انڈیا کے ایک مندر میں ’ریپ کے بعد قتل ہونے والی 100 سے زیادہ لڑکیوں کو دفن کرنے والا‘ شخص گرفتار

انڈیا میں پولیس نے اس شخص کو گرفتار کر لیا ہے جس نے حال ہی میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھیں زبردستی ایسی درجنوں خواتین کی لاشیں دفن کرنے پر مجبور کیا گیا جن کا پہلے ریپ کیا گیا اور پھر انھیں قتل کر دیا گيا۔

انڈیا میں پولیس نے اس شخص کو گرفتار کر لیا ہے جس نے حال ہی میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھیں زبردستی ایسی درجنوں خواتین کی لاشیں دفن کرنے پر مجبور کیا گیا جن کا پہلے ریپ کیا گیا اور پھر انھیں قتل کر دیا گيا۔

ان کے اس چونکا دینے والے دعوؤں نے انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک کے ایک چھوٹے مذہبی قصبے دھرم استھل (دھرم استھلا) کو ہلا کر رکھ دیا۔

یہ قصبہ صدیوں پرانے منجوناتھ سوامی مندر کا مسکن ہے جو ہندو مذہب کے تین مقدس بھگوانوں میں شمار ہونے والے شیو کے اوتار مانے جاتے ہیں۔ یہ مندر روزانہ ہزاروں زائرین یا مذہبی عقیدت مندوں کی منزل ہے اور مقامی لوگوں کی زندگی کا مرکزی حصہ ہے۔

ریاست میں سیاسی تنازع کے بعد حکومت نے ان الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) تشکیل دی۔

ایس آئی ٹی کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ اس شخص کو ’دروغ حلفی‘ یعنی جھوٹا بیان دینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

جولائی کے اوائل میں درمیانی عمر کے اس شخص نے پولیس میں شکایت درج کرائی تھی اور مجسٹریٹ کے سامنے بیان بھی ریکارڈ کروایا تھا۔ اس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی اور وہ اب تک عوام میں سیاہ لباس، نقاب اور ہیلمٹ میں نظر آیا ہے۔

پولیس میں درج شکایت بی بی سی نے دیکھی ہے۔ اس میں اس شخص نے کہا کہ وہ 1995 سے 2014 تک مندر میں صفائی کا کام کرتا رہا تھا۔

اس نے الزام لگایا کہ اس دوران اسے سینکڑوں لڑکیوں اور عورتوں کی لاشوں کو دفن کرنے کے لیے مجبور کیا گیا جنھیں ریپ کے بعد بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔

انھوں نے ایسے پانچ واقعات کی تفصیل دی اور کہا کہ اس طرح کے کئی اور واقعات بھی ہیں۔ انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ کچھ متاثرہ لڑکیاں نابالغ تھیں۔

اس شخص کا کہنا تھا کہ وہ 2014 سے روپوش تھا لیکن اب اپنی ضمیر کی آواز پر اس نے واپس آ کر سب کچھ بیان کرنے کا فیصلہ کیا۔

صفائی کرنے والے نے کسی فرد کا نام تو نہیں لیا البتہ مندر کی انتظامیہ اور عملے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ مندر کے سربراہ نے ان الزامات کو ’جھوٹا اور بے بنیاد‘ قرار دیا۔

جب انھیں مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا تو انھوں نے اپنے تھیلے سے ایک انسانی کھوپڑی بطور ثبوت پیش کی۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ اس لاش کی ہے جسے اس نے دفن کیا تھا اور حال ہی میں دوبارہ اس جگہ سے نکالی۔

ایس آئی ٹی کے ایک افسر نے کہا کہ وہ کھوپڑی اور ہڈیاں اس جگہ سے نہیں لائی گئیں جہاں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ لاشیں دفن ہیں۔

سنیچر کے روز اس کی گرفتار نے پورے معاملے میں ایک نیا اور بڑا موڑ اختیار کیا ہے جس نے ریاست کے اندر اور باہر شدید ہلچل مچا دی ہے۔

مندر کے سابق صفائی ملازم کے الزامات کو میڈیا میں بڑی کوریج ملی تھی۔ ریاستی خواتین کمیشن کی تشویش کے بعد حکومت نے بڑی تفتیشی کارروائی شروع کی اور ایس آئی ٹی بنائی۔

پچھلے کئی ہفتوں سے ٹیم نے دھرم ستھل اور اس کے آس پاس کی جگہوں پر کھدائیاں کیں تاکہ دعووں کی حقیقت معلوم ہو۔ اس شخص نے ابتدائی طور پر 13 مقامات کی نشاندہی کی تھی، جن میں سے کچھ گھنے جنگلات میں تھے جہاں زہریلے سانپوں کی موجودگی کی بھی اطلاع ملی۔

ایس آئی ٹی کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ دو مقامات سے انسانی باقیات، جن میں ایک کھوپڑی اور لگ بھگ سو ہڈیوں کے ٹکڑے شامل ہیں، ملی ہیں اور انھیں فرانزک جانچ کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ یہ اب تک واضح نہیں کہ یہ کن کی باقیات ہیں۔

الزامات نے بااثر ہیگڑے خاندان کو بھی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے جو اس مندر کے موروثی منتظم ہیں۔

مندر کے چیف ایڈمنسٹریٹر ویرندر ہیگڑے، جو انڈین پارلیمان کے ایوان بالا یعنی راجیہ سبھا کے رکن ہیں اور جنھیں سنہ 2015 میں ملک کا دوسرا سب سے بڑا شہری اعزاز پدم وِبھوشن دیا گیا، نے بی بی سی کو جاری بیان میں ایس آئی ٹی کی تحقیقات کا خیر مقدم کیا۔

انھوں نے لکھا: ’ہم واقعی حکومت کے شکر گزار ہیں کہ اس نے دھرم ستھلا میں مبینہ غیر فطری اموات کی تحقیقات کے لیے ایس آئی ٹی مقرر کی۔‘

انھوں نے مزید کہا: ’ہم تحقیقات میں مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنی عدلیہ، تحقیقاتی اداروں اور انڈیا کے آئین پر پورا بھروسہ ہے۔‘

بعد میں انڈین خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے سابق ملازم کے دعووں کو ’ناممکن‘ قرار دیا اور کہا کہ ’اب یہ معاملہ ہمیشہ کے لیے صاف ہو جانا چاہیے۔‘

ان الزامات نے بڑا سیاسی تنازع بھی کھڑا کر دیا۔ ریاستی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں اس پر بحث ہوئی، جہاں اپوزیشن بی جے پی کے ارکان نے اسے ہندو مذہبی مقام کے خلاف ’بدنامی کی مہم‘ قرار دیا جس کے کروڑوں عقیدت مند ہیں۔

ریاست میں کانگریس پارٹی کی حکومت ہے۔ ریاستی وزیر داخلہ جی پرمیشور نے کہا کہ حکومت کا کسی کو بچانے یا کسی کو بدنام کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

انھوں نے کہا: ’کیا سچ سامنے نہیں آنا چاہیے؟ اگر کچھ نہیں ملا تو دھرم ستھل کی عظمت مزید بڑھے گی۔ اگر کچھ ثابت ہوا تو انصاف ضرور کیا جائے گا۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Follow US