پی سی کی دفعہ 375 میں ریپ کی تعریف کو وسیع کیا گیا۔‘
دیویا سنگھ کہتی ہیں کہ ’اب کسی کے جسم کے اندر ’ڈیجیٹل رسائی‘ کو بھی واضح طور پر ریپ سمجھا جاتا ہے اور اس کے لیے کوئی نرمی نہیں دکھائی جاتی۔‘
ملک میں سنہ 2012 میں جنسی جرائم سے متعلق قوانین میں تبدیلی کی گئی تھی’ڈیجیٹل ریپ‘ اب تعزیرات ہند کے تحت ایک سنگین جرم قرار دیا گیا ہے۔
انڈین قانون کے مطابق ’ڈیجیٹل ریپ‘ کے مقدمات میں کم از کم 10 سال سے لے کر عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ 12 سال سے کم عمر کی لڑکی کے ریپ کی صورت میں کم از کم 20 سال کی سزا تجویز کی گئی۔
’دخول نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ریپ نہیں ہوا‘
’ڈیجیٹل ریپ‘ کے معاملات میں پولیس کو فوری طور پر طبی معائنے، فرانزک کے لیے نمونے حاصل کرنے چاہیں اور متاثرہ شخص کا بیان ریکارڈ کرنا چاہیے۔
وکیل دیویا کہتی ہیں کہ ’اکثر میڈیکل رپورٹ میں بتایا جاتا ہے کہ پرائیویٹ حصوں پر کوئی چوٹ نہیں آئی، جس سے کیس کمزور پڑ جاتا ہے لیکن قانون کے مطابق ریپ کے مقدمات میں پرائیویٹ حصوں پر چوٹ کا ہونا لازمی نہیں۔‘
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’معاشرے میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ صرف دخول نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ریپ نہیں ہوا۔‘
اتر پردیش کی ضلعی عدالت نے حال ہی میں ’ڈیجیٹل ریپ‘ کے ایک مقدمے میں ایک شخص کو عمر قید کی سزا سنائیمتاثرین پر اثرات
سپریم کورٹ کی وکیل کامنی جیسوال کا کہنا ہے کہ ’ڈیجیٹل ریپ‘ کے معاملات میں بھی متاثرین کو اسی ذہنی تکلیف اور جذباتی صدمے کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کا سامنا ریپ سے متاثرہ دیگر افراد کر رہے ہوتے ہیں۔
وہ مزید کہتی ہیں کہ ’لوگ اکثر یہ نہیں سمجھتے کہ ’ڈیجیٹل ریپ‘ اصل میں کیا ہے لیکن قانون کے مطابق یہ ریپہی ہے۔‘
کامنی جیسوال کا مزید کہنا ہے کہ ’سیکس ایجوکیشن سکولوں اور کالجوں سے پہلے گھر سے شروع ہونی چاہیے۔ گڈ ٹچ، بیڈ ٹچ جیسی چیزیں چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو سکھائی جانی چاہیں۔‘
ان کا خیال ہے کہ ’معاشرے کو ایسے جرائم کو سنجیدگی سے لینا چاہیے اور ایسے جرائم کے لیے متاثرہ کو مورد الزام ٹھہرانا بند کرنا چاہیے۔‘