موسمیاتی تبدیلی اور بارشوں سے خیبر پختونخوا میں 31,596 ایکڑ زرعی زمین کو نقصان پہنچا ہے۔
خیبرپختونخوا میں حالیہ سیلاب اور کلاؤڈ برسٹ سے زرعی زمینوں اور فصلوں کے مد میں اربوں روپے کا نقصان، 31 ہزار ایکڑ زرعی زمین پر کھڑی تیار فصلیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں، حالیہ سیلاب میں زرعی زمینوں اور فصلوں کو پہنچنے والے نقصانات کے لیے محکمہ زراعت خیبر پختونخوا نے ابتدائی معلومات جاری کردیں جس کے مطابق صوبہ بھر میں 31,596 ایکڑ زمینوں کو نقصان پہنچا۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ نقصان بونیر میں رپورٹ کیا گیا ہے جس میں مجموعی طور پر 26141 ایکڑ زرعی زمین متاثر ہوئی ہے جس میں 23487 ایکڑ زمین پر مکئی کی فصل، 1300 ایکڑ پر چاول، 700 ایکڑ پر سبزی، 641 ایکڑ پر باغا ت کو نقصان پہنچا ہے۔
لوئر سوات میں 2702 ایکڑ زمین پر فصلوں کو نقصان پہنچا جس میں 729 ایکڑ زمین پر مکئی، 1209 ایکڑ پر چاول، 334 ایکڑ پر سبزیاں جبکہ 362 ایکڑ زمین پر باغات کے ساتھ 68 ایکڑ دیگر زمین کو نقصان پہنچا۔
رپورٹ کے مطابق بٹگرام میں 3.25 ایکڑ، باجوڑ میں 214 ایکڑ، چارسدہ میں 87 ایکڑ، دیر لوئر میں 617 ایکڑ، مانسہرہ میں 88 ایکڑ، نوشہرہ میں 130 ایکڑ، شانگلہ میں 520 ایکڑ، اپر سوات میں 1035 ایکڑ، اپر چترال میں55 ایکڑ زمین پر فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی پر کام کرنے والے سینئر صحافی داؤد خان نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں موافقت اپنانی ہوگی، ان فصلوں کو کاشت نہ کریں جو ژالہ باری اور زیادہ بارشوں سے متاثر ہوتی ہیں ان کی جگہ متبادل فصلوں کو کاشت کرنا ہوگا، انہوں نے مزید بتایا کہ زراعت کے لیے سائنسی طریقہ کار بھی موجود ہے جو چین، جاپان اور انڈیا نے اپنایا ہے، زرعی فصلوں کو بچانے کے لیے ان ممالک نے شیڈ سسٹم بنایا ہے جو فصلوں کو طوفان، بارش اور ژالہ باری سے بچانے میں مددگار ثابت ہوئے ہیں، مگر ہمارے ملک میں زمیندار غریب ہے، یہاں وہ اپنی زرعی زمینوں کو کھاد اور دیگر ضروریات پوری نہیں کرسکتا ہے ایسے میں اس جدید سائنسی طریقہ کار کو کس طرح لگائیں گے، موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ فصلوں کے بدلے اب متبادل فصلوں کو کاشت کرنا ہوگا جو موسمیاتی تبدیلی سے متاثر نہ ہوں۔
انہوں نے مزید بتایا اس سے قبل یو ایس ایڈ کے تعاون اس ٹیکنالوجی پر کام شروع ہوا تھا مگر امریکا کی جانب سے فنڈز کی بندش سے اب وہ منصوبہ بند ہوگیا ہے جبکہ محکمہ زراعت کے پاس اتنا فنڈز موجود نہیں ہے کہ وہ شیڈ منصوبے پر کام کرسکے۔ داؤد کے مطابق دنیا میں گزشتہ 20 سال سے ایگرو ٹیگ پر کام جاری ہے، اب کئی ممالک اپنی ضرورت کے مطابق زرعی زمینوں پر کاشت کریں گے، جتنی آبادی ہے اور جتنی ضرورت ہوں اس حساب وہ اپنی فصلیں کاشت کریں گے۔
گزشتہ سال تمباکو فصل کی قیمت بہتر ہونے کی وجہ سے رواں سال کاشت کاروں نے بڑی مقدار میں تمباکو کاشت کی ہے جس کی وجہ سے اب ٹوبیکو کمپنیاں پیداوار زیادہ ہونے کی وجہ سے زمیندار کو حکومت کے مقرر کردہ ریٹ بھی نہیں دیتیں جس کی وجہ سے زمینداروں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے، انہوں نے مزید بتایا کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان اور خصوصی طور پر خیبر پختونخوا کے شمالی علاقہ جات میں موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ اب ان فصلوں کے اگانے کا وقت بھی تبدیل کرنا چاہیے تاکہ فصلیں مون سون بارشوں اور ژالہ باری کے سیزن سے پہلے تیار ہوں جس سے مقامی کاشت کار کو نقصانات کی شرح کم ہوسکتی ہے۔
محکمہ زراعت کے مطابق ہم اب ایسی ورائٹی لارہے ہیں جو کم وقت میں تیار ہوں، ہم کوشش کرکے پہلے 120 دن میں تیار ہونے والی سبزیوں میں ایسی ورائٹی لائے ہیں جو سو دن میں تیار ہوں تاکہ فصل جلد تیار ہو اور بارشوں سے ان کے نقصانات کم ہوں۔
اس وقت خیبر پختونخوا میں پانچ لاکھ ایکڑ زمین پر سبزی کاشت کی جاتی ہے اگر اس کے لیے شیڈ سسٹم کا اندازہ لگائیں تو اس پر اربوں روپے کا خرچ آتا ہے، شیڈ سسٹم نصب کرنے پر ایک ایکڑ زمین پر 2.2 ملین روپے کا خرچ آتا ہے، اتنا فنڈز محکمہ زراعت کے پاس موجود نہیں ہے کہ وہ زمینداروں کو یہ سہولت فراہم کرسکے، شیڈ سسٹم میں استعمال ہونے والا مٹیریل امپورٹڈ ہوتا ہے اگر حکومت ان خام مال پر ٹیکس ختم کردے تو اس کی قیمت میں کمی آجائے گی اور زیادہ زمیندار اسے امپورٹ کرسکے گا۔
محکمہ زراعت کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے اس وقت خیبر پختونخوا میں ہزاروں ایکڑ زمین بارشوں کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے، اب نئی ورائٹی کو کاشت کرنا ہوگا جو موسمیاتی تبدیلی، گرمی اور بارشوں سے ان فصلوں کی کاشت سے نقصانات کم سے کم ہوں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق خیبر پختونخوا میں حالیہ قدرتی آفات کلاؤڈبرسٹ نہیں ہے، اس وقت تمام میڈیا پر صرف ایک ہی بات چل رہی ہے کہ کلاؤڈ برسٹ سے نقصانات ہوئے، سو ملی لیٹر بارش کو کلاؤڈ برسٹ کہا جاسکتا ہے مگر جہاں پر یہ قدرتی آفات آئے ہیں وہاں کوئی آلہ موجود نہیں ہے جس سے بارش کی مقدار کا اندازاہ لگایا جاسکے، اس وقت خیبر پختونخوا اور ملک کے دیگر صوبوں میں بارشیں زیادہ ہوئیں، خیبر پختونخوا میں بونیر، سوات، باجوڑ، صوابی، شانگلہ اور دیگر اضلاع میں زیادہ بارشیں اور آسمانی بجلی جسے مقامی لوگ تندر کہتے ہے اس کی وجہ سے زیادہ نقصانات ہوئے۔