خلائی مخلوق ہمیں اپنی مہمان نوازی کا موقع کب دے گی؟

بہت سے ماہرین کہتے ہیں کہ خلائی مخلوق کی موجودگی کے حوالے سے ٹھوس ثبوت نہ ہونے کے باوجود بھی ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ وہ موجود ہیں۔
خلائی مخلوق
Getty Images

رات کے وقت چمکتے ستاروں سے بھرے آسمان کو دیکھیں اور خود سے سوال کریں: کیا ہم اس وسیع کائنات میں واقعی اکیلے ہیں؟

ممکنہ طور پر ایسا نہیں۔

اربوں دوسرے مقامات کے اس وسیع سمندر میں زمین صرف ایک چھوٹا سا مقام ہے، آخر ہم اس میں واحد مخلوق کیسے ہو سکتے ہیں؟

تو ہم زمین سے باہر کی زندگی کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟

بہت سے ماہرین کہتے ہیں کہ خلائی مخلوق کی موجودگی کے حوالے سے ٹھوس ثبوت نہ ہونے کے باوجود بھی ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ وہ موجود ہیں۔

ہماری اپنی کہکشاں، کائنات کی تقریباً 200 ارب کہکشاؤں میں سے ایک ہے اور اس کہکشاں میں 300 ارب سے زیادہ ستارے موجود ہیں۔

ہمارا اپنا ستارہ یعنی سورج زمین پر زندگی کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔

اور سائنسدان مستقل ان ستاروں کے گرد گردش کرنے والے سیاروں کو دریافت کر رہے ہیں، جنھیں ’ایگزو پلینٹ‘ کہا جاتا ہے۔

آسمان
Getty Images

جو ٹیکنالوجی اب ہمارے پاس موجود ہے اس کی بدولت ہم ان ایگزو پلینٹس کا تفصیل سے معائنہ کر سکتے ہیں۔

سائنس دان طاقتور دوربینوں کا استعمال کرتے ہوئے ان اجرام فلکی کا معائنہ کر سکتے ہیں جو اپنے ستاروں کے گرد گھوم رہی ہیں تاکہ ان میں سے گزرنے والی ستاروں کی روشنی کی کیمیائی ساخت کا جائزہ لیا جا سکے۔ اسے ’سپیکٹروسکوپی‘ کہتے ہیں۔

اس میں سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اس عمل کے ذریعے زمین سے ملتی جلتی کیمیائی ساخت کو تلاش کیا جائے، جس کا مطلب یہ ہے کہ زمین جیسا ماحول کہیں اور بھی موجود ہے، شاید ہزاروں نوری سال دور، جہاں ممکنہ طور پر ہماری جیسی زندگی موجود ہو سکتی ہے۔

اس حوالے سے ملنے والے اشارے حوصلہ افزا ہیں۔

برطانیہ میں یونیورسٹی آف مانچسٹر میں ایسٹروفزکس کے پروفیسر ٹم او برائن کہتے ہیں کہ ’ہم سینکڑوں ممکنہ طور پر رہنے کے قابل سیاروں کے بارے میں جانتے ہیں۔ ہم یقینی طور پر اگلی دہائی یا اس سے زیادہ کے اندر ایک ایسا سیارہ تلاش کر لیں گے، جہاں ممکنہ طور پر زندگی کے ثبوت موجود ہوں گے۔‘

اس حوالے سے سب سے زیادہ حوصلہ افزا ثبوت تو ہمیں زمین سے ہی ملا۔

جاندار ایسے بہت سے مقامات پر پائے گئے ہیں، جن کے بارے میں پہلے سمجھا جاتا تھا کہ یہاں پر ماحول زندگی کے لیے مناسب نہیں۔ ایسی جگہیں جہاں سورج کی روشنی یا تپش نہیں پہنچتی، مثال کے طور پر ہمارے سمندروں کی گہرائی میں۔

 ڈاکٹر میگی ایڈرین پوکاک
BBC
ڈاکٹر میگی ایڈرین پوکاک

ماضی میں ہمارا یہ ماننا تھا کہ زندگی صرف کسی ایسے سیارے پر ہی موجود ہو سکتی ہے جو اپنے مقامی ستارے سے ایک خاص فاصلے پر موجود ہو (تاکہ اس میں تابکاری کی سطح صحیح ہو۔)

زمین کے ایسے مقامات پر زندگی کی موجودگی (جن کے بارے میں ہم نے سوچا تھا کہ یہاں زندگی موجود نہیں ہو سکتی) نے اس امکان کے بارے میں ہماری آنکھیں کھول دی ہیں کہ چاند پر بھی ماحول زندگی کے لیے سازگار ہو سکتا ہے۔

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگرچہ اس بات کے امکان بہت زیادہ ہیں کہ وہاں زندگی موجود ہے لیکن فی الحال یہ جاننا مشکل بلکہ شاید ناممکن ہے کہ یہ زندگی کتنی ذہین ہے۔

پروفیسر او برائن کہتے ہیں کہ ’زمین پر زندگی کی زیادہ تر تاریخ کے مطابق یہ بہت سادہ زندگی تھی۔ حقیقت میں یہ اربوں سال تک بیکٹیریا کی زندگی تھی۔‘

اور یہ بہت سے واقعات کا ایک سلسلہ تھا جس کے نتیجے میں ہمارے سیارے پر کثیر خلوی زندگی ممکن ہوئی۔

لیکن خلائی مخلوق کو اس دنیا سے رابطہ قائم کرنے کے لیے جسمانی اور تکنیکی طور پر ہم سے جدید ہونا چاہیے۔

خلائی مخلوق کا انتظار

تو اگر اس کائنات میں ہم اکیلے نہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ خلائی مخلوق ہماری زمین کا دورہ کرے گی؟

یہ ایک پیچیدہ معاملہ ہے۔

اس بات پر یقین کرنا کافی مشکل ہے کہ زندگی کی کوئی بھی شکل اس مقام پر نہیں پہنچی کہ وہ ستاروں کے درمیان سفر کر سکے۔

تو جہاں تک ہم بتا سکتے ہیں، یہ ابھی تک ہوا کیوں نہیں؟

خلائی سائنسدان ڈاکٹر میگی ایڈرین پوکاک کہتی ہیں کہ ’ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس زندگی کی صرف ایک مثال موجود ہے اور وہ ہمارے اپنے سیارے پر اس کی موجودگی ہے۔‘

لیکن یہ ممکنہ طور پر کائنات میں کسی اور جگہ کا بلیو پرنٹ نہیں۔

مثال کے طور پر ڈاکٹر ایڈرین پوکاک کہتی ہیں کہ ’اگر آپ کسی ایسے ستارے کے قریب رہتے ہیں جو کافی متحرک ہے، تو آپ سطح کے نیچے رہ سکتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہاں زندگی نہیں لیکن آپ کے پاس ترسیل کے ذرائع نہیں ہوں گے کیونکہ آپ سطح کے نیچے رہتے ہیں۔‘

کہکشاں
Robert Gendler/Science Photo Library/Getty

یا صرف یہ ہو سکتا ہے کہ ہم ایک زبان نہیں بولتے ہیں اور سائنسی طور پر یقیناً ایسا ہی ہے۔

پروفیسر او برائن کہتے ہیں کہ ’اب ہم تقریباً 1960 سے ایسی مخلوق کے سگنلز کو سننے کے لیے ریڈیو دوربینوں کا استعمال کر رہے ہیں۔‘

تاہم بہت سے مختلف طریقے ہیں جن میں لائف فارم (کوئی بھی زندہ چیز) سگنل بھیج سکتی ہے۔

اور یہاں تک کہ اگر ہم کائنات میں موجود دیگر زندگیوں کے ساتھ ایک سطح پر بھی ہوں تو ہمارے بیچ موجود وسیع فاصلے کا مطلب ہے کہ پیغامات کی ترسیل اور پھر اس کا جواب دینے میں ہزاروں سال لگ سکتے ہیں (اس کے بارے میں ایسے سوچیں کہ ماضی میں خط کے ذریعے بات چیت کرنا اب نا ممکن حد تک سست لگتا ہے)۔

یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں شروع ہونے والے ایک نئے پروجیکٹ بریک تھرو لسن (Breakthrough Listen) کی مدد سے سائنسدان قریب ترین موجود دس لاکھ ستاروں کو تلاش کر رہے ہیں جہاں سے زمین پر واپس پیغامات بھیجے جا سکیں۔

وہ ان ستاروں کو بھی دیکھ رہے ہیں جو ہماری کہکشاں سے 25 ہزار نوری سال دور ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ ان ستاروں میں سے کسی ایک کی طرف سے بھیجے گئے پیغام کو ہم تک پہنچنے سے پہلے تقریباً 25,000 سال کا سفر کرنا پڑے گا۔

تو اگر خلائی مخلوق موجود ہے تو ہمیں ان کی جانب سے کوئی پیغام ملنے یا ان سے رابطہ قائم ہونے میں ہزاروں برس لگ سکتے ہیں۔

ایک طویل سفر

وسیع فاصلے پر موجود کہکشاؤں کے درمیان سفر کا مستقبل قریب میں بھی کوئی امکان نہیں۔

ہم ریڈیو لہریں روشنی کی رفتار پر بھیجنے کے قابل ہیں لیکن یہ صرف ایک ریڈیو لہر ہے جو خلا میں سفر کرتی ہے۔ کسی بھی قسم کی خلائی گاڑی ستاروں کے درمیان سفر کرنے کے قابل نہیں۔

اگر ہم انسانوں کو وہاں بھیجنا چاہتے ہیں تو یہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

اور اگر ہماری تہذیب ابھی تک ایسا کچھ کرنے کے قابل نہیں تو ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمارے خلائی پڑوسی بھی شاید اس قابل نہیں۔

اور اگر ان کے پاس ہمارے یہاں آنے کے لیے سفر کرنے کی ٹیکنالوجی موجود تھی، تو ہمیں اس امکان پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ شاید ایسا نہیں چاہتے ہیں۔

اس میں قسمت یا اچھی ٹائمنگ کے عنصر کو شامل کرنے کی بھی ضرورت ہے اور یہ بات بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ ہماری تہذیب نے دراصل زمین پر کتنا کم وقت گزارا ہے۔

زمین پر زندگی 3.5 ارب برسوں سے موجود ہے لیکن جدید انسان تقریباً 300,000 سال سے ہی موجود ہیں اور چونکہ تہذیبیں بڑی تیزی سے غائب ہو سکتی ہیں تو خلائی مخلوق سے رابطے کا وقت بھی کافی محدود ہے۔

ہم قطعی طور پر یہ نہیں جانتے کہ کیا خلائی مخلوق کبھی ہمارے سیارے پر آئی تھی لیکن جو چیز ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں وہ یہ کہ شاید وہ اس وقت نہیں آئیں ہوں گے، جب انسان اس سیارے پر موجود تھا۔

ڈاکٹر ایڈرین پوکاک کہتی ہیں کہ ’شاید وہ بہت پہلے یہاں آئے تھے، یا وہ مستقبل میں آئیں گے، انسانی زندگی کے ختم ہونے کے بہت بعد۔‘

تو شاید ڈائنوسارز نے خلائی مخلوق کی میزبانی کی ہو لیکن ہم شاید کبھی اس بارے میں نہیں جان پائیں گے۔


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US